افراط زر

افراط زر ⇐معاشی اصطلاح میں افراط زر سے مراد قیمتوں میں مسلسل اضافہ لیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں زرگی بہت زیادہ مقدار بہت تھوڑی اشیا  تعاقب کر رہی ہوتی ہے یا الفاظ دیگر جب اشیا کی مقدار کے مقابلے میں زر کی مقدار بڑھنے سے قیمتوں میں مسلسل اضافہ واقع ہورہا ہو تو ایسی کیفیت کو افراط زر کا نام دیا جاتا ہے۔ پروفیسر انس کے نزدیک ” جب اشیا و خدمات کی پیداوار کی نسبت قیمتوں میں بڑھنے کا رجحان پایا جائے تو ایسی کیفیت کو افراط زر کہتے ہیں۔ لہذا جب کسی ملک میں اشیا کی قیمتوں کا معیار مسلسل اور تیزی سے بلند ہورہا ہو تو وہ ملک افراط زر کا شکار ہوتا ہے۔ لوگوں کی زری آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن حقیقی آمدنی پہلے جتنی ہی رہتی ہے کیونکہ روپے کی قدر گرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے حقیقی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

افراط زر

افراط زر کی اقسام

افراط زر

افراط زر کی اہم اقسام درج ذیل ہیں۔ 

طلب کے کھینچاؤ کا افراط زر

جب اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اشیا کی طلب بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے تو اسے طلب کے کھچاؤ کا افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر کی ایسی صورت حال میں اشیا کی طلب بڑھنے کی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ، لوگوں کی پسند و نا پسند میں تبدیلیاں، فیشن میں تبدیلی یا مصنوعی قلت ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اشیا کی طلب ، رسد کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ طلب کے دباؤ کے تحت افراط زرد و طریقوں سے رونما ہوتی ہے۔ -i -ii قیمتوں میں معمولی مگر مسلسل اضافہ خزیندہ افراط زر  کا سبب بنتا ہے۔ جب قیمتوں میں اضافہ بڑی تیزی سے ہو رہا ہو اور اس پر قابو پانا آسان کام نہ ہو تو ایسی صورت حال کو تیز سرپٹ افراط زر کہتے ہیں۔

مصارف پیدائش میں بڑھوتری کا افراط زر

مصارف پیدائش کے دباؤ کے تحت اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ خام مال کی قیمتوں اور مزدوروں کی اُجرتوں میں اضافے کے سبب رونما ہوتا ہے۔ جب خام مال مہنگا اور مزدوروں کی اجرتیں بڑھتی ہیں تو آجرین ان مدات پر اٹھنے والے بوجھ کو اشیا کی قیمتوں میں نقل کر دیتے ہیں جس سے اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور افراط زر کی کیفیت پروان چڑھتی ہے۔ افراط زر کے نتائج افراط زر کے ممکنہ نتائج درج ذیل ہیں۔ افراط زر کے حالات میں محدود آمدنی پانے والے طبقات کی معاشی حالت ابتر ہو جاتی ہے اور ان کا معیار زندگی گر جاتا ہے کیونکہ جب اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ان کی آمدنیوں میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا لہذاوہ مہنگائی کے باعث اجرتوں اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے جس سے معاشرے میں بدامنی اور لوگوں میں بے چینی پھیل جاتی ہے۔ بچتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ مستقبل میں اپنے بچائے ہوئے سرمائے کو استعمال میں لا کر آمدنی میں اضافہ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں وہ افراط زر کے سبب مستقبل میں زر کی قدر گرنے کے باعث مایوس ہو جاتے ہیں اس طرح لوگوں میں بچت کرنے کا جذبہ باقی نہیں رہتا وہ اپنی بچتوں کو حال کی ضروریات پر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کا عمل طویل عرصہ میں غیر موثر ہو جاتا ہے۔ افراط زر کے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہوتے ہیں کیونکہ جب بڑے ترقیاتی منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات بڑھنا شروع ہوتے ہیں تو ان پر اٹھنے والے مصارف طے شدہ تخمینوں سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو اندرونی و بیرونی قرضے لینے پڑتے ہیں ٹیکسوں میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے جس کے باعث ملک میں قیمتوں کا نظام غیر موثر ہو جاتا ہے۔ عوام پر ٹیکسوں اور قرضوں کا بوجھ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ افراط زر کے حالات میں قیمتوں میں اضافہ امیر طبقے کو مزید مراعات فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے اور غریب طبقہ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ جب اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو آجرین کے منافع جات بڑھ جاتے ہیں لیکن صارفین بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور آمدنی کی تقسیم میں مزید بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے۔ جس ملک میں اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ رونما ہوتا ہے اس کی برآمدات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ برآمدات کی قیت زیادہ ہونے کے باعث غیر ممالک میں دوسرے ممالک کی سستی اشیا پسند کی جانے لگتی ہیں۔ اس طرح ملک کا توازن تجارت بھی بگڑ جاتا ہے۔ بسا اوقات حکومت کو برآمدات کو بڑھانے کے لیے زر کی بیرونی قدر کم کرنا پڑتی ہے جس سے برآمدات تو بڑھ جاتی ہیں لیکن ملکی صنعت کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ سے استفادہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ افراط زر کی بدولت تعلیم و تربیت کے شعبوں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے تعلیم مہنگی ہونے کے باعث طلبہ کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں افراط زر کے سبب غربت اور تنگدستی پھیلتی ہے اور معاشرے میں معاشرتی جرائم کا اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں رشوت ستانی، چوری، ڈاکہ، آوارگی اور بے ایمانی جیسی لعنتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ معاشرہ بے راہ روی کا شکار بن جاتا ہے۔ افراط زر کے باعث ملک میں سرمایہ کاری اور پیداوار کے مواقع تو بڑھ جاتے ہیں تو ایسے میں قیمتوں پر کنٹرول حاصل کرنا بڑے مسائل کا سبب بنتا ہے اور معیشت ایک عرصہ کے بعد ساکن کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔

پاکستان میں افراط زر کے اسباب

زر کی مقدار میں اضافہ

پاکستان میں افراط زر میں اضافہ کاب سے بڑا سبب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور رواں ضروریات کے لیے وسائل کی ضرورت ہے۔ حکومت ان ضروریات کے پیش نظر زر کی مقدار میں اضافہ کرتی رہتی ہے جس سے افراط زر پیدا ہوتا ہے۔

تمویل خاسر کی پالیسی

حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحویل خاسر کی پالیسی کے تحت نوٹ چھاپ کر اندرونی و بیرونی قرضے لے کر اور لیکس لگا کر زر کی مقدار میں اضافہ کرتی رہتی ہے جس سے اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہتی ہیں۔

دفاعی اخراجات اور سود کی ادائیگی

حکومت کو دفاعی ضروریات اور سود کی ادائیگی کے لیے سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے حکومت آئے دن سٹیٹ بنک سے نوٹ چھاپنے کا تقاضہ کرتی رہتی ہے جس سے اشیا کی قیمتیں بر اور است متاثر ہوتی ہیں۔

آبادی کی شرح میں اضافہ

پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کے سبب اشیا کی طلب بڑھ جاتی ہے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

نا موافق موسمی و دیگر حالات

پاکستان میں اکثر اوقات نا موافق حالات کے پیش نظر زرعی فصلیں اور صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے اشیا کی رسد کم ہو جاتی ہے اور طلب بڑھنے کے باعث ان اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی

روپے کی قدر میں کمی کے باعث بیرونی ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے اندرون ملک بھی اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور منڈی میں افراط زر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ

جب کبھی بین الاقومی کام پرقیوں کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک کے اندر بھی اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور افراط زر پیدا ہو جاتا ہے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافہ

جیل کی قیتوں میں اضافہ بھی افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو تمام اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ہر پیداواری شعبے میں تیل کا استعمال قیمتیں بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔

غیر قانونی کاروباری سرگرمیاں

سمگلنگ ، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی جیسی خرابیاں ملک میں اشیا کی قلت اور گرانی کا سبب بنتی ہیں۔

صرفی معاشرہ

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر ایک صرفی معاشرہ ہے۔ ہم پیداوار پر کم اور صرف پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ درآمدی اشیا اور کھانے پینے کی اشیا پر بے تحاشا اور بے سوچے سمجھے خرچ کرتے ہیں، جس سے افراط زر بڑھتا جاتا ہے۔

فیشن کی روڈ اور خود نمائی کی عادت

فیشن کی دوڑ اور خود نمائی کی عادت بھی ملک میں افراط زر کو بڑھا رہی ہے۔

پاکستان میں افراط زر کنٹرول کرنے کے اقدامات

پاکستان میں افراط زر کنٹرول کرنے کے لیے درج ذیل طریقے یا اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں۔ سرکاری اخراجات میں کمی کرکے ملکی وسائل کو صیح طریقوں سے پیداواری یونٹوں میں استعمال کر کے پیداوار بڑھا کر افراط زرکو کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں افراط زر اور مہنگائی کی اصل وجہ پیداوار میں کمی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ملک کے اہم شعبوں مثلاً زراعت اور صنعت کو ترقی دے کر پیداوار بڑھائی جائے تا کہ اشیا کی قیمتیں کم ہوسکیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے تمویل خاصر میں کمی کے لیے ضروریات میں کمی کر کے کم نوٹ چھاپے اور ٹیکسوں کی بھر مار بھی روک دے۔ اس طرح ملک میں اشیا کی قیمتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے عوام میں بچتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بچت سکیمیں شروع کی جائیں تاکہ سرمایہ کاری کا عمل تیز ہو اور ملکی پیداوار بڑھے اس طرح افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سمگلنگ، چور بازاری ، اور خیرہ اندوزی کی روک تھام کی جائے تا کہ ملکی اشیا کی خرید و فروخت میں اضافہ ہو، مصارف پیدائش بھی کم ہوں گے اور قیمتیں مستحکم ہو جائیں۔ افراط زر پر حکومت بھی درج ذیل اقدامات کے ذریعے کنٹرول حاصل کر سکتی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان افراط زر روکنے کے لیے شرح بنک میں تبدیلی لا کر افراط زر پر کنٹرول حاصل کرتا ہے۔ اس اصول کے تحت افراط زر روکنے کے لیے شرح بنک کو بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ قرضے جاری نہ ہوں اور افراط زر کا مسئلہ نہ ہو۔ سٹیٹ بنک افراط زر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی کفالتیں حصص اور تمسکات وغیرہ کھلے بازار یعنی سٹاک ایکسچینج میں فروخت کر دیتا ہے۔ جب لوگ ان حصص اور کفالتوں کو خریدتے ہیں تو زرسٹیٹ بنک کی طرف منتقل ہو جاتا ہے زر کی مقدار میں کی افراط زر کے حالات کو روک دیتی ہے۔ حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے مالیاتی اقدامات کے تحت ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے جب حکومت ٹیکس کی شرح بڑھاتی ہے تو زرکی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور افراط زر پر کسی حد تک قابو پالیا جاتا ہے۔ آبادی پر کنٹرول کر کے بھی افراط زر پر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ آبادی میں کمی سے اشیا کا صرف کم ہوگا اور افراط زر کی کیفیت نہیں رہے گی۔ ملکی برآمدات میں اضافہ اور تعیشاتی درآمدات میں کمی کر کے افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اپنے رہن سہن کے طریقوں کو سادہ اور محمد د کر لیں۔ ملکی اشیا کے استعمال کو ترجیح دیں اس طرح افراط زر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

افرادی قوت: مسائل و حقائق اور حل

افراط زر

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو   اس کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment