پاکستان کا توازن ادائیگیاں

پاکستان کا توازن ادائیگیاں ⇐کسی ملک کے باشندوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے باشندوں کے درمیان معاشی لین دین کی ادائیگیوں کو توازن ادائیگی  ادائیگیوں کا توازن  کہا جاتا ہے۔  جب کسی ملک کی مجموعی وصولی ادائیگیوں کی نسبت زیادہ ہو تو ادائیگیوں کا توازن اس ملک کے حق میں  کہلاتا ہے اور جب وصولیوں کی نسبت ادائیگیاں زیادہ ہوں تو ادائیگیوں کا توازن مخالف  کہلاتا ہے۔ توازن ادائیگی میں مرئی اشیا  اور غیر مرئی  مدات شامل ہوتی ہیں ۔ مرقی اشیا  میں سرکاری اور بی سیم پر درآمد اور برآمد کی جانے والی اشیا شامل ہوتی ہیں مثلاً پاکستان سے برآمد کی جانے والی اشیا پٹرولیم کی مصنوعات مشینری کھاویں وغیرہ کپاس چاول، کپڑ اجراحی آلات کالین وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح درآمدی اشیا میں پٹرول اور شامل ہیں جبکہ غیر مرئی مدات میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم سفارتی وفود اور عملہ کے اخراجات بیرونی امداد سود اور سرمایہ کاری میں منافع ، انشورنس، تعلیم اور سیر و تفریح پر اخراجات اور سفری اخراجات وغیرہ شامل ہیں۔ سال 51-1950 اور  کے دو سالوں کے علاوہ پاکستان کا توازن ادائیگی همیشه نا موافق  رہا ہے ۔ 51-1950 میں کوریا کی جنگ کی وجہ سے پاکستان کا توازن ادائیگی بہتر ہو گیا۔ اس طرح 1972 میں روپے کی قدر میں 154.3 فیصد کمی کی وجہ سے 73-1972 میں پاکستان کا توازن ادائیگی موافق ہو گیا جبکہ بقیہ سالوں میں پاکستانی برآمدات کی نسبت درآمدات زیادہ ہی رہیں جن کی وجہ سے توازن ادائیگی پاکستان کے لیے موافق نہ رہا۔

پاکستان کا توازن ادائیگیاں

پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن میں خرابی کے اسباب

برآمدات کی نوعیت

پاکستان کی برآمدات میں چند اشیا ہی شامل ہیں۔ جن میں کپاس ، چڑا چاول سوتی دھاگہ اور کپڑا کھیلوں کا سامان اور چند دیگر اشیا شامل ہیں ۔ ک برآمدات میں سے کپاس اور اس کی مصنوعات کا حصہ 50.1 فی صد بنتا ہے۔ مزید برآں پاکستان چند ممالک کو ہی یہ اشیا برآمد کرتا ہے۔ مزید منڈیوں تک رسائی نہ ہونے اور جدید مصنوعات کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کا توازن ادائیگی خرابی کا شکار رہتا ہے۔

پاکستان کا توازن ادائیگیاں

مصنوعات کی کم قیمت

پاکستانی مصنوعات کی کوالٹی اچھی نہ ہونے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے خلاف ” چائلڈ لیبر اور دیگر قسم کے پراپیگینڈو کی وجہ سے ہم اپنی مصنوعات کی صحیح قیمت وصول نہیں کر پاتے اور کم قیمت پر اشیا کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

کوٹہ کی پابندیاں

پاکستان کو کئی ایسے ممالک کی طرف سے کو ئہ وغیرہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ پاکستانی مصنوعات کے خریدار ہیں۔ یوں پاکستان اپنی مصنوعات کی ایک خاص مقداری برآمد کر پاتا ہے۔

نسبت در آمد و بر آمد کا نا موافق ہونا

بیرون ملک بیچی جانے والی اشیا کی شرح تبادلہ یا نسبت در آمد و بر آمد   پاکستان کے حق میں نہیں ہوتی ۔ کیونکہ پاکستانی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی میں سخت مقابلہ در پیش ہوتا ہے اور مصنوعات کے معیار کی وجہ سے صبح قیمت نہیں مل پاتی ۔ اس لیے توازن ادائیگی خراب رہتا ہے۔

درآمدات میں اضافہ

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنی ضرورت کی بہت سی مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور قیمتیں بھی ہمارے توازن ادائیگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ زراعت کو ترقی دینے کے لیے پاکستان ہر سال کیمیاوی کھادیں، زرعی مداخل اور مشینری در آمد کرتا ہے۔ صنعتی مال کی تیاری کے لیے لیے بھی خام مال اور مشیری در آمد کرنا پڑتی ہے۔ جس پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ یوں درآمدات پر پاکستان کو بہت بھاری مقدار میں زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مصارف پیدائش میں اضافہ( تیل کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگی مشینزی اجرتوں میں اضافہ خام مال کی خرید پر بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ٹیکنالوجی لوجی کے کے بجائے پرانی اور فرسودہ مشینری کا استعمال بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں، ٹیکسوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور کس کے نظام میں کرپشن اور دیگر وجوہات کی بنا پر مصنوعات کے مصارف بڑھتے جاتے ہیں ۔ اس لیے پاکستانی مصنوعات چین اور دیگر ممالک کی سنتی اشیا کا مقابلہ نہیں کر پاتیں ۔ نتیجا پاکستان کی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح چائنا وغیرہ کی سنتی اشیا کی درآمد میں مسلسل اضافہ توازن ادائیگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

غیر مرئی درآمدات میں اضافہ

ہماری غیر مرئی در آمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں ۔ لوگ بیرون ملک کی فرموں اور اداروں پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ بیرونی پر کمپنیوں پرلوگوں کا اعتماد زیادہ ہوتا ہے۔ ملکی فضائی اور بحری جہازوں کی کمپنیاں ملکی ضرورت کو پورا نہیں کر پاتیں۔ جس کی وجہ سے بیرونی کمپنیوں کے لیے زرمبادلہ کمانے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اولیول (O-Level) اور اے لیول کا بڑھتا ہوا جنون بھی کروڑوں پونڈ کی ادائیگی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ علاج معالجہ سیر وسیاحت وغیرہ پر بھی بہت زیادہ زرمبادلہ خرچ ہو جاتا ہے۔ جس کے منفی اثرات توازن ادائیگی پر مرتب ہوتے ہیں۔

کرنسی کی بیرونی قدر میں کمی

میں اپنی کی۔ سے برآمدات میں توام پاکستان نے 1972ء میں اپنی کرنسی کی قدر میں 154.3 فیصد کمی کی ۔ اس سے برآمدات میں تو اضافہ ہوا، لیکن اس کے ساتھ کی میتوں میں اضافہ ہوگیا۔ کرنیکی قدر ے دو مقاصد ہیں۔ برآمدات درآمدات کی قیمتوں میں بھی اس قدر اضافہ ہو گیا ۔ کرنسی کی بیرونی قدر میں کمی کے عموماً دو مقاصد ہوتے ہیں ۔ برآمدات میں اضافہ کرنا اور درآمدات میں کی کرنا اس سے پہلا مقصد تو حاصل ہوا لیکن دوسرے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑا نقصان و بڑھ گئے۔ یوں پاکستان کی معیت کو یہ ہو کہ پاکستان کے قرضہ میں راتوں رات کی گنا اضافہ ہو گیا۔ جس سے مصارف قرضہ بھی بہت زیادہ بڑھ گئے۔ یوں توازن ادائیگی میں خرابی بڑھتی گئی۔

اثر نمائش

پاکستان کے عوام دوسرے ملکوں کی مصنوعات استعمال کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے بھی بیرونی ممالک کی ضرورت کی طلب بڑھتی جاتی ہے اور در آمدات کی مقدار اور اخراجات میں اضافہ ہوا چلا جاتاہے اور توان ادائیگی خرابی کاشکار ہوجاتا ہے۔ اگر حکومت ان اسباب کا سد باب کرلے تو ادائیگیوں کا توازن کچھ حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “قانون “پاکستان کا توازن ادائیگیاں”  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

 

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment