پاکستان کی خام قومی پیداوار

پاکستان کی خام قومی پیداوار مقداری لحاظ سے بظاہر پاکستان کی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ زرعی پیداوار بڑھی ہے۔ صنعتی لحاظ سے ہم نے ماضی کے مقابلہ میں کافی ترقی کی ہے اور صنعتی شعبہ کا پاکستان کی خام قومی پیداوار میں حصہ بہت حد تک بڑھا ہے۔ مواصلات اور ذرائع نقل و حمل  کے شعبہ میں بھی بہت زیادہ ترقی نظر آتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ دفاعی لحاظ سے پاکستان ایٹم بم بنانے اور میزائل ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گیا ہے ۔ کمپیوٹر اور سافٹ وئیر میں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع رسل و رسائل کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک پاکستان میں قومی آمدنی میں اضافہ کی شرح کچھ یوں ہے کہ پچاس کے عشرے  کے دوران شرح نمو 3.5 فی صد رہی ، ساٹھ کے عشرے  کے دوران 7 فی صد، ستر کے عشرے 1970-80) کے دوران 5 فی صد، توے کے عشرے  میں 4 فی صد اور 06- کے پہلے پانچ برسوں میں یہ شرح اوسطا 5 فی صد سالانہ رہی۔ اس لحاظ سے ساٹھ کے عشرہ (70-1960) کے دوران پاکستان میں شرح محوسب سے زیادہ رہی ، جبکہ نوے کے مرے  کے دوران کم ہو کر 4 فی صد کی سطح پر آگئی ذیل میں مختلف سالوں میں پاکستان کی خام قومی پیداوار کا گوشوارہ دیا گیا ہے۔

پاکستان کی خام قومی پیداوار

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی بیشتر آبادی کا انحصار اس شعبہ پر ہے اور پاکستان کی لیبر فورس کا ایک بہت بڑا حصہ اسی شعبہ سے وابستہ ہے ۔ زرعی شعبہ زرعی فصلوں، ماہی گیری، پرورش حیوانات، جنگلات اور معدنیات وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ شعبہ جو کہ 70-1960 میں خام ملکی پیداوار میں  حصہ ڈالتا تھا اب صرف حصہ ڈالتا ہے۔ یوں زراعت کے شعبہ کا حصہ ماضی کے مقابلہ میں بہت کم ہو گیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صنعتی شعبہ میں پاکستان نے خاص ترقی کی ہے۔ صدر ایوب خان کے دور میں صنعت کا ادوار میں برقرار نہ رہ سکی۔ حصہ 16 تک پہنچ چکا تھاجو کہ 16-2015 میں بڑھ کر 219 ہو گیا ہے۔  کے عشرہ میں جس تیزی سے ترقی ہوئی وہ رفتار بعد کے ذیل کے گوشوارہ میں مختلف سالوں میں خام ملکی پیداوار میں مختلف شعبوں کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں قومی آمدنی کی پیمائش میں در پیش مشکلات پاکستان میں قومی آمدنی کی پیمائش کے لئے بنیادی معلومات وفاقی ادارہ شماریات  اکٹھا کرتا ہے اور حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے نیشنل اکاؤنٹس کے نظام کے تحت خام قومی پیداوار کی پیمائش کرتی ہے اور یہ اعداد وشمار ہر سال قومی بجٹ کے اعلان سے ایک روز پہلے معاشی جائزہ  کی صورت میں شائع کئے جاتے ہیں۔ وزیر خزانہ اس موقع پر پریس کا نفرنس کر کے گذشتہ سال کی معیشت کی مجموعی کار کردگی مختلف شعبوں کا معیشت میں حصہ اور ان کی کار کردگی و قومی آمدنی اور ان کے شرح نمود غیرہ کی تفصیل بتاتے ہیں۔ پاکستان میں زراعت، صنعت، کان کنی بجلی، گیس، تھوک و پر چون کاروبار وغیرہ کے شعبوں میں قومی آمدنی کا اندازہ پیداوار کے طریقے سے لگاتے ہیں جبکہ نقل وحمل ، رسل و رسائل ، بنکاری و بیمه کاری سرکاری انتظامیہ ، دفاع اور خدمات کے شبہ میں قوم آمدنی کی پیائش کے لیے آمدنی کا طریقہ استعال کیا جاتاہے جبکہ تعمیرات کے شعبہ میں خرچ کا طریقہ ستعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قومی آمدنی کے اعداد و شمار دو طرح سے پیش کئے جاتے ہیں۔ الف) رواں قیمتوں کے لحاظ سے اس طریقہ کے مطابق رواں سال کی قیتوں پر تمام اشیا خدمات کی مجموعی مالیت کی پیمائش کی جاتی ہے۔

ساکن قیمتوں کے لحاظ سے

اس لحاظ سے کسی ایک سال کو بنیادی سال (Basic year) کے طور پر اختیا کیا جاتاہے اوراس بنیادی سال کی قیمتوں پر قومی آمدنی کی پیمائش کر لی جاتی ہے۔ پاکستان میں پہلے 50-1949 پھر 60-1959ء، اور اس کے بعد 81-1980 کی قیمتوں کو بنیادی سال کی قیمتوں کے لئے اختیار کیا گیا۔ حالیہ برسوں میں قومی آمدنی کی پیدائش 2000-1999 کی قیمتوں کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ اکنا مک سروے میں جہاں قومی آمدنی کے اعداد و شمار دیئے جاتے ہیں وہاں انہی بنیادوں پر قومی آمدنی کی پیمائش کر کے گوشوارے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں قومی آمدنی کی پیمائش میں کئی طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں اور حاصل ہونے والے اعداد و شمار کردار شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

– تربیت یافتہ عملہ کی کمی 

پاکستان میں اعداد و شمار کی فراہمی کے لئے ایسے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے جو کہ پوری ذمہ داری کے ساتھ پاکستانی معیشت کی صحیح تصویر اعداد و شمار کی روشنی میں پیش کر سکیں لیکن نہ تو ہمارے ہاں ایسے قابل اعتماد ادارے موجود ہیں جو کہ یہ کام سر انجام دے سکیں اور نہ ہی سرکاری شعبہ میں اتنی افرادی قوت فراہم کی جاتی ہے جو کہ پاکستان کے وسیع وعریض علاقوں میں جا کر معلومات اکٹھا کر سکیں۔ اسی طرح شماریاتی مواد اکٹھا کرنے اور ترتیب دینے کے لئے تربیتی اداروں کی ضرورت ہے۔ یوں تربیت یافتہ عملہ کی کمی قومی آمدنی کی پیمائش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

غیر ذمہ دار عملہ

پاکستان میں حب الوطنی کے فقدان کم تنخواہوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر اعداد و شمار جمع کرنے والا عملہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری سے ادا نہیں کرتا۔ زرعی اعداد وشمار کی فراہمی کے ضمن میں زیادہ تر انحصار محکمہ مال پر کرنا پڑتا ہے۔ صنعتی شعبہ اور دیگر شعبوں میں معلومات فراہم کرنے والا عملہ زیادہ تر دفتر کے اندر کام کرنے کا قائل ہے اور فیلڈ میں جا کر معلومات اکٹھی کرنا اپنے شایان شان نہیں سمجھتا۔ جس کی وجہ سے قومی آمدنی اور معیشت کی مجموعی تصویر واضح طور پر دیکھنا مشکل ہے۔

عوام کا عدم تعاون

تعلیم کی کی محکمہ کم لیکس کا خوف اور دیگر بہت ی وجوہات کی بنا پر عموما عوا اعداد وشمار اکٹھا کرنے والے کارکنان سے تعاون نہیں کرتے ۔ بعض اوقات لوگ اپنی صیح معلومات کو چھپانے کے لئے عملہ کو رشوت بھی دیتے ہیں۔ یوں زرعی و صنعتی شعبہ کے کاروبار اور دیگر شعبوں میں حقیقی اعداد وشمار کی بجائے غیر حقیقی اعداد وشمار اکٹھے ہوتے ہیں اور قومی آمدنی کی صیح تصویر سامنے نہیں آتی۔

بلا معاوضہ خدمات

ام لوگوں کی خدمات جن کا وہ معاف نہیں لیتے تو آمدن میں مارنہیں ہوپاتیں ملا کر یا خواتین کاگھرمیں کھانا بنانا پڑے ھونا گھر کی صفائی کرنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ، اساتذہ کا اپنے بچوں یا دوسرے کے بچوں کو مفت پڑھانا۔ اپنے گھر کے لان میں پھل دار، پھول دار پودے اور سبزیاں اگانا ایسے ہی کام ہیں لیکن یہ پیداواری کام کسی گفتی میں نہیں آتے اور یوں قومی آمدنی میں شمار ہونے سے رہ گھریلو صنعت کے اعداد و شمار کا نہ ہوتا جاتے ہیں۔ یوں قومی آمدنی کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ رسی چھوٹی صنعتیں جو کہ گھروں میں قائم ہوتی ہیں اور باہر سے آنے والے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں قومی آمدنی کی پیمائش کرتے ہوئے عام طور پر بڑے بڑے کارخانوں اور صنعتوں کی پیداوار کو شمار کر لیا جاتا ہے جبکہ بہت سی مطلوبات کا حصول بھی دشوار ہوتا ہے اور یوں قومی آمدنی میں شمار نہیں ہو پاتیں۔

ناخواندگی

عوام میں نا خواندگی کا تناسب بہت زیادہ ہے اس لئے اشیا کی مقدار و قیمت اور اس کے بارے میں ریکارڈ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ یوں نا خواندگی بھی تو می آمدنی کی پیمائش میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

سگنگ

1 پاکستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ اس کی سرحدیں کئی مکوں کےساتھ ملتی ہیں جس میں وسیع وعریض ریگستان اور پہاڑی یع مارتے ہیں۔ اس طرح سرحدوں کے ساتھ قبائلی علاقے بھی ہیں۔ ان علاقوں سے کروڑوں روپے کا سامان دوسرے ملکوں میں سمگل ہوتا ہے اسمگل ہو کر آتا ہے۔ اس سامان پر نہ تو کوئی امپورٹ ڈیوٹی دی جاتی ہے اور نہ ہی کس جگہ ان کا اندراج ہوتا ہے۔ یوں انڈر گراؤنڈ تقریبا کاروبار کسی شمار میں نہیں آتا۔

حساب کتاب نہ رکھنا

پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حساب کتاب رکھنے کی اہمیت سے واقف نہیں ہے۔ زیادہ آمدنی والے لوگ اس لئے حساب کتاب نہیں رکھتے کہ انہیں اس کی فکر نہیں اور غریبوں کی آمدنی اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اُسے کسی اہمیت کا حامل نہیں سمجھتے ۔ اس طرح زمیندار اور جاگیردار بھی حساب کتاب رکھنے کی اہمیت معلوم نہ ہونے یا ٹیکسوں سے بچنے کے لئے اعداد وشمار رکھنے سے گھبراتے ہیں۔

فرسودگی کے اخراجات

قومی آمدنی کی پیمائش کرنے والے ماہرین شکست وریخت یا فرسودگی کے اخراجات کو قومی آمدنی سے منہا نہیں کرتے ۔ اس لئے خالص قومی پیداوار (NNP) صحیح صورت میں واضح نہیں ہو پاتی ۔ ہمارے ملک میں بہت سی ایسی اشیا پیدا کی جاتی ہیں جو کہ پیدا کنندگان اپنے ذاتی استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ جیسے دیہات می کا شکار اپنی ضرورت کا سال بھر کا غلہ ذخیرہ کر لیتے ہیں ۔ اس طرح دیگر پیدا کر بھی اپنی ضرورت کی اشیا رکنے کے بعد بقیہ مقدارکو —

 غیر زری پیداوار

فروخت کرتے ہیں۔ یوں بہت کی اشیا قومی آمدنی میں شمار ہونے سے رہ جاتی ہیں۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

سرکاری مالیات

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment