کارل مارکس

کارل مارکس ⇐ مارکس نے مالتھس کے نظریے پر فقط چینی کی تھی اس کے خیال                میں مالتھس آبادی کو جس نظریے سے دیکھتا تھا وہ مناسب نہیں تھا۔ مارکس کے خیال میں یورپ میں موجود صنعتی معاشرے در اصل مسائل کی بنیاد ہیں۔ اس نے مالتھس کے اس خیال کو قبول نہیں کیا تھا

 معاشرے کی خرابیاں آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے ہیں۔

مارکس کے خیال میں ان خرابیوں

 مسائل کی وجوہات سرمایہ داری کے نظام میں چھپی ہوئی تھیں۔

مارکس کے خیال میں سرمایہ داری کے نظام کی وجہ سے دولت

وسائل کی باگ ڈور صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

کارل مارکس

سرمایہ دار

اس کے خیال میں سرمایہ دار ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کس طرح اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے یہیں نہیں وہ مزدور کو بھی اس کے اصل اجرت سے کم پیسے دیتا ہے۔ سرمایہ دار اس بات کی کوشش کرتا رہتا ہے

وسائل کا استعمال

 زیادہ سے زیادہ ایسی مشینوں اور وسائل کا استعمال کرے جس کی وجہ سے اس کے منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جائے  اور پھر نئی مشینوں کے استعمال کی وجہ سے اسے کام کرنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد بھی درکار نہیں ہوتی

شرح منافع

جس کی وجہ سے اس کی شرح منافع میں مزید اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی وجہ سے آخر کار بیروزگاری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ بیروزگاری مزدوروں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کام حاصل کرنے کیلئے کم سے کم اجرت پر بھی رضا مند ہو جائیں۔

آبادی میں اضافہ

پھر ایسی محدود آمدنی والی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ آبادی معاشرے پر بوجھ بن کر سامنے آتی ہے۔ اس آبادی کو زائد آبادی کا نام دیا گیا ہے۔ مارکس کے خیال میں تاریخی اعتبار سے معاشی سرگرمیاں چلانے والا نظام خودہی آبادی سے متعلق قوانین مرتب کرتا ہے

تاریخی اعتبار

جو کہ تاریخی اعتبار سے صرف ان ہی حدود کے اندر موثر ہوتا ہے۔

پس اس طرح سے صنعتی سرمایہ دارانہ نظام بھی آبادی سے متعلق قانون مرتب کرتا ہے

جو کہ اضافی آبادی سے متعلق ہے لیکن مارکس کے مطابق یہ قانون ایک مخصوص مرحلے پر جا کر لاگو ہوتا ہے۔

مارکس کے خیال میں اگر اس کا بتایا ہوا کمیونزم کا نظام اپنایا جائے

پریشانیوں کا خاتمہ

معاشرے میں موجود غربت اور پریشانیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور چاہے جس رفتارسے بھی آبادی میں اضافہ ہو انسانوں کی پریشانی میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا یعنی لوگوں کی زندگیوں میں مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔

تاریخی اعتبار


ڈیموگرافک ٹرائزیشن تھیوری انظریہ

لفظ سے مراد” منتقلی یعنی تبدیلی کے ہیں یعنی ڈیموگرافک ٹرانزیشن تھیوری مختلف اوقات میں یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ایسا نظریہ پیش کیا جائے جو مجموعی طور پر یورپ میں آبادی میں آنے والی تبدیلیوں کا احاطہ کر سکے۔ عام طور پر اس کو آبادیاتی تبدیلی تھیوری کہتے ہیں۔

زمانہ قدیم

زمانہ قدیم میں سائنس اور طب کی ترقی سے پہلے تک انسانی معاشروں میں شرح پیدائش بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اور شرح اموات بھی ۔ مگر جوں جوں سائنس اور طب میں ترقی ہوتی چلی گئی اس طرح شرح اموات میں تیزی سے کمی واقع ہوتی چلی گئی

شرح پیدائش پر قابو

 کافی عرصہ تک شرح پیدائش پر قابو نہیں پایا جا سکا تھا اور وہ اس رفتار سے چلتی رہی تھی۔ جس کی وجہ سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مگر یورپی ممالک میں شرح پیدائش پر کنٹرول کے حوالے سے بھی خاطر خواہ کام ہوا اور بہت سے ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا مقام بھی آیا

آبادی کا بڑھنا

جہاں پر شرح پیدائش ، شرح اموات سے بھی کم ہو کر رہ گئی۔ اس طرح آبادی کا بڑھنا منفی میں چلا گیا۔ اس سارے عمل کو آبادیاتی تبدیلی کہتے ہیں۔ ڈیموگرافک ٹرانزیشن نظریے کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک کو تین بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس طرح سے ہوں گی۔

شرح پیدائش پر قابو

پہلی قسم

ممالک کا وہ گروپ جو صنعتی طور پر ترقی یافتہ ہے ان کے شہریوں کو بہتر صحت کی سہولیات حاصل ہیں۔ نیز خواتین کی رسمی معاشی سرگرمیوں میں بھر پور شمولیت کی وجہ سے شرح پیدائش اور شرح اموات دونوں کی سطح بہت کم ہے۔ نتیجا ان ممالک میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً جرمنی، جاپان ، امریکہ وغیرہ۔

دوسری قسم 

دوسری قسم میں ان ممالک کا گروپ آتا ہے جہاں مختلف معاشی، ثقافتی اور معاشرتی عوامل کی وجہ سے خواتین کی آزادی اور رہی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت محدود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پدر سری کی اقدار کو اہمیت دی جاتی ہے اس وجہ سے یہاں صحت کی سہولیات کی کچھ بہتری کی وجہ سے شرح اموات میں تو کمی آچکی ہے

ممالک

شرح پیدائش میں کمی یا تبدیلی کا عمل بہت سست ہے۔ نتیجتا ان ممالک میں شرح پیدائش (آبادی) میں اضافے کی شرح انتہائی بلند ہے۔ ان میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، عرب ممالک، نائیجیر یا وغیرہ شامل ہیں۔

 تیسری قسم 

وہ ممالک جو انتہائی پسماندہ ہیں اور وہاں صحت کی صورت حال کے ساتھ ساتھ ترقی کا عمل بھی انتہائی سست اور مخدوش ہے۔ ان ممالک میں شرح پیدائش تو زیادہ ہے ہی مگر ساتھ ساتھ غربت ، بیماریوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے شرح اموات بھی انتہائی بلند ہے۔

صحت کی سہولیات

ان ممالک کا مسئلہ آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا ہے تا کہ بلند شرح اموات کو کنٹرول کیا جاسکے۔ ان ممالک میں روانڈا، لائبیریا اور ایتھوپیا سر فہرست ہیں۔ دنیا کے ممالک کی یہ تین اقسام میں تقسیم دراصل ایک ارتقائی عمل کے تین مراحل کی غمازی کرتے ہیں ۔

خواتین کی شمولیت

تیسرا گروہ سب سے کم ترقی یافتہ اور صنعتی لحاظ سے بھی پسماندہ ہے۔ جوں جوں صنعتی ترقی بڑھتی جاتی ہے اسی طرح معاشی بڑھوتری کا عمل بھی تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں میں خواتین کی شمولیت بھی بڑھ جاتی ہے

بچوں کی پیدائش

کارل مارکس

جو عمومی طور پر کم بچوں کی پیدائش کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ صحت کی سہولیات میں بہتری آنے سے شرح اموات میں بھی واضح کمی آجاتی ہے۔

خواتین کی شمولیت

وقوع پذیر

چونکہ بچوں کی پیدائش فطری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی عمل بھی ہے اس لئے اس میں تبدیلی کی رفتار سست ہوتی ہے جو کہ آبادی میں اضافے کا باعث بنتی ہے مگر جیسے ہی تبدیلی کا یہ عمل ایک خاص درجے تک وقوع پذیر ہوتا ہے

آبادی میں اضافے کی رفتار

معاشرے میں پیدائش کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو پہلے گروپ میں شامل کیا جاتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوکارل مارکس  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

………..کارل مارکس   ………..

Leave a comment