سفید کنگی
سرسوں کی بیماریاں ⇐ یہ بیماری ایک قسم کی پھپھوند کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے پتوں کی نچلی سطح پر سفید یا ہلکے بادامی رنگ کے چھالے ظاہر ہوتے ہیں بعد میں یہی علامات تنے یا پھولوں والی ڈنڈی اور پھولوں کی لٹیوں پر ظاہر ہوتی ہیں اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو نقصان ۵۰ فیصد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
حفاظتی تدابیر
قوت مدافعت رکھنے والی اقسام مثلاً ٹاور اورو وغیرہ کاشت کرنی چاہیے۔ جنگلی پودے اور دوسری خودرو میزبان پودے جن پر بیماری آتی ہے ختم کر دیئے جائیں۔ صاف ستھرا اور تندرست بیج استعمال کرنا چاہیے۔ فصلوں کی ترتیب یا ردو بدل کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
روئیں دار پھپھوند
اس بیماری سے متاثرہ شاخیں، پھول والی ڈندی اور پھول کے کچھ حصے ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور پھول کے بعض حصے پتوں جیسی شکل اختیار کر لیتے ہیں متاثرہ حصوں پر پھپھوند کے سفید یا ہلکے بادامی رنگ کے جراثیم ہوتے ہیں۔
حفاظتی تدابیر
اس کی حفاظتی تدابیر بالکل سفید کنگی کی طرح ہیں۔
روک تھام
بیماری کے شروع ہونے سے پہلے یا شروع ہوتے ہی فصل پر پھپھوند کش زہر مثلاً ڈائی تھین ۔ ایم اور کپتان بحساب ۲۰۵ کلوگرام فی ہیکٹر کے حساب سے سپرے کریں پھر ہفتے بعد دوبارہ سپرے کریں۔
برگی داغ یا جھلساؤ
اس بیماری کا حملہ عموما پتوں پر ہوتا ہے سب سے پہلے پتوں پر ہلکے بھورے رنگ کے دائروں کی شکل کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں بعد میں ان دھبوں کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے۔ شدید حملے کی صورت میں یہ دائرے تنوں اور پھلیوں پر بھی ظاہر ہوتے ہیں اور متاثرہ حصے جھلسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
حفاظتی تدابیر
اس کی حفاظتی تدابیر بالکل سفید سنگی جیسی ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے بیج بونے سے پہلے بیج کو پھپھوند کش دوا دیٹا یکس بحساب ا سے ۲ گرام فی کلو گرام بیج کی شرح سے لگا ئیں تاکہ بیج پر لگے ہوئے بیماری کے جراثیم ختم ہو جائیں۔
پتوں کا جراثیمی جھلساؤ
یہ بیماری مختلف جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے شروع میں پتوں پر گہرے سبزی مائل دھبے پڑ جاتے ہیں جو بعد میں سیاہ رنگ کے ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے پتے سوکھ کر گر جاتے ہیں ۔ شدید حملے کی صورت میں پودے، پھلیاں اور تنے بھی متاثر ہوتے ہیں اور گل سڑ جاتے ہیں۔
حفاظتی تدابیر
- بیچ ہمیشہ صحت مند اور صاف ستھرا استعمال کرنا چاہیے۔
- فصلوں کا مناسب ردو بدل کریں۔
- نائٹروجنی کھاد کا زیادہ استعمال نہ کیا جائے۔
- قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔
- بیمار پودوں کو اکھاڑ کر جلا دینا چاہیے۔
جڑ اور تنے کی سڑن
اس بیماری کا حملہ عام طور پر گرم اور خشک علاقوں میں ہوتا ہے زیادہ درجہ حرارت کے دنوں میں جب کھیت میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے جڑاور تنے کے متاثرہ حصے گل سڑ جاتے ہیں بیماری کے بار یک سیاہ رنگ کے دانے (جراثیم) جڑوں کے اوپر والی سطح کے نیچے اور تنے کے اندر بہت زیادہ مقدار میں بنتے ہیں۔
حفاظتی تدابیر
- بیج ہمیشہ صحت مند اور صاف ستھرا استعمال کرنا چاہیے۔
- فصلوں کو مناسب ردو بدل یا ترتیب سے کاشت کیا کریں۔
- نائٹروجن کا زیادہ استعمال نہ کیا جائے۔
- قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔
- بیمار پودوں کو اکھاڑ کر جلا دینا چاہیے۔
- بوائی سے پہلے سچ کو پھپھوندکش دوا مثلاً ویٹاویکس لگائیں۔
بیج کو دوا لگاکرکاشت کرنے کی اہمیت
پاکستان میں بہت سی فصلیں ایسی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو تخم (بیج) اور زمین سے پھیلتی ہیں۔ فصلوں کے بیجوں کے ارد گرد کچھ جراثیم اور پھپھوندیاں موجود ہوتی ہیں جو زمین سے نمی حاصل کرنے پر نشو و نما پاتی ہیں اور حملہ آور ہوتی ہیں اور جس کے نتیجے میں بیجوں کی روئیدگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ عمدہ کی افادیت سے تو ہمارے کسان بھائی بخوبی واقف ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیماری سے پاک صاف کر کے بیچ کاشت کرنے سے پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کسی بھی فصل کی کاشت سے پہلے اس کے بیچ کا معالجہ ضرور کر لینا چاہیے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں لوگوں نے مختلف فصلوں کے بیچ کو دو الگانے کی افادیت اور ضرورت کو بخوبی محسوس کر لیا ہے کیونکہ دوائی لگانے کا طریقہ کافی آسان ہے اور اس عمل سے فصلوں کو کئی ایک موذی بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
بیج کودوالگانے کے فوائد
کسی فصل کی اچھی پیداوار لینے کیلئے یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کاشت کیلئے صحت مند اور اچھے بیچ کا انتخاب کیا جائے اگر تندرست بیج استعمال کیا جائے تو فصل بھی صحت مند ہوگی۔ پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ کسی بیماری سے متاثرہ پیج کاشت کرنے سے فصل بھی کمزور رہے گی جو پیداوار میں کمی کا باعث ہوگی۔ بیج کو دوالگانے سے بیچ کو لگنے والی بیماریوں کے جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی شرح روئیدگی بڑھ جاتی ہے۔ زہر لگے بیچ جلد اور ایک ہی وقت میں اگ آتے ہیں ۔ کھیت میں ناغے بھی نہیں دکھائی دیتے۔ بیچ پر دو الگانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بیجوں کی کاشت کے بعد ان کے اگنے یا ننھے اور نازک پودوں کے باہر نکلنے کیلئے موسمی حالات اگر موافق نہ بھی ہوں تو بیجوں کے گلنے سڑنے کا اندیشہ نہیں رہتا۔ بعض بیماریاں اتنی خطرناک نوعیت کی ہوتی ہیں کہ اگر بر وقت ان کے علاج کی طرف دھیان نہ دیا جائے تو وہ وبائی صورت اختیار کر جاتی ہیں جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ انہی بیماریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ذیل میں چند اہم بیماریوں کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن کی تباہ کاریوں اور نقصانات پر نظر ڈالنے سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف فصلوں کو بیماریوں کے نقصان دہ اثرات سے بچانا کتنا اور کیوں ضروری ہے۔ .۱۸۴۵ء میں آئر لینڈ میں آلو کی فصل پر آلو کی پچھبتی جھلساؤ” کا انتخاز بردست حملہ ہوا۔ اس بیماری سے تمام یورپ اس کی لپیٹ میں آگیا جس کے نتیجے میں زبر دست قحط پڑا۔ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے اور بہت سے لوگوں کو اپنی خوراک کی تلاش میں دوسرےملکوں کی طر ف جاناپڑا ۱۹۳۳ء میں بنگال میں دھان کی فصل پر قحط کی وجہ جھلسا ؤ”” بتائی جاتی ہے۔ اس بیماری کے حملے سے پیداوار میں ۲۷ فیصد کی ہوگئی تھی۔ ۷۶ – ۱۹۷۵ ء میں کپاس کی فصل بری طرح متاثر ہوئی۔ کیڑوں کے حملے کے ساتھ ساتھ کئی ایک بیماریوں نے بھی اس فصل کو بے حد نقصان پہنچایا ۔ جن میں خاص کر جراثیمی جھلساؤ” جیسی موذی بیماری نے زبر دست تباہی مچائی۔ وائرسی بیماریوں سے فصلوں کی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے مثال کے طور پر۔ بھارت میں موزیک“ کی وجہ سے کمار کی فصل کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ برطانیہ میں آلو اور چقندر کو وائرسی بیماریوں سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ان فصلوں کو وائرسی بیماریوں سے بچانے کیلئے ایک بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔گندم ہماری بنیادی خوراک ہے اور وسیع رقبہ پر کاشت ہوتی ہے۔ ۱۹۷۸ء میں غیر موزوں موسی تبدیلیاں کم درجہ حرارت ، زیادہ بارش اور بادل والے موسم ) کنگی کے پھیلانے کا سبب بنے۔ گندم کی چند سفارش کردہ اقسام مثلاً بارانی ۷۰ ایس ۔ ، پوٹھوار اور پنجاب ۷۶، کنگی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھیں۔ اس بیماری کے حملے سے گندم کی پیداوار میںتقریبا 1 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ۷۹ ۱۹۷۸ء میں گندم کی کھلی کا نگاری کی وبائی صورت کے پیش نظر ہمیں 4 ملین ٹن گندم باہر سے منگوانی پڑی ۔ ۸۳-۱۹۸۲ء میں گندم کی کھلی کانگیاری کی موذی بیماری کے حملے سے گندم کی پیداوار میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح دوسری فصلوں کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن پر طرح طرح کی بیماریاں حملہ آور ہو کر ہر سال پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان موذی بیماریوں کی تلفی کی طرف خاص دھیان دیا جائے۔ چناربیع کی ایک اہم فصل ہے اور اس کی غذائی خصوصیات سے ہم سب واقف ہیں۔ انسانوں ، دودھ دینے والے، بوجھ اٹھانے والے اور وزن کھینچنے والے جانوروں کیلئے ایک نہایت اہم غذا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں چنے کی موذی بیماری ” جھلساؤ نے ایک وباء کی صورت اختیار کر لی اور فصل کو بالکل نیست و نابود کر دیا۔ اس کے بعد بھی کسی نہ کسی سال یہ فصل اس بیماری کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ ۱۹۷۹-۱۹۸۲ء کے دوران بھی اس مہلک بیماری نے چنے کی فصل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس بیماری کی وجہ سے پیداوار کا نقصان ۵۰ فیصد سے زیادہ لگایا گیا ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو چنے کی فصل بلکل تباہ ہوجاتی ہے۔ بیماری کے پیش نظر چنے کی فصل کے زیر کاشت رقبے میں کمی کا اندیشہ رہتا ہے۔ فصلوں (غلہ دار، تیل دار اور نقد آور کی مشہور بیماریوں اور ان کی روک تھام کے بیجوں پر دوائی لگانے کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کے اہم جزو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بیچ پر دو الگانے کے طریقے کے بارے میں بھی بتا دیا جائے۔ تو گندم کی کھلی کانگیاری برگی کانگیاری اور بند کانگیاری زیادہ نقصان دہ ہیں۔
گندم کاشت کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل پھپھوند کش دودواؤں میں سے کسی ایک زہر کو تجویز کی گئی مقررہ مقدار میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
- وائٹاویکس
- بے ٹان
- بینالیٹ
- ٹاپسن
- پینو رام
بیج کو دوالگانےکا طریقہ
بیج کو دو الگانے کیلئے ایک خاص قسم کا لوہے کا ڈرم ہوتا ہے۔
گندم کے جتنے بیج کو زہر لگانی ہو اسی حساب سے زہر کی مقدار بھی معلوم کریں۔
سب سے پہلے ڈرم میں بیچ ڈال دیں اور اس میں مطلوبہ زہر جس کی مقدار او پر درج کر دی گئی ہے ڈال دیں۔ ڈرم کو ۵ منٹ تک ہلائیں تاکہ ڈرم کے گھومنے اور بیج الٹ پلٹ ہونے سے تمام بیج پر زہر یکساں طور پر لگ سکے۔
اس بات کا خیال رہے کہ ڈرم میں بیچ ڈالتے وقت ڈرم کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ خالی رہے تا کہ ڈرم کے گھومنے کے دوران پیچ اچھی طرح الٹ پلٹ ہو سکیں اور تمام پیج پر دو الگ سکے۔
اگر آپ کو گھومنے والی ڈرم مشین نہ مل سکے تو بیج کو ایک اور طریقے سے دو الگا سکتےہیں۔ اس مقصد کیلئے آپ مٹی کے تیل کا ایک خالی کنستر استعمال کر سکتے ہیں یا اس کی جگہ ایک ایسی بوری لیں ۔ جس کے اندر پلاسٹک کی موٹی تہہ لگی ہوئی ہو۔ اس کے اندر بیج اور زہر ڈال دیں۔ کنستر یا بوری کو اچھی طرح الٹ پلٹ کریں۔ ایسا کرنے سے بیجوں پر زہر یکساں طور پر لگ جاتی ہے۔
احتیاطی تدابیر
کسی فصل پر زہر لگانے کے دوران چند ایک احتیاطوں پرسختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ او پر دی گئیں دوائیں بہت ہی زہریلی ہوتی ہیں۔ اس لئے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بیج کو زہر آلود کرنے کے عملی مشاہدہ کیلئے آپ اپنے علاقے میں محکمہ زراعت کے توسیعی کارکن سے مشورہ کر لیں ۔
ہدایات
زہر والی بوتل یا ڈبے کو ہمیشہ تالے میں رکھیں اور بچوں کی پہنچ سے دور ہوں۔ دو الگانے سے پہلے ہاتھوں پر پلاسٹک یا ربڑ کے دستانے پہن لیں اور ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لیں تا کہ دوا اڑ کر سانس لینے کے دوران جسم میں نہ پہنچ جائے ۔ بیج کو دو الگانے سے پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو کتنے بیچ پر زہریلی دو الگانی ہے۔ ہمیشہ دوائی کی صحیح اور مقررہ مقدار ہی استعمال کی جائے کیونکہ ضرورت سے زیادہ زہر کے استعمال سے بیچ کی روئیدگی متاثر ہو سکتی ہے۔ زہر آلود بیچ کو انسانوں، جانوروں اور پرندوں وغیرہ کیلئے استعمال نہ کریں۔ بیج کو زہر لگانے کے دوران سگریٹ وغیرہ نہ پئیں۔ جس کھیت میں زہر لگے بیج کاشت کئے گئے ہوں۔ ایسے کھیت میں مرغیوں بطخوں وغیرہ کو نہ جانے دیں۔ کھیت میں نقلی چوکیدار بنا کر نصب کیا جاسکتا ہے۔ پرندے اس طرح ڈرتے ہیں۔ بیچ پر دو الگانے اور کاشت کے بعد ہاتھ منہ کو صابن سے اچھی طرح دھولیں ۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "سرسوں کی بیماریاں" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
…………… سرسوں کی بیماریاں ……………..