پوٹاشیم کی جسم میں کمی

یتپوٹاشیم کی جسم میں کمی جسم میں پوٹاشیم کی کی مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں

پوٹاشیم کی جسم میں کمی

اسہال کی شکایت

ایسے افراد جن کو کافی عرصہ سے اسہال کی شکایت رہے ان کے جسم میں پوٹاشیم کی کمی واقع ہو سکتی ہے جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ اسہال کے دوران رفاع حاجت کے ذریعے پانی کے جسم سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ جسم سے نمکیات بھی خارج ہوتے رہے ہیں ان نمکیات میں سوڈیم کے علاوہ پوٹاشیم بھی قابل ذکر ہے۔

قے الٹیوں کی شکایت

بعض اوقات کسی خاص وجہ سے انسان کو متلی ہونے لگتی ہے اور اوپر تلے بے انتہاقے ہوتی ہیں جس دوران معدے میں موجود تمام غذا جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ معدے میں موجود عرق معدہ بھی جسم سے خارج ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ معدے میں موجود نمکیات بھی جسم سے خارج ہو جاتے ہیں جس سے جسم میں پوٹاشیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

مختلف بیماریوں کے دوران

کچھ بیماریوں کے دوران مثلاً ذیا بیٹیس میں بھی پوٹاشیم کی جسم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کی تفصیل آپ اگلی جماعتوں میں پڑھیں گے۔

پوٹاشیم کی کمی کی علامات

پوٹاشیم کی جسم میں کمی کی صحیح علامات اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جب جسم کے ٹوٹل پوٹاشیم کا 10 فیصد حصہ ضائع ہو چکا ہوتا ہے یعنی جسم کے پوٹاشیم میں 10 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس سے کم حصے کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے کمی کی ابتداء میں اس کی علامات کا پتہ لگنا مشکل ہوتا ہے۔ پہلی علامات میں سے جی کا متلانا جسمانی عضلات کی کمزوری خاص طور پر مریضوں میں جن کی متوازن غذا کسی بیماری کی وجہ سے تبدیل ہوگئی ہو۔ پوٹاشیم کی کمی کے باعث پیٹ میں ہلکا درد اور اسہال کی شکایت ہو جاتی ہے اور تمام نظام انہضام درہم برہم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی نشو و نما بھی رک جاتی ہے اور ہڈیاں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔

حفاظتی اقدامات

 روز مرہ غذاؤں میں ایسی غذا میں استعمال کرنا جس میں پوٹاشیم کی کافی مقدار موجود ہو۔ اسہال کی صورت میں یعنی او آر ایس کی مناسب مقدار پانی میں حل کر کے مریض کو پلانا تا کہ جسم کی نمکیات کی مقدار برابر ر ہے۔ بیماریوں کے دوران یا جسمانی کمزوری کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا  ہے۔

میگنیشم کی جسم میں کمی

میگنیشم کی جسم میں کی دو بڑی وجوہات کی بناء پر رونما ہوتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں

 غذا میں میگنیشم کی کمی

اگر غذا میں میگنیشم کی کمی ہو تو جسم میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد جو بہت عرصے تک بھوک کا شکار رہے ہوں اور انہیں کافی مقدار میں غذا میسر نہیں آتی رہی ہو یا پھر کسی بیماری کے دوران جب مریضوں کو پرہیزی کھانا کھلایا جائے تو بھی جسم میں میگنیشم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

نظام انہضام میں خرابی

نظام انہضام میں خرابی کے باعث اگر زیادہ متلی ہو اور پیٹ بھی خراب ہو تو اس صورت میں بھی میگنیشم ضائع ہو جاتا ہے اور جسم میں اس کی کمی ہو جاتی ہے بعض اوقات نظام انہضام میں خرابی کے باعث میگنیشم کی کافی مقدار پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتی ہے جس سے خون کے سفید مادے معمل (سمیرم) میں میگنیشم کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

جسم میں کمی کی علامات

جسم میں کمی کے باعث پہلی علامت دماغی کمزوری اور دماغ کے عضلات میں تکلیف وغیرہ قسم کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی بھی مختلف علامات ہوتی ہیں۔ پہلے پہل ٹھوس پٹھوں میں بل پڑ جاتے ہیں۔ دل گھبراتا ہے اور بعض اوقات دل کا دورہ پڑنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔

حفاظتی اقدامات

میگنیشم کی جسم میں کمی سے بچاؤ کیلئے ضروری ہے کہ مریض کو میگنیشم سے بھر پور غذا ئیں مثلا اناج اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ کھلا ئیں یا پھر اس کمی کو پورا کرنے کیلئے مریض کو میگنیشم با سر و آکسائیڈ ( پانچ ملی لیٹر ) دن میں تین مرتبہ پینے کیلئے ہیں۔ یہ محلول بازار میں تیار دستیاب ہوتا ہے مگر ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اس کا صحیح نام اور نسہ لکھوانا بہت ضروری ہوتا ہے اور پھر دوا لیتے وقت ڈاکٹر کی دی گئی ہدایات پر عمل کرنا بھی نہایت اہم ہے۔

جسم میں معمول سے زیادہ اضافہ

جسم میں میگنیشم کی مقدار اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب گردوں کی کسی بیماری کے باعث پیشاب رک رک کر آتا ہے اس صورت میں پہلی علامات انسان کو غنودگی کی شکایت ہوتی ہے اور خون میں اگر میگنیشم کی مقدار معمول سے بہت زیادہ ہو جائے تو انسان سبات کو ا میں بھی چلا جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان زندہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی مردوں جیسی حالات میں زندہ رہتا ہے لہذا اس زیادتی کا سد باب جلد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کو فورا ہسپتال پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔

تانبا کاپر کی جسم میں کمی

جانورں کے جسم میں کاپر کی کمی سے انیمیا ہونے کی شکایت ہوتی ہے اور جونہی ران جانوروں کو کا پر لی غذا کھلائی جاتی ہے تو ان کے جسم میں فولاد یعنی آئرن تیزی کے ساتھ جذب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور انیمیا کی شکایت بھی جاتی رہتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر ان جانوروں کے جسم میں خواہ کتنا ہی فولاد موجود ہو اور اگر کا پر موجود نہ ہو تو انیمیا کی شکایت دور نہیں ہوتی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کا پر جسم میں فولاد/ آئرن کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ انسان کے خون کے سفید مادے سیرم میں کا پر چھوٹے چھوٹے پروٹین کے مالیکیولز کے ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے اور جب ضرورت پڑتی ہے تو یہ پروٹین سے الگ ہو کر بافتوں میں جمع ہو جاتا ہے یا پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر چہ کا پر کی کمی انسان میں تو نہیں ہوتی لیکن کچھ امراض کے دوران کا پر کی معمل / سپریم یا خون میں موجود کا پر کی مقدار پر پڑتا ہے۔ اور سیریم میں اس کی مقدار گر جاتی ہے۔ یہ حالت عموماً نا مناسب غذائیت کے شکار افراد میں دیکھی گئی ہے۔ انسان میں خالی کا پر کی کمی سے پیدا ہونے والے مرض یا گہرے اثرات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔

تانیا کا پر کا جسم میں ضرورت سے زیادہ اضافہ

یہ مرض وراثت سے انسان کو ملتا ہے کیونکہ کا پرکی معمول سے کافی زیادہ مقدار جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ نقص نظام انجذاب میں ہوتا ہے۔ عموماً کسی فنی خرابی کے باعث یا اتنا ھیلا چپکا ہوتا ہے کہ جلد ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں کا پر پروٹین کے ساتھ چپک نہیں پاتا اور اس طرح جسم میں جذب نہیں ہو پاتا۔ اس صورت میں سیریم میں موجود کا پر پروٹین یعنی سیرولو پلازمین کی مقدار گرنی شروع ہو جاتی ہے اور کمی کے بعد کی مقدار معمول کی مقدار سے بہت کم ہو جاتی ہے اور اس طرح آزاد کا پر یا تو پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتا ہے یا پھر بافتوں میں زیادہ مقدار میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس خرابی کے باعث مریض کے پیشاب کے ذریعے خارج ہونے والے کا پر کی مقدار روزانہ سو مائیکرو گرام سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس طرح جگر اور دماغ کے بافتوں میں جمع ہونے والی کا پر کی مقدار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کے مریض جگر کو اگر نکال کر خشک کر کے اس کا کیمیاوی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے ایک گرام وزن میں 250 مائیکرو گرام سے بھی زیادہ کا پر جمع ہو جاتا ہے جبکہ صحت مند انسان کے جگر کا اگر اس طریقے سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں 15 سے 55 مائیکرو گرام کے قریب کا پر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح جگر اور دماغ اپنا کام صیح طریقے پر انجام نہیں دے پاتے اور بیماری کے بہت زیادہ بڑھنے کی صورت میں مریض اپنا دماغی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ یہ مرض عموماً نو جوانوں میں ہوتا ہے لیکن اگر خاندان کے کسی فرد میں یہ بیماری ہو تو آئندہ نسل کو خاص طور پر پر ہیز کر نالازمی ہوتی ہے۔

فلورین کی جسم میں کمی

دانتوں کی صفائی اور پائیداری میں فلورین اور اس کے نمکیات یعنی فلورائیڈ اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کا مشاہدہ امریکہ میں کیا گیا ۔ 1890ء میں دانتوں کے ماہر ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ ریاست کولوریڈو میں جو مرد عور تھیں اور بچے اپنی ابتدائی عمر کے تقریبالا بریں تلک وہاں کے چشموں کا پانی پیتے رہے ان کے دانتوں پر ایک خاص سفید مادے کی تہ جم گئی اور اس کی وجہ سے ان کو دانتوں کی خرابی یعنی مناسب عمر نے پہلے دانتوں کا کھوکھلا ہوتا اور گر جاتا جبڑوں کمزوری دانتوں کی ہڈیوں کی کمزوری جیسے امراض 60 فیصد کم تر ہوتے ہوئے نبلنا ان افراد کے جو ان چشموں کا پانی استعمال کئے بغیر بڑے ہوئے۔ فلورین واحد نمک ہے جو دانتوں کی مینا یعنی سفید چمک دار تبہ بنے میں ایک بڑا جزو ہے ۔ اگر جسم ندار میں فلورین نہ ملے تو دانتوں کی چمک جاتی رہتی ہے۔ آج سے تقریبا 40 سال پہلے دانتوں کے گلنے سڑنے کی عالمگیر بیماری کیخلاف یہ دفاعی طریقہ اختیار کیا تھا کہ آبادی کے واٹر سپلائی کے ذخیرہ میں فلورائیڈ کی تھوڑی سی مقدار ڈال دی جائے تو اس کے نتیجے میں اس بیماری پر نہ صرف قابو پایا گیا بلکہ بعض حالتوں میں یہ بیماری سرے سے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ عموماً پانی میں فلورین کی نسبت 1,000,000 اور 1,500,000 کے درمیان ہوتی ہے یعنی ایک حصہ فلورین ہو تو دس سے پندرہ لا کھ حصے پانی ہونا چاہیے۔

فلورین کا جسم میں معمول سے زیادہ اضافہ

جسم میں فلورین کی زیادتی کے باعث فلورین خاص طور پر ہڈیوں اور دانتوں پر جمع ہوتا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ مرض عام ہوتا ہے کیونکہ کچھ علاقوں کے پانی میں فلورین کی مقدار ملین کے 14 حصے تک بھی پائی گئی ہے یعنی اگر پانی کے ایک ملین حصے کئے جائیں تو اگر پانی ایسی زمین سے گزر کر آئے یا ایسی زمین میں موجود ہو جس میں فلورین کی زیادہ مقدار موجود ہو ۔ زمین میں سے پانی کے گزرنے سے فلورین پانی میں شامل ہو جاتی ہے اور جس علاقے کے افراد کو اپنے پینے کے پانی کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ فلورین کے مرض کا شکار نہیں ہو سکتے لیکن عموماً اس مرض کا حملہ 30 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر ہوتا ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی فرد کو سوڈیم فلورائیڈ کی گولیاں کھلائی جائیں تو ایسے افراد کے جسم میں کیلشیم زیادہ استعمال ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مرض سے بچاؤ کی حفاظتی اقدام میں پہلا قدم یہ ہے کہ ایسے شہروں اور چشموں کے ایسے پانی سے پر ہیز کیا جائے جس میں فلورائیڈ کی زیادہ مقدار موجود ہو اور اگر استعمال کرتا ہی پڑے تو پھر غذا میں کیلشیم کی مقدار کم کر دینی ضروری ہوتی ہے تا کہ فلورین کیاشیم کے ساتھ مل کر جسم میں کیلشیم فلورائیڈ کی صورت میں اکٹھا نہ ہونے پائے بلکہ فلورائیڈ پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج ہو جائے ۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پوٹاشیم کی جسم میں کمی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment