پاکستان کی اہم برآمدات

پاکستان کی اہم برآمدات پاکستان کی اہم برآمدات درج ذیل ہیں۔

پاکستان کی اہم برآمدات

کپاس

پاکستان کی یہ اہم ریشہ دار فصل ہے۔ ہماری بر آمدی کمائی میں اس کا بڑا حصہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیائیں کپاس کی عالمی پیداوار کا 20 فیصد حصہ صرف پاکستان میں پیدا ہوتا ہے۔ ہماری کپاس کے زیادہ تر خریدار جاپان ، برطانیہ چین برائے کی مالیت 07-2006 ء میں پاکستان نے قریبا 45.3 ملین ڈالر کی کپاس بر آمدن ابلہ 08-2007ء میں یہ برآمدی مالیت بڑھ کر 1 58 ملین ڈالر ہوگئی۔ پولینڈ ، رومانیہ اور ہانگ کانگ ہیں۔

کپاس کی مصنوعات

شروع میں ہماری کپاس کی مصنوعات کی برآمدات بہت محدود تھی۔ بعد میں ان کی برآمد کو فروغ حاصل ہوا۔ سوتی کپڑے کی صنعت نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے۔ کئی ملکوں نے ہمارے کپڑے کے مقابلے میں اپنی صنعت کو تامین دی ہوئی ہے۔ خریدار: کپاس کی مصنوعات کے زیادہ تر خریدار افغانستان، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا ہیں۔ ہانگ کانگ، برما اور سری لنکا وغیرہ پاکستان سے سوتی دھاگہ منگواتے ہیں۔

برآمدی مالیت 

کپاس کی مصنوعات کی برآمد سے پاکستان کو قریباً 8829.7 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ 2007-08ء میں یہ آمدنی کم ہو کر 8591.5 ملین ڈالر ہوگئی۔

چاول

چاول پر پاکستان کی اہم زرعی فصل ہے۔ پاکستان میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ شروع میں چاول برآمد نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر اب چاول کی اعلیٰ قسموں کی پیدا وار اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اسے برآمد کرنا پڑتا ہے۔

چاول

 

خریدار

ہمارے چاول کے خریدار سعودی عرب کویت ، برطانیہ روس اور عراق وغیرہ ہیں۔

برآمدی مالیت

پاکستان نے 07-2006ء میں تقریبا 942 ملین ڈالر کا چاول برآمد کیا جبکہ 08-2007 ء میں پاکستان کو چاول کی برآمد سے 1210.9 ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔

کھالیں اور چمڑا

ہماری ایک اہم برآمدی شے کھالیں اور چھڑا بھی ہے۔ ہمارے ہاں اچھی نسل کے جانور پالے اور قربان کئے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کی کھالیں بیرون ملک جوتے بنانے اور چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے کے کام آتی ہیں۔

خریدار

پاکستان سے کھائیں اور چڑا خرید نے والے ملکوں میں برطانیہ، جرمنی اور امریکہ شامل ہیں۔ 1976ء کے بعد خود ہمارے ہاں کھالوں اور چیڑے کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہےکہ اب کئی ملکوں کو ہم یہ چیزیں بر آمد نہیں کرتے ۔

برآمدی مالیت

 میں ہم نے 279.8 ملین ڈالرکی مالیت کی کھالیں اور چڑا بر آمد کیا۔ 08-2007 ء میں یہ مالیت 338.6 ملین ڈالر ہو گئی۔

مچھلی

مچھلی اور مچھلی سے تیار کردہ دوسری اشیا کی برآمد بھی ہمارے ملک کے لئے زر مبادلہ کا آسان اور معقول راستہ ہے۔ کھلا اور محفوظ سمندر، دریا اور جھیلیں موجود ہونے کی بناء پر مچھلی پکڑنا ، اس کی مصنوعات تیار کرنا اور بر آمد کرنا نسبتا ستا معاملہ ہے۔

خریدار

مچھلی اور اس کی مصنوعات پاکستان سے مشرقی وسطی کے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔

برآمدی مالیت

 میں مچھلی کی برآمد سے پاکستان نے قریبا 2. 158 ملین ڈالر کمایا جبکہ اس شعبے سے 08-2007 ء میں ہماری برآمدی کمائی 165.9 ملین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

قالین اور عالیجے

پاکستانی اون بستی مزدوری اور مقامی ہنر مندوں کی وساطت سے ہم نے قالین اور غالیچے بر آمد کرنے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ بیرونی ممالک میں ان اشیا کی منڈیاں وسیع ہیں۔ ان کی برآمد میں مسلسل حوصلہ افزار اضافہ ہو رہا ہے۔

خریدار

قالین اور غالیچوں کے خریدار یورپ، مشرق وسطی کے علاوہ امریکہ میں بھی ہیں۔

بر آمدی مالت

  میں قالینوں اور غالیوں کی برآمد سے پاکستان نے قریبا 193.3 ملین ڈالر کمایا۔ 08-2007 ء میں بھی کمائی 182.3 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔

متفرقات

ان اشیاء کے علاوہ پاکستان سے باہر جانے والی اشیا کی تعداد میں گزشتہ 60 سالوں میں متعدد بار اضافہ ہوا ہے۔ برآمدی تجارت میں نئی متعارف ہونے والی اشیاء میں جوتے ، رنگ در روغن تمبا کوہ سلے سلائے کپڑے، ادویات، آلات جراحی، نظری، ماربل کی اشیاء، مولاس اور کھیلوں کا سامان وغیرہ شامل ہیں۔ ان اشیا کی برامدی مالیت میں بھی گزشتہ دس سالوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

زر اور سرمائے کی منڈی

اشیا خدمات کی منڈی کی ترقی کا دارد مدار بڑی حد تک زر اور سرمائے کی منڈی پر ہوتا ہے۔ کیونکہ پیداواری عمل کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بازار زر اور بازار سرمایہ ہی فراہم کر سکتے ہیں ۔ بازار زر میں تقلیل مدت کے قرضوں کا لین دین ہوتا ہے جبکہ بازار سرمایہ میں طویل مدت کے قرضوں کا لین دین ہوتا ہے۔ سرمائے کی منڈی قومی بچتوں میں تحریک پیدا کر کے انہیں ان لوگوں تک پہنچاتی ہے جو آجرانہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ان رقوں سے سرمایہ کاری کرکے زرعی اور منتی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔ پھر معیشت میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو کاروباری صلاحیتیں رکھتے ہیںلیکن مالیات کی کی کے باعث انہیں بروئے کار لانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ زرا اور سرمائے کی مندی ایسے لوگوں کو قرض کی سہولت فراہم کر کے معاشرے کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔ تیزر بازار زر اور بازار سرمایہ سے سرمائے کی نقل پذیری میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ کم آمدنی والے شعبوں سے نکل کر زیادہ آمدنی والے شعبوں کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے باز ارز را در بازار سرمایہ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔ پاکستان کے بازار زر میں وہ ادارے شامل ہیں جو قلیل عرصے کے لئے قرضوں کا لین دین کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تجارتی بینک خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں ۔ یہ بینک عموما ایک ماہ سے لیکر تین ماہ کی مدت کے لئے قرض دیتے ہیں ۔ پاکستان کے بازار سرمایہ میں وہ ادارے شامل ہیں جو طویل مدت کے لئے قرضے دیتے ہیں۔ ان اداروں میں زرعی ترقیاتی بینک بیہ کمپنیاں، اسٹاک ایکھینچ منڈیاں اور تعمیر مکانات کی مالی کارپوریشن پاکستان صنعتی قرضہ اور سرمایہ کاری کارپوریشن  ، انوسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان اور قومی امانتی وغیرہ شامل ہیں۔

زر اور سرمائے کی منڈی

بیمہ کمپنیاں

بیمہ کمپنیاں دور حاضر کی صنعت و تجارت کے فروغ میں نمایاں حصہ لیتی ہیں اور ایک طرف تو کاروبار کو مختلف قسم کے خطرات سے بچاؤ کا انتظام کرتی ہیں تو دوسری طرف لوگوں میں تحریک پیدا کر کے ان کی رقموں کو پیداواری شعبوں میں استعمال کے لئے مہیا کرتی ہیں۔ پاکستان میں ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیاں بھی بیمہ کا کاروبار کر رہی ہیں حسین آہستہ آہستہ بیمہ کا زیادہ تر کارو بار اب کی کمپنیوں کے ہاتھ میں آرہا ہے۔ بیمہ کے کاروبار کو تحفظ مہیا کرنے کی فرض سے حکومت پاکستان نے 1953 ء میں ایک پاکستان انشورنس کارپوریشن قائم کی۔ اس کارپوریشن کے قیام کے بعد بیمہ کمپنیوں کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید تقویت ملی اور ملک میں اس کاروبار نے خوب ترقی کی۔ 1972ء میں بیمہ کا کار و بار قومی ملکیت میں لے لیا گیا تا کہ صنعتی شعبے میں اجارہ داریوں کا زور توڑا جائے اور پالیسی بالنڈروں کو بیمہ کی رقم حاصل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور نہیں دور کیا جائے۔ زندگی کے ہمہ کے کارو بارکو فروغ دینے کے لئے ایک کروڑ روپے کے سرمائے سے 1972ء میں ایک اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن قائم کی گئی۔ اس کارپوریشن کے قیام سے زندگی کے بیمہ کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔

اسٹاک ایکسچینج منڈیاں

اسٹاک مارکیٹ سرمائے کی منڈی کا بنیادی رکن ہے۔ اس کی بدولت مالی سرمایہ کاری کی مختلف سرکاری کفالتوں میرجل فنڈ ڈی تحرز شکلوں مثلاً حصص اور تسکات کو فقہ محل میں بدلا جاسکتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ پر رونما ہونے والے واقعات سرمایہ کاروں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کون کون سے کاروبار زیادہ نفع مند ہیں ۔ اس وقت ملک میں تین اسٹاک اکھینچ منڈیاں ہیں۔ ایک کراچی میں اور دوسری لاہور میں جبکہ تیسری اسلام آباد میں۔ کراچی کھینچ 1949 ء میں قائم ہوا جبکہ لاہور اسٹاک اینچ 1971 میں قائم ہوا۔ جبکہ اسلام آباد شاک ای ھیچ گذشتہ چند سالوں میں قائم ہوئی ۔ ان منڈیوں کے کاروبار میں باقاعدگی پیدا کرنے کی غرض سے مزید دو ایجنسیاں قائم کردی گئ ہیں ایک سیکورٹیز اینڈ ایچ اتھارٹی آف اور دوسری ” کنٹرولر آف کیپٹل ایشوز پاکستان  اول الذکر ادارہ تمام کمپنیوں کے حسابات کی پڑتال کرتا ہے تا کہ کمپنیوں کی کار کردگی کا حصہ داروں کو علم ہو سکے۔ مواخر الذکر ادارہ مشترکہ کاروباری شعبہ کی جانب سے سرمائے کے اجراء کی اجازت دینے کا کام کرتا ہے۔ اپریل 2008 ء تک پاکستان میں رجسٹر ڈ جائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی تعداد 54000 ہوگئی ہے اور اس وقت تک کراچی اور لاہور کی اسٹاک ایچینج منڈیوں میں 914 کمپنیوں کے حصوں کی خرید وفروخت ہو رہی تھی۔ 2000ء میں کراچی اسٹاک ایچینج میں کمپنیوں کی تعداد 762 ہوگئی۔

پاکستان میں زرا اور سرمائے کی منڈیوں کی خامیاں

پاکستان کے بازارزر اور بازار سرمایہ میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ قرضہ دینے والے مختلف اداروں کے مابین رابط نہیں ہے۔ مختلف تجارتی بینک، امداد باہمی کے بینک اور ساہوکار وغیرہ اپنے اپنے میدان میں من مانی کرتے ہیں۔ ان کی قرضہ دینے کی پالیسیوں میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اس لئے قرضہ کی مقدار کو بڑھانے اور گھٹانے کے لئے اسٹیٹ بینک ” شرح بینک کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ پاکستان میں بازار زر زیادہ تر تجارتی بینکوں تک محدود ہے لیکن وہ بھی ملکی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے۔ نیز تجارتی بینک زرعی شعبہ کو قرضہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ کیونکہ دو زراعت کو ایک غیر محفوظ پیشہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے بازار زر میں ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ قرضہ زیادہ تر بڑے بڑے تاجروں، زمینداروں اور صنعتکاروں تک محدود رہتا ہے۔ جبکہ چھوٹے زمیندار ، صنعتکار اور تاجر اس سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں۔ 1959 ، قرضہ تحقیقاتی کمیشن  نے انکشاف کیا کہ بینکوں کی امانتوں کا 63 فیصد حصہ صرف 222 کھاتوں میں محدود تھا اس کا تین چوتھائی صرف دو فیصد خاندانوں نے لے رکھا تھا۔ اس صورتحال کی محدود تھا اس تین چوتھالی ۔ اصلاح کے لئے مئی 1970ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تمام ٹیکوں پر لازم قرار دیدیا کہ وہ اپنے قرضوں کا کم از کم 20 فیصد چھوٹے تاجروں کو دیں جو ایک ایسا نہیں کریں گے اس بات کے پابند ہوں گے کہ 20 فیصد سے جتنی کم رقم قرض دی گئی ہے اپنی اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کروادیں۔ بینکوں کو تحفظ دینے کی غرض سے اسٹیٹ بینک نے قرضہ کی گارنٹ فنڈ کی رقم بڑھادی ہے۔ جن میں سے تجارتی بینکوں کو اٹھائے جانے والے خسارہ کا 50 فیصد ادا کر دیا جاتا ہے۔ ( یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب چھوٹے تاجر اور کاشتکار لئے ہوئے قرضے جینگوں کو لوٹا نے سے قاصر رہیں۔

اصلاح احوال

بازار سرمایہ کی خامیوں کو دور کرنے کی غرض سے اور ملک میں اسلامی معاشرہ کے قیام کے پیش نظر موجودہ حکومت نے گذشتہ میں  برسوں سے سود کو ختم کر کے نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر بینکاری کو فروغ دینے کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔ تمام تجارتی بینکوں میں بلا سود شراکتی کھاتے جنوری 1981 ء سے کھولے جاچکے ہیں اور پہلے چھ ماہ کی مدت کے لئے بچت اور معیاری حسابات پر 8 فیصدسے لیکر 15 فصد تک منافع کا اعلان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تمیر مکانات کی مالی کار پوریشن قومی امانتی سرمایہ کاری اور انوسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان کے جاری کردہ قرضے مکمل طور پر سود سے پاک کر دیئے گئے ہیں۔ پیکرز کوئٹی لمیٹڈ کمپنی جو 1979ء میں بھی شعبہ میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے قائم کی گئی تھی اسے ملک میں پہلی مضاربہ کمپنی کی حیثیت دے دی گئی ہے تا کہ وہ مضاربہ سر ٹیفکیٹ جاری کر سکے۔ یہ سر ٹیفکیٹ ایک ایسی دستاویز ہے جو کہ اس کے مالک کو کمپنی نفع ونقصان میں شریک کرتی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان کی اہم برآمدات"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment