آم کے درختوں اور پھلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے ⇐ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جس کی شکل پھانے سے کافی ملتی جلتی ہے۔ اس کے سر پر سیاہ اور بھورے رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔ یہ کیڑا نہایت پھرتیلا اور چست ہوتا ہے اور درختوں پر ہر وقت پھدکتا رہتا ہے۔
- آم کا تیلہ
- آم کی گدھیڑی
- آم کا خولدار کیڑا
جن درختوں پر اس تیلے کا حملہ ہو ایسے درختوں کے نیچے گزرنے پر بارش کے قطروں کی طرح ٹپ ٹپ کی سی آواز محسوس کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہ آواز ان کیڑوں کے پھرکنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس طرح درختوں پر تیلے کی موجودگی کا آسانی سے انداز و لگایا جاسکتا ہے۔
نقصان کرنے کا طریقہ
یہ کیڑا آم کے درختوں پر فروری سے اپریل اور پھر جون سے اگست تک رہتا ہے۔ اس کے بچے اور پردار کیڑے دونوں ہی پودوں کے پتوں کا رس چوستے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ آبادی کے بڑھنے کے موسم میں ان کے بچے بھاری تعداد میں پودوں پر پائے جاتے ہیں موسم بہار میں جب آم کے درختوں کو بور ( پھولوں کا کچھا لگتا ہے تو یہ ایک کثیر تعداد میں نئے شگوفوں، کونپلوں اور بور پر جھنڈ کی شکل میں اکٹھے رہتے ہیں۔ آم کے تیلے گرمیوں میں پتوں کے جھنڈ میں جمع ہو جاتے ہیں جبکہ سردی کے موسم میں درختوں کی چھال اور درزوں وغیرہ میں چھپ جاتے ہیں اور پتوں اور بور کا رس چوستے رہتے ہیں۔ پودوں کی بڑھت رک جاتی ہے۔ پودے کمزور ہو جاتے ہیں۔ حملہ شدہ پودوں پر آیا ہوا بور اور مرجھا کر سوکھ جاتا ہے۔ اس کے شدید حملے کی صورت میں پھل بالکل نہیں لگتا۔ پودوں کا رس چوسنے کے ساتھ ساتھ یہ کیڑے پتوں پر ایک طرح کا لیس دار مادہ بھی خارج کرتے ہیں۔ جس ” سے سیاہ رنگ کی پھپھوندی لگ جاتی ہے۔
روک تھام
سورج کی روشنی اس کیڑے کی تلفی میں بے حد مفید اور موثر رہتی ہے۔ اس لئے آم کے گھنے باغوں میں سے فالتو پودے نکال دینے چاہئیں ۔ تاکہ ان میں سورج کی زیادہ روشنی اور ہوا پہنچ سکے اس کے علاوہ پودوں کا آپس کا فاصلہ بھی برابر رکھنا ضروری ہے۔ حملہ شدہ اور خشک ٹہنیاں بھی کاٹ دینی چاہئیں۔
زہروں کا استعمال
آم کے تیلے پر قابو پانے کیلئے کئی زہریں تجویز کی جاتی ہیں۔ مندرجہ ذیل میں سے کوئی کی زہر استعمال کی جاسکتی ہے۔
ڈائمیکران
اینتھیو
ہوسٹا تھیان۲۵ فیصد
میٹاسٹاکس ۲۵ فیصد
زہر کی مقدار ۳۳ ، لیٹر (اصل زہر ) ۴۵۰ لیٹر پانی میں ملا کر ۱۰ سے ۱۵ دنوں کے وقفے سے سپرے کریں۔ سپرے پھول نکلنے سے پہلے کرنی چاہیے۔
پہچان
اس کیڑے کی مکمل مادہ ہے پر اور شکل میں چپٹی ہوتی ہے اور اس جسم کا سفید سفوف مواد سے ڈھکا رہتا ہے جس کی وجہ سے یہ سفید دکھائی دیتی ہے جبکہ مکمل پر دار نر کا رنگ سیاہی مائل چاکلیٹی ہوتا ہے اور قد میں گھر یلو مکھی سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔
نقصان کرنے کا طریقہ
آم کے درختوں کے علاوہ یہ کیڑا اور بہت سے درختوں پر بھی پایا جاتا ہے۔ جن میں مالٹا سنگترہ، لیموں ، لوکاٹ، آڑو امرود، انجیر، شہتوت،بیر اور لسوڑا وغیرہ شامل ہیں۔ پھلدار درختوں کے علاوہ یہ دوسرے سایہ دار درختوں، مکانوں، دیواروں، فرشوں پر رینگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیڑا موسم بہار اور پھر مئی جون کے مہینوں میں درختوں پر پایا جاتا ہے۔ یہ کیڑا درختوں کے پتوں پر رینگتا ہوا زم اور نازک شاخوں پر حملہ کر کے رس چوستا رہتا ہے۔ مادہ مئی، جون میں درختوں کے نزدیک اور سطح زمین سے نیچے انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے ایک لیے عرصہ تک زمین میں پڑے رہتے ہیں۔ دسمبر جنوری میں ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔ جو خوراک حاصل کرنے کیلئے درختوں کے تنوں سے رینگتے ہوئے نرم ٹہنیوں اور شگونوں پر پہنچ جاتے ہیں اور رس چوسنا شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں پورے کمزور ہو جاتے ہیں۔ آم کا یہ کیڑا پودوں کا رس چونے کے علاوہ پتوں پر ایک طرح کا لیس دار مادہ بھی خارج کرتا ہے۔ جس سے پتوں پر سیاہ رنگ کی پھپھوندی لگ جاتی ہے۔
روک تھام
آم کی گدھیڑی کو مندرجہ ذیل مختلف طریقوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
انڈوں کو تلف کرنا
کیڑے کی مادہ زمین میں ۵ سے ۱۵ سینٹی میٹر (۲-۶ انچ) کی گہرائی تک گھس کر انڈے دیتی ہے اس لئے جون سے دسمبر کے مہینوں میں حملہ شدہ درختوں کے نیچے اور ارد گرد ۵ سینٹی میٹر (۶ انچ) کی گہرائی تک ہل چلا ئیں مٹی کے الٹ پلٹ ہونے سے زمین میں موجود انڈے اوپر آجاتے ہیں۔ سطح زمین پر انڈے یا تو سورج کی گرمی سے خشک ہو جاتے ہیں یا پھر پرندوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ درختوں کے نیچے ہل چلانے یا گوڈی کرنے کے دوران ان کے دوروں میں بی ایچ سی ڈال دینے سے انڈوں سے نکلتے ہوئے بچے زہر کے اثر سے تلف ہو جاتے ہیں۔
ایک کلو گرام بی ۔ ایچ سی لے کرہ اکلوگرام باریک مٹی یا راکھ میں اچھی طرح ملالیں اور درختوں کے دوروں میں چھڑک دیں۔
درختوں کے گرد رکاوٹی بند لگانا
درختوں کے تنوں کیلئے تین قسم کے بند استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً
- پھسلانے والا بند
- پھیلانے والا بند
- چپکانے والا بند
پھسلانے والا بند
جب اس کیڑے کے بچے نکل رہے ہوں یا نکلنے والے ہوں تو احتیاطا اس رکا وٹی بند کی ضرورت پڑتی ہے اور تنے کے ساتھ اس لئے لگایا جاتا ہے کہ بچے رینگ کر درختوں پر نہ چڑھ سکیں۔ اس مقصد کیلئے بہترین قسم کی موم جامے کی ۱/۲- ۷ سے ۱۰ سینٹی میٹر (۳۰۳ انچ) چوڑی پٹی درخت کے تنے کے ارد گرد کیلوں کے ساتھ لگا دی جاتی ہے۔ بچے جب بھی کبھی اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس موم جانے سے پھسل کر واپس زمین پر گر پڑتے ہیں۔
پھسلانے والے بند لگانے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ درخت کے تنے کی وہ سطح ہموار ہونی چاہیے۔ جس جگہ یہ بند استعمال کیا جاتا ہو۔ اگر سطح ہموار نہ ہو تو سب سے پہلے اس جگہ کو گارے کے لیپ سے ہموار کر لیں۔ کیونکہ ہموار نہ ہونے کی صورت میں گدھیڑی کو درخت پر چڑھنے کا موقع مل جائیگا۔
پھانسنے والا بند
اس رکا وٹی بند کا مقصد بھی یہی ہے کہ گدھیڑی کو درخت پر جانے سے روکا جائے۔ درخت کے تنے کے ارد گرد دھنی ہوئی روئی کی تہہ کو ستلی رسیوں سے لپیٹ دیا جاتا ہے۔ جس سے گدھیٹری کی ٹانگیں روئی میں پھنس جاتی ہیں اور وہ وہاں سے نہیں نکل سکتیں۔
پھانسنے والے بند کی حفاظت بھی ضروری ہے کیونکہ چو ہے اور گلہریاں روئی کو چرا لے جاتے ہیں اس کے علاوہ بارش میں روئی کے بھیگ جانے کی وجہ سے موثر نہیں رہتا۔ اس لئے اس قسم کا بند بار بار لگاتے رہنا چاہیے۔
چپکانے والا بند
چپکانے والا بند کسی چپکنے والی چیز سے بنایا جاتا ہے۔ اس بند کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گدھیڑی کسی طرح درختوں پر نہ پہنچ سکے اور جب رینگ کر او پر جانے کا رخ کرتی ہیں تو اس بند پر چپک کر رہ جاتی ہیں۔ اس قسم کا بند مختلف چیزوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ تنے پر ۸-۱۰ سینٹی میٹر چوڑی شیرہ کی پٹی لگا دی جاتی ہے۔ گدھیڑی جب رینگتی ہوئی اس پٹی پر پہنچتی ہے تو اس میں چپک جائے گی اور اس طرح پودے اس کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ گنده بروزہ اور ارنڈ کا تیل برابر وزن لے کر گرم کریں۔ اس طرح یہ ایک لیس دار چپکنے والا مادہ تیار ہو جاتا ہے۔ جو تنے پر بند کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ درخت کے تنے پر سن یا مونج کے رسے کا ۲۳ سینٹی میٹر (انچ) چوڑا بند لپیٹیں اور اس پر ڈیزل تیل اور تارکول ملا کر لگا دیں۔ نمھار کا آ سیٹکو بند بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں درخت کے تنے پر اسی کو بند لگا ئیں جو بازار سے بنا بنا یا مل سکتا ہے۔
اس قسم کے بند کی گا ہے بگا ہے جانچ پڑتال کرتے رہیں۔ خیال رہے کہ یہ خشک نہ ہونے پائیں۔ خشک ہونے کی صورت میں دوبارہ لیپ کر دیں تا کہ یہ بند اپریل تک موثر رہ سکیں۔
رکاوئی بند گدھیڑی کو درختوں پر چھڑنے سے روکنے کیلئے لگائے جاتے ہیں۔ جو تنے پر زمین سے سینٹی میٹر (۳) نٹ) کی اونچائی پر لگائے جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ بند د سمبر سے اپریل تک تنوں سے لگے رہیں۔
زہروں کا استعمال
درختوں پر گدھیڑی کا حملہ ہونے کی صورت میں کئی ایک زہریں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ گدھیڑی کے بچوں کیخلاف دسمبر سے مارچ تک۔
- ڈائی میکران ۱۰۰ فیصد
- میٹا سٹا کس ۲۵ فیصد
- ہوسٹا تھیان ۴۰ فیصد
بحساب ۴۵ لیٹر، ۴۵۰ لیٹر پانی میں ملاکر اسے ۱۵ دن کے وقفے سے سپرے کریں۔
مکمل گدھیڑی کیخلاف اپریل سے مئی تک ان زہروں میں سے کسی ایک کو بحساب ۶۷ و لیٹر، ۲۵۰ لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
پہچان
یہ کیٹرا شکل و شباہت میں دوسرے کیڑوں سے کافی مختلف ہوتا ہے اور آم کے درخت کے پتوں اور نرم شاخوں پر چھوٹے چھوٹے موم کی طرح گول چھلکوں کی شکل میں یہ کیڑے موجود ہوتے ہیں ۔ دراصل ان چھوٹے چھوٹے گول موم کے چھلکوں میں آم کے خولدار کیڑے پائے جاتے ہیں۔
نقصان کرنے کا طریقہ
مادہ کیڑا ایسے خولوں کے نیچے انڈے دیتی ہے۔ ان میں سے بچے نکلنے کے بعد خوراک کیلئے درخت کے مختلف ” حصوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنے باریک سوئی جیسے منہ کی مدد سے درختوں سے رس چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ حملہ شدہ درختوں کے پتوں پر پیلے رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں اور اس طرح وہ سوکھ کر گرتے رہتے ہیں۔ ایسے درختوں پر پھل کی پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ آم کے خولدار کیڑے اپنے جسم سے موم خارج کرتے ہیں اور اپنے جسم کے ارد گرد ایک طرح کا حفاظتی خول بنا لیتے ہیں۔
روک تھام
حملہ شدہ درختوں کی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرتے رہیں۔ اس کیڑے کی تلفی کیلئے کئی کیمیائی زہریں استعمال کی جاتی ہیں۔
ڈائی میکران ۱۰۰ فیصد
میٹا سٹاکس ۲۵ فیصد
میلا تھیان ۵۷ فیصد
زہر کی مقدار ۳۴ لیٹر اصل زہر تجویز کی جاتی ہے۔ جسے ۴۵۰ لیٹر پانی میں ملا کر اچھی طرح سپرے کریں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "آم کے درختوں اور پھلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
`