ذیا بیطس ⇐ ذیا بیطس ملائٹس ایک دائی مرض ہے جس میں دنیا کے بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔ زمانہ قدیم میں طبیبوں نے اپنی تحریروں میں اس مرض کا ذکر کیا ہے کہ اس بیماری میں جسم گھل جاتا ہے اور وزن کم ہو جاتا ہے، پیشاب بھی بہت کثرت سے آتا ہے اور پیشاب میں مٹھاس ہوتی ہے۔ مرض یا بیس کا لفظی مطلب بہہ جاتا ہے اور ملائٹس کو لاطینی زبان میں شہد کہتے ہیں ۔ ذیا بیطس ملائٹس عموما ایک پیدائشی نقص کہا جاتا ہے جو کہ جوانی میں یا دیر سے ظاہر ہو سکتا ہے۔
ذیا بیطس سے مراد
عمل تحول پر اثر انداز ہونے والے ذیا بیس ملائٹس ایک ورثے کا مرض ہے جس میں انسولین کے کل یا کچھ حصے کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس مرض میں بافتوں میں کاربو ہائیڈریٹس استعمال کرنے کی صلاحیت یا تو کم ہو جاتی ہے یا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ چکنائی اور لحمیات کا عمل تحول بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ پیشاب میں گلوکوز کی زیادتی اور خون میں شکر کی زیادتی ہو جاتی ہے اور پیشاب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انسولین رطوبت کا نقص یا تو اس کے بنے میں یا اس کے اخراج کے عمل میں ہو سکتا ہے۔ ذیا بیطیس کے بہت سے مریضوں میں تھوڑی مقدار میں انسولین پیدا ہوتی ہے۔
ذیا بیطس کے مرض سے منسلک مسائل اور ان کی وسعت
ذیا بیطس ملائٹس کا مرض صحت عامہ کا بہت بڑا مسئلہ ہے یہ عمر کے تمام حصوں میں ہو سکتی ہے۔ یہ زیادہ تر 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس مرض کے ساتھ ساتھ دائی امراض مثلاً دوران خون کی خرابی، امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر گردوں کی خرابی اور آنکھوں کی خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ ذیا بیلیس اندھے پن کی وجوہات میں تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ 25 سال سے کم عمر لوگوں میں ذیا بیطیس کی شرح ایک ہزار میں 203 ہے۔ 45 سال سے اوپر افراد ہیں اس کی شرح 62 فی ہزار ہے۔ سب سے زیادہ شرح 55 سے 74 سال کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل لوگوں کو ذیا بیٹلس ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے: وہ لوگ جن کا ذیا بیطس کے مریضوں سے خونی رشتہ ہو۔ وہ لوگ جو 40 سال سے اوپر ہوں۔ وہ لوگ جو زیادہ موٹے ہوں ۔ وہ خواتین جو دوران حمل کاربوہائیڈ رئیس کو جذب نہ کر سکتی ہوں۔ وہ خواتین جن کے بچے 9 پونڈ یا اس سے زیادہ وزن کے پیدا ہوں۔ زیا بیطس کی شرح وزن میں زیادتی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے یہ ان لوگوں میں 12 گنا زیادہ ہوتی ہے جن کا وزن اپنے اوسطا وزن سے 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف نو جوانوں میں زیا بیطس کا مرض بہت کم ہوتا ہے حالانکہ ذیا بیٹیس اور موٹاپے کا آپس میں بہت تعلق ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذیا بیس موٹا ہونے کی وجہ سے ہے۔ خواتین مردوں کے مقابلے میں ذیا بیطس کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ کچھ خواتین میں دوران حمل غیر معمولی طور پر خون میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے لیکن بچے کی پیدائش کے بعد یہ مقدار معمول پر آ جاتی ہے لیکن بعض حالات میں یہی خواتین 10 یا 20 سال کے بعد ذیا بیطس کا شکار ہوتی ہیں ۔ وہ خواتین جن کے بچے زیادہ وزن کے پیدا ہوتے ہیں عموماً آخری عمر میں ذیا بیس کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ یہ نسبت ان عورتوں کے جن کے بچے مناسب وزن میں پیدا ہوں ۔ ایسے بچے جو زیادہ وزن کے پیدا ہوں وہ بھی آخری عمر میں ذیا بیطس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ذیا بیطس کے مراحل
عام طور پر ذیا بیطس کا وجو بچے کی پیدائش کے وقت موجود ہوتا ہے لیکن مرض کے کیمیائی اور طبی اثرات کئی سالوں تک ظاہر نہیں ہوتے ۔ دوران حمل مریض میں گلوکوز جذب نہ ہونے کی صلاحیت خاص طور پر حمل کے چھٹے یا نویں مہینوں کے درمیان میں ہوتی ہے لیکن بچے کے پیدا ہونے کے بعد چھ ہفتے کے اند رختم ہو جاتی ہے۔ بہت سی خواتین جن میں صحیح طور پر گلوکوز جذب نہیں ہوتا ان کے بچے زیادہ وزن کے ہوتے ہیں۔ طبی زیا بیطیس میں اس کی خاص علامات پیاس لگتا، پیشاب کی زیادتی اور بھوک کی زیادتی ہے اور اس کے علاوہ گلوکوز صیح طور پر جذب نہیں ہوتا۔
نوجوانی کی عمر میں ذیا بیطیس
نوجوانی کی عمر میں دو قسم کی ذیا بیس ہوتی ہے۔ ایک جوانی میں اور دوسرے سن بلوغت میں ۔ ایک وہ جو 20 سال کی عمر سے پہلے ہو اور دوسری وہ جو 20 سے 40 سال کی عمر میں ہولیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض 30 سال کی عمر میں ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ کاربو ہائیڈریشن کے عمل تحویل میں شدید خرابی ہوتی ہے اور انسولین کی پیداوار بہت کم یا نہیں ہوتی مریض کو انسولین کی ضرورت ہوتی ۔ پنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا۔ اس طرح ذیا بیٹیس میں بے ہوش ہو سکتا ہے۔ خون میں شکر بڑھ جاتی ہے۔ جوانی میں ذیا بیطیس میں وزن مناسب رہتا ہے یا کچھ کم ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ انسان کی نشو و نما ہوتے وقت اس میں ذیا بیطس کے جرثومے موجود ہوتے ہیں۔ پیشاب میں شکر کا آنا اور غیر معمولی حد تک زیادہ مقدار میں پیشاب کرنا پیاس کا بڑھ جانا بھوک کا بڑھ جانا اور وزن کا کم ہو جانا یہ سب ذیا بیس کی علامتوں میں شامل ہے۔
بالغ ہونے کے بعد کی ذیا بیطیس
بالغ ہونے کے بعد ذیا بیطیس عموما 30 سال کے بعد ہوتی ہے لیکن اس کی زیادہ تر شرح 50 اور 60 سال کی عمر میں ہے۔ اس کی ابتداء بہت آہستہ ہوتی ہے۔ ایسے مریض مسلسل تھکان کی شکایت کرتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ ان کے دوران خون میں خرابی موجود ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کو پیاس زیادہ لگتی مریض پیشاب کے زیادہ بار بار آنے اور بے چینی کی شکایت کرتے ہیں۔ ان کا وزن عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان کے خون میں عام لوگوں کی نسبت شکر بھی معمول سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مریض انسولین جیسی دوا کا استعمال کرے یا بلکہ صرف خوراک میں شکر کو کم کرنے سے اس پر قابو پاسکتے ہیں ۔
ذیا بیطس کی شناخت کیلئے لیبارٹری ٹیسٹ
ذیا بیطس کے مرض کی تشخیص او پر دی گئی علامات کے علاوہ لیبارٹری اسے مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے بھی کی جاتی ہے۔ پیشاب میں اضافی شکر / گلوکوز سیوریا کی ضرورت سے زیادہ موجودگی کو لیبارٹری میں تجربات کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ مریض کے پیشاب کو لے کر مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے اس میں شکر کی مقدار معلوم کی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار نارمل سے زیادہ ہو تو ذیا بیس کے مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ اس مقدار میں اضافے کی کوئی دوسری بڑی وجہ نہ ہوں اسکے اس خون میں اضافی شکرا ہا پر گلیسمیا کسی مرد کو اگر بارہ گھنٹوں کا فاقہ کروایا جائے اور پھر اس کے خون میں شکر کی مقدار کو لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ناپا جائے اگر 100 ملی لیٹر خون میں 140 ملی گرام کے قریب شکر موجود ہو تو ایسے فرد کو ذیا بیطیس کا مرض کہتے ہیں۔ اس ٹیکسٹ کو فاقہ زدہ خون میں شکر کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ بوڑھے افراد کے خون میں عام افراد کی نسبت شکر کی زیادہ مقدار موجود ہوتی ہے۔ لہذا اس زیادہ مقدار کوڈ یا بیس سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "ذیا بیطس" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ