ڈیموگرافک اعداد و شمار کے ماخذ ذرائع ⇐ ڈیموگرافک اعداد و شمار اکٹھے کرنے کیلئے مختلف طریقہ کار استعمال کئے جاتے ہیں۔ عام طور پر آبادی کے متعلق اعداد و شمار درج ذیل طریقوں سے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔
- مردم شماری
- رجسٹریشن
سروے
آبادی کے متعلق اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا کسی ملک میں سب سے بڑا اور اہم ذریعہ مردم شماری ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی کے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی روایت کئی ہزار سال پرانی ہے۔ مگر جدید اور وسیع پیمانے پر مردم شماری کی تاریخ تقریباً 20 سال پرانی ہے۔ باضابطہ سائنسی طریقہ کار سے مردم شماری کا آغاز 1895 ء سے ہوا جس میں با قاعدہ وقفوں سے اس عمل کا دہرانا شامل تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق کسی ملک میں مردم شماری ہر دس سال کے بعد باقاعدگی سے کی جانی چاہیے۔
مختلف ممالک کا موازنہ
اس کے دو اہم مقاصد ہیں ایک تو با قاعدہ وقفوں کے اعداد و شمار وقت کے ساتھ تبدیلی کا مواز نے کرنے میں مدد دیں گے اور دوسرا اس سے مختلف ممالک کا موازنہ بھی ممکن ہو سکے گا۔ مردم شماری کی سب سے خاص بات جو اسے سروے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی علاقے میں رہنے والی مکمل آبادی میں ہر فرد تک پہنچ کر اس کی جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ اس طرح مردم شماری سے ممکن حد تک ٹھیک اور قابل بھروسہ معلومات اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
مردم شماری کے چند بنیادی سوالات
بعض اوقات مردم شماری چند بنیادی سوالات پر مبنی سوالنامہ پر کرکے کی جاتی ہے اور یہی سوالنامہ بہت سے سوالات پر بھی بہت سے پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ مردم شماری ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کر لی جائیں۔ اگر ٹھیک معلومات اکٹھی ہو جائیں تو ملک کی بہتر پلاننگ کے ذریعے تعمیر وترقی کی رفتارکو بڑھایا جاسکتا ہے۔
مردم شماری سے متعلق مسائل
مردم شماری کیلئے بہت بڑی تعداد میں وسائل خاص کر پیسہ اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک دقت طلب اور صبر آزما مل ہے جس میں درج ذیل چند مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ تربیت یافتہ افراد کی کمی اس عمل کو طویل اور مشکل بنا دیتی ہے۔ مختلف اصطلاحات کو ٹھیک طرح سمجھنا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف انٹرویو کرنے والے بعض اوقات کسی ایک اصطلاح کو مختلف طریقے سے بیان کرتے ہیں
فیلڈ ورک
جس سے معلومات کے غلط ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مردم شماری میں فیلڈ ورک ایک مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات کچھ ورکر جان چھڑانے کیلئے ہر گھر میں جائے بغیر اپنے طور پر یا اندازے سے خود ہی معلومات لکھ لیتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کو اپنی صحیح عمر یا آمدنی وغیرہ کا واقعی اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ کچھ ذاتی وجوہات یا ڈر کی بنا پر بعض اوقات لوگ ٹھیک معلومات نہیں دیتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں ان معلومات کے دینے سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے مثلاً آمدنی ٹیکس وغیرہ۔
مردم شماری کے طریقے
مردم شماری کرنے کیلئے عام طور پر درج ذیل دو طریقوں میں سے کسی پر عمل کیا جاتا ہے۔
- ڈی فیکٹوطریقہ
- ڈی جیورے طریقہ
ڈی فیکٹو طریقہ کار
اس طریقہ کے مطابق پورے ملک میں مردم شماری کیلئے ایک تاریخ طے کر لی جاتی ہے۔ عام طور پر ایسی مردم شماری رات کو کی جاتی ہے جسے مردم شماری کی رات کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ میں جو شخص جہاں ہوتا ہے اسے وہیں گن لیا جاتا ہے اور عام طور پر اس موقع پر پورے ملک میں تعطیل کر دی جاتی ہے اور ٹرانسپورٹ بھی عام طور پر بند ہوتی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے گھر پر ر ہیں۔ اس طریقہ کار کی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں۔

خوبیاں
- یہ بہت عام فہم اور سیدھاطریقہ ہے۔
- اس طریقہ سے بہت کم وقت میں مردم شماری کی جاسکتی ہے۔
- قابل بھروسہ معلومات اکٹھی ہوتی ہیں۔
خامیاں
- بہت بڑی تعداد میں ٹریننگ یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر ممالک میں دستیاب نہیں۔
- بہت کم سوالات پر مبنی اعداد و شمار ا کٹھے کئے جاسکتے ہیں۔
- کم وقت کی وجہ سے غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
- اس طریقہ میں کچھ لوگوں کی عدم شمولیت کا امکان ہوتا ہے مثلا وہ جو سفر کر رہے ہیں۔
ڈی جیورے طریقہ کار
اس طریقہ کار کے مطابق ہر شخص کی گنتی اس کی رہائش کے مقام پر ہوتی ہے۔ عارضی رہائش پذیر لوگوں کو اپنے مستقبل رہائش کے پتہ کے مطابق گنا جاتا ہے۔ اس طریقہ میں لوگ گھر گھر جا کر معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور اس عمل میں کئی ہفتے تک بھی لگ سکتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی مندرجہ ذیل خوبیاں اور خامیاں ہیں۔
خوبیاں
- ایک خوبی اس طریقہ کار میں وقت کا زیادہ ہونا ہے۔ اس وجہ سے غلطیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے اور تسلی سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔
- زیادہ سوالات شامل کر کے زیادہ چیزوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاسکتی ہیں
- اگر کم تعداد میں بھی تربیت یافتہ افراد دستیاب ہوں تو اس طریقہ سے مردم شماری ممکن ہے
خامیاں
- مردم شماری میں زیادہ وقت لگتا ہے اور اس دوران ہونے والی پیدائش اور اموات اکثر شمولیت سے رہ جاتی ہے
- جن افراد کی کوئی مستقل سکونت کا مقام نہیں ہوتا ان کی شمولیت مشکل ہوتی ہے
- وہ لوگ جو ایک سے زیادہ جگہ پر رہتے ہوں ان کی شمولیت ایک سے زیادہ مرتبہ ہونے کا امکان ہوتا ہے
- زیادہ سوالات کی وجہ سے مشکل اصطلاحات و تصورات سے متعلق ڈیٹا لینا یعنی مواد اکٹھا کرنامشکل ہوتا ہے
مردم شماری کی منصوبہ بندی
مردم شماری کیلئے تمام ملکوں میں کسی یکساں منصوبہ بندی سے عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا ۔ تاہم یہ ایک جامع اور بڑا عمل ہے اس لئے اگر بہتر منصوبہ بندی نہ ہو تو اس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ مردم شماری کے عمل میں شامل ہر کام کو وقت، افرادی قوت اور وسائل کی ضرورت کے حساب سے طے کر لیا جاتا ہے۔ عام طور پر مردم شماری میں وقت کی منصوبہ بندی کے اعتبار سے تین مراحل ہوتے ہیں۔
- اعداد و شمار ا کٹھے کرنے سے پہلے کا مرحلہ
- اعداد و شمارا کٹھے کرنے کا مرحلہ
- اعداد و شمار کی پڑتال اور تجزیہ کا مرحلہ
پاکستان میں مردم شماری
پاکستان میں مردم شماری کی تاریخ کافی بے قاعدہ ہے۔ 1981ء کی مردم شماری کے بعد 1998ء میں آخری مردم شماری کرائی گئی۔ 2011ء میں پھر مردم شماری کا اعلان ہوا اور باضابطہ آغاز بھی مگر خانہ شماری مکمل ہو جانے کے باوجود با قاعدہ طور پر مردم شماری کے اعداد و شمار کا اکٹھا کئے جانے کا آغاز نہ ہو سکا۔ یہ عمل تا حال تاخیر کا شکار ہے۔ 2011ء میں مردم شماری کرنے کیلئے جو سوالنامے بنائے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
- خانه شماری فارم
- مردم شماری فارم (مختصر)
- مردم شماری فارم ( مفصل، دوصفحوں پر مشتمل)
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “ڈیموگرافک اعداد و شمار کے ماخذ ذرائع“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
…………ڈیموگرافک اعداد و شمار کے ماخذ ذرائع …………