آم کی بیماریاں

آم کی بیماریاںآم پر مندرجہ ذیل بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔

  • آم کا بٹور
  •  آم کا سوکا

آم کی بیماریاں

آم کا بٹور

آم کا بٹور کی بیماری آم کی فصل کو زبردست نقصان پہنچاتی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے بٹورکی بیماری عام ہوتی جارہی ہے اور آم کی کاشت میں ایک زبردست رکاوٹ کا باعث بن گئی ہے۔

پہچان

اس بیماری کا حملہ درختوں پر شگوفوں کے نکلتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ درختوں پر پھولوں کی شاخیں مخروط نما گچھوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ بعد میں یہ گچھے سیاہ رنگ کے ہو جاتے ہیں اور خشک ہو جاتے ہیں۔ چڑ مڑ شکل کے دکھائی دیتے ہیں۔ آم کے اس قسم کی گچھے کافی دیر تک درختوں پر لٹکے رہتے ہیں جن پر پھل بالکل نہیں بنتا۔ اگر آپ کو آم کے درختوں پرسیاہ گچھے لٹکتے ہوئے دکھائی دیں تو آپ بخوبی بتاسکتے ہیں کہ آم کے درختوں پر بٹور کا عمل رہ چکا ہے۔ بعد میں نکلنے والے پھول بھی بیماری سے متاثر ہوتے ہیں اور ان پھولوں کی شکل میں گچھوں کی سی ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے گچھے کھل نہیں پاتے اور سبز رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی شگوفوں سے سبز سبز پتیاں بھی نکل آتی ہیں بیماری والے درختوں پر پھل نہیں لگتا۔ آم کے بٹور کے گچھوں میں طرح طرح کے کیڑے اورجراثیم کو چھپنے کا موقع مل جاتا ہے

پھیلنے کے اسباب

جہاں تک آم  کے بٹور  کے مرض کا سوال ہے تو یہ بیماری نہ کسی کیڑے کی وجہ سے پھیلتی ہے نہ اس کی بیکٹیریا کی وجہ سے پھیلتی ہے اور نہ ہی کسی فنگس کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ سائنس دان کافی عرصے سے اس بیماری پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی حتمی نتیجے نہیں پہنچ سکے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ برسات اور مرطوب والے موسم میں بٹور  کی بیماری زیادہ پھیلتی ہے۔ جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ بٹور کی بیماری  نئے پودوں کو پیوند کرتے وقت منتقل ہو جاتی ہے۔

پھیلنے کے اسباب

روک تھام

کیونکہ آم کی بٹور کی بیماری نامعلوم وجوہات سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس بیماری کے علاج کیلئے کوئی صحیح تجویز پیش نہیں کی جاسکتی پھر بھی مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر پر عمل کر کے بٹور کی موذی بیماری کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ آم کی ایسی قسموں کے پودے لگائے جائیں جو بیماری کیخلاف قوت مدافعت رکھتے ہوں یا جن پر بیماری کا حملہ کم ہوتا ہوں۔ لنگڑا ، نیلم، سندھڑی اور الفانسو آم کی ایسی قسمیں ہیں جو بٹور کی بیماری کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ بیماری سے متاثرہ پھول کے گچھوں کو کاٹ کر گڑھے میں دبا دیں یا جلا دیں۔پودوں کو کھاد اور پانی دینے اور گوڈی کا خاص خیال رکھیں آم کی پیوند کاری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ پیوندی شاخ بٹورکی بیماری سے متاثر نہ ہو۔

 آم کا سوکا

آم کے سوکے کی بیماری پاکستان میں آم کے تقریبا ہر باغ میں پائی جاتی ہے۔ خاص کر آم کے پرانے درختوں پر یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے اور اس طرح آم کی پیداوار میں ایک زبردست رکاوٹ بن گئی ہے۔

 آم کا سوکا

پہچان

  سوکے کی بیماری درختوں کے مختلف حصوں یعنی پتوں ، ڈنڈیوں شاخوں اور پھلوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ پتوں پر بھورے کے دھبے (نشان ) ظاہر ہوتے ہیں جو پتوں  کے سروں اور کناروں پر بہت زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔ یہ دھبے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں لیکن ان کا سائز ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ بیماری نئی اور چھوٹی شاخوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی شاخیں اور تنے بیماری کے لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ بیماری کے بڑھ جانے پر شاخیں اوپر سے نیچے کی طرف خشک ہونے لگتی ہیں اور ان پر لیے سیاہ رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ آم کے سوکے کی بیماری سے ڈنڈیوں کا رنگ سیاہ ہو جاتا ہے۔ پتے پیلے اور خشک ہونے لگتے ہیں اور آخر کار درختوں سے گر جاتے ہیں۔ جب سوکے کی بیماری پھلوں پر حملہ آور ہوتی ہے تو ان پر سیاہ بھورے رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پھل گل سڑ جاتے ہیں۔

پھیلنے کے اسباب

اس بیماری کا سب ایک قسم کی پھپھوندی ہے جہاں تک اس بیماری کے پھیلنے کا سوال ہے تو بیماری کے بیج  درختوں کے مختلف متاثرہ حصوں ، پتوں، ٹہنیوں پر کافی لمبے عرصے تک موجود رہتے ہیں۔ اس قسم کے متاثرہ حصے درختوں پر موجود رہتے ہیں یا پھر زمین پر گرے ہوئے ہوتے ہیں اور جب اس بیماری کے نشو نما کا موسم شروع ہوتا ہے تو ایسے بیچ تیز ہوا اور بارش کے ذریعے بکھر کر آم کے تندرست پودوں پر پہنچ جاتے ہیں اور ان میں بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ نم اور مرطوب موسم میں آم کے سوکے کے پھیلنے میں بہت زیادہ مددملتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ آم اور ترشاوہ پھلوں میں  سوکے کی بیماری ایک ہی قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

پھیلنے کے اسباب

روک تھام

بیماری سے متاثرہ درختوں کے مختلف حصوں ( پتے ، ڈنڈیاں، ٹہنیاں وغیرہ ) کو کاٹ کر جلا دیں۔ باغ میں اس طرح کے ادھر ادھر بکھرے ہوئے حصوں کو بھی اکٹھا کر لیں اور جلا دیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ جن شاخوں کو کاٹا جائے ان کے سروں پر کول تار لگا دیں۔ آم اور ترشاوہ پھلوں کے سو کے کی بیماری چو نکہ ایک ہی قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ گملوں میں لگائے ہوئے آم کے پودوں کو سو کے سے متاثرہ تر شاوہ درختوں کے آس پاس یا ان کے نیچے نہ رکھیں ۔  باغ میں پودے لگانے کیلئے ایسی نرسری سے پودے حاصل کئے جائیں جو بیماری سے پاک صاف ہوں ۔ کمزور  پودے چونکہ اس بیماری سے زیادہ جلدی متاثر ہوتے ہیں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آم کے پودے زرخیز زمین میں لگائے جائیں ۔ کمزور پودوں کو گوبر کی گلی سڑی کھاد اور نائٹروجن والی کھاد دینی چاہیے۔ بڑے بیمار درختوں پر مندرجہ ذیل زہریلی دواؤں کا استعمال کریں۔

  • ڈائی تھین ایم – ۴۵ ایک کلوگرام ۴۵۰ لیٹر (۱۰۰ گیلن ) پانی
  • کپراویٹ۱۰۰  گرام (۲ پوند) ۳۵۰ لیر ( ۱۰۰ گین ) پانی
  • انٹرا کول ایک کلو ۲۵۰ لیر ( ۱۰۰ گیلین) پانی
  • بینلیٹ۱/۳ کلوگرام ۳۵۰ لیٹر (۱۰۰ گیلن ) پانی

آم کے چھوٹے پودوں کیلئے زہریلی دواؤں کی مقدار کم رکھنی چاہیے۔ بورڈ مکسچر۲۲۵۰ کی طاقت  تناسب سے سپرے کریں سال میں تین سپرے کریں۔ پہلی سپرے فروری میں دوسری سپرے اپریل میں ( پھل بننے کے بعدتیسری سپرے ستمبر میںہ

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “آم کی بیماریاں”  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کری

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

…………….  آم کی بیماریاں  …………….

Leave a comment