پاکستان کے زرعی اور صنعتی شعبہ کے مسائل اور ان کا حل

پاکستان کے زرعی اور صنعتی شعبہ کے مسائل اور ان کا حل پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ لیکن پاکستان کی زراعت پسماندگی کا شکار ہے اور ہم آج تک زرعی خود کفالت کی منزل کو نہیں پا سکے۔ اسی طرح آج کے دور میں صنعت کسی بھی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں یہ دو شعبے کئی کے لئے تجاویز دی گئی ہیں۔ قسم کے  مسائل کا شکار ہیں۔ ذیل میں دونوں شعبوں کے مسائل اور ان کے حلکے لئے تجاویز دی گئی ہیں۔

پاکستان کے زرعی شعبہ کے مسائل

پاکستان کو اللہ تعالی نے زرخیز زرعی زمین سے نوازا ہے ۔ پاکستان میں آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ پاکستان کی خام ملکی پیداوار کا زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی 45 لیبر فورس زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے جبکہ دیہی علاقوں کی  لیبر فورس اسی شعبہ میں کام کر رہی ہے ہمارے زر مبادلہ کا  زراعت اور زراعت سے وابستہ صنعتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ان سب صفات کے باوجود پاکستان کا ری شعبہ پسماندگی کا شکار ہے۔ اس شعبہ کی شرح نمو بہت ست ہے۔ یہ شعبہ پاکستان کی صنعتی ضروریات اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ زرعی شعبہ کو درپیش مسائل میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔

قابل کاشت رقبہ کا کم حصہ استعمال

پاکستان میں سرمائے کی کمی اور آبپاشی کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے  ہوتا ہے۔ ہر سال زمین کی ور تیزی بحال رکھنے کے لئے زمین کا ایک بڑا حصہ خالی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں ایکٹر اراضی کو استعمال میں لانے کے لئے قابل کاشت رقبہ کا غیر مستعد استعمال کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔

عمیق طریقہ کاشت کا نہ ہونا

زرعی زمینوں پر زیادہ سے زیادہ فصلیں کاشت کرنے کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ فیصلوں کے نئے بیج اور کیمیاوی کھادیں اری ارآنئے استعمال کرنے کا رواج کم ہے۔

ناکافی ذرائع آبپاشی

3 پاکستان کے نہری نظام کا شمار دنیا کے بہترین شہری نظاموں میں ہوتا ہے اس کے باوجود ہمارے آبپاشی کے ذرائع نا کافی ہیں ۔ کھالوں اور کھیتوں میں پانی ضائع ہو جاتا ہے ضرورت سے زیادہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔ دریاؤں میں آنے والا بہت راپانی سمندر میں جا گرتا ہے اور اسے ذخیرہ کرنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ اس طرح پانی کی تقسیم میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔

زرعی مداخل کی کمی

اچھے ہے، کیمیاوی کھادیں، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر تھریشر، ہارویسٹر اور آبپاشی کے جدید ذرائع جیسے مداخل کی فراہمی اور ان کے استعال کو عام کرنے کی ضرورت ہے ان مداخل کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کو حاصل کرنا ایک اوسط درجہ کے کسان کے لئے بہت مشکل ہے۔

زرعی تحقیق

پاکستان کی فی ایکٹر پیدا وار ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ کے لئے فصلوں ے جن کیڑوں کوتم کرنے کے لئے جراثیم کش ادویات اور جدید بچوں کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس طرح فصلوں کی اچھی اقسام کی دریافت بھی ضروری ہے۔

زرعی قرضوں کی عدم دستیابی

ہمارے کسانوں کی زرعی ملکیت بہت کم ہے ۔ کاشت کاروں کو عموما قرضے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زرعی قرضہ دینے والے اداروں کی کی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ ادارے قریضہ کے حق داروں کو قرضہ مہیا نہیں کرتے بلکہ ایسے بارسوخ زمیندار یہ قرضے لیتے ہیں جن کو قرضے کی بہت کم ضرورت ہے۔ کسان یہ قرضے عام طور پر آڑھتیوں اور ساہوکاروں سے لیتے ہیں۔ جن کی شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ کسانوں کا استحصال بھی کرتے ہیں اور کسان ساری زندگی ان کے محتاج رہتے ہیں,

کم تھور

پاکستان کی زرعی اراضی کا بہت بڑا حصہ کم و تھور کی وجہ سے قابل کاشت نہیں رہا۔ اس کے علاوہ ہر سال بہت سی زمین کٹاؤ کا شکار ہو رہی ہے جس سے زرخیز رقبہ کم ہو جاتا ہے۔

کسان کی پسماندہ حالت

زرعی شعبہ میں سب سے اہم فرد کسان ہے۔ اس کی مالی حالت بہت خراب ۔ کرتا ہے اسے دو وقت بھنگ کی روٹی میسر نہیں ہے۔

بہتر رائع نقل وحمل کی کمی 

وہ انسان جو دوسروں کے لئے خوراک فراہم دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں تک زرعی اجناس غیر ترقی یافتہ ذرائع آمد ورفت کی وجہ سے پہنچانا بہت دشوار ہے۔ کسانوں کے لئے منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے دلال اور آڑھتی ان کو مناسب معاوضہ نہیں دیتے۔ اس طرح مناسب معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی مالی حالت بھی کمزور رہتی ہے۔

انتشار اراضی

قانونی خامیوں کی وجہ سے زمینیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں ۔ اشتمال اراضی کے نہ ہونے کی وجہ سے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

فصلوں کی بیماریاں

کپاس، گندم، گنا اور چاول وغیرہ جیسی فصلوں پر اکثر اوقات کیڑوں اور سنڈیوں کا حملہ ہو جاتا ہے۔ جس سے پودے تباہ ہو جاتے یں یا کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وجہ سے پاکستان میں 25 فیصد تک فصل کم ہو جاتی ہے۔

لڑائی جھگڑے 

تعلیم کی کمی اور جہالت کی وجہ سے کسان اکثر آپس میں لڑائی جھگڑوں ، اور یا پھر دشمنیوں میں پڑے رہتے ہیں اور اپنا بہت سا وقت تھانے اور کچھریوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ جبکہ یہ روپیہ اور وقت کسی بہتر کام کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ پر قرضہ لے کر اور دیگر تقریبات پر فضول خرچی کرتے ہیں۔

زراعت پر جنی صنعت کا فقدان

حیوانات، مرغبانی، مرغیوں کی خوراک ، ماہی گیری ، ڈیری فارمنگ جیسی زراعت پر بنی صنعتوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ کسان فالتو وقت ان کی طرف توجہ دے کر اپنی مالی حالت بہتر بنا سکتے ہیں۔

قدرتی آفات

ملک میں دریاؤں کی سی بلند ہونے کی وجہ سے اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں۔ اگر بارشیں نہ آئیں تو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح دونوں صورتوں میں فصلوں کا نقصان ہوتا ہے اور کسان پریشان حال رہتا ہے۔ Prices of  زرگی اشاکی ٹیمیں کو ملک افراط زر کا شکار ہے لیکن صنعتی اشیا کی نسبت زرعی کم ہیں۔ ان کا شکار کی جہان دیگر لازمتوں اور کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں۔

جاگیرداری نظام

ہمارے ملک کے جاگیرداری نظام نے اس شعبہ کی کار کردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بڑے بڑے جاگیردار اکثر اوقات شہر میں رہتے ہیں اور مزارعوں کے ذریعے کاشتکاری ہوتی ہے۔ ان مزارعوں کے ساتھ انسانیت سوز اور غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کو مناسب غذا بھی نہیں ملتی۔ لہذا وہ پیداوار میں اضافہ کی کوشش نہیں کرتے۔

کسانوں کی پسماندگی

کسانوں میں ناخواندگی اور جہالت ان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ اس بنا پر نہ تو وہ جدید طور طریقے سیکھ سکتے یا اور یہی بہتر پیداوار کے لئے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی فصلو کو بہتر طور پرمحفوظ رکھنےکے طریقے نہیں جانتے اور نہری اچھی مارکیٹنگ کے ذریعے بہتر قیمتیں لے سکتے ہیں۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

بینک (Bank)

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment