سرمایہ
مفهوم
سرمایہ عاملین پیدائش کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ عام طور پر سرمایہ کو زر یا روپیہ پیسہ کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ لیکن علم معاشیات میں سرمائے سے مراد دولت کا وہ حصہ ہے جو مزید دولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں دولت کا صرف وہی حصہ سرمایہ کہلاتا ہے جو مزید آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لہذا قدرتی عطیات کے علاوہ تمام اشیا جو پیدائش دولت کے عمل میں مددگار ثابت ہوتی ہیں وہ سرمائے کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں۔
پروفیسر چیپ مین کے نزدیک سرمایہ سے مراد وہ دولت ہے جو آمدنی پیدا کرتی ہے یا آمدنی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
سٹور نیر اینڈ ہیگ کے مطابق
سرمایہ ے مراد وہ تمام سال پیداوار میں نہیںانسان دانستہ طور پر قتل میں مل پیداش کو جاری کھن کے لیے نا ہونے سرمائے کے مفہوم کی وضاحت کے ضمن میں یہ یاد رکھیں کہ تمام سرمایہ دولت تو ہوسکتا ہے لیکن تمام دولت سرمایہ نہیں ہوسکتی۔ اس میں دولت کا صرف وہی حصہ سرمایہ کہلاتا ہے جو مزید آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس کپڑے، فرنیچر، سائیکل اور ٹریکٹر موجود ہوں تو ان کے استعمال کی نوعیت کی بنا پر ہم کہ سکتے ہیں ٹریکٹر کو چھوڑ کر تمام اشیا رات ہوسکتی ہیںکیونکہ یہ اشیا اس شخص کے ذاتی استعمال میں آنے کی وجہ سے آمدنی کا ذریعہ ہیں ہیں لیکن ٹریکٹر کو آمدنی کمانے کی غرض سے کاشت کاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ سرمایہ ہے۔ اسی طرح ایک پروفیسر کی کار ذاتی استعمال تک تو کار برائے ٹیکسی چلائی جائے تو وہ سرمایہ میں شمار ہوتی ہیں۔ دولت ہے لیکن جب وہی سرمایہ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے درج ذیل نقاط کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سرمایہ دولت کا وہ حصہ ہے جو مزید آمدنی کمانے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام دولت سرمایہ نہیں ہوتی بلکہ دولت کا وہ حصہ جو مزید آمدنی کمانے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے وہ سرمائے کے زمرے میں آتا ہے۔ ) سرمایاتی ذرائع مثلاً گھر، فیکٹری، مشین، آلات وغیرہ سرمایہ ہیں لیکن قدرتی عطیات مثلاً ہوا، پانی، دریا، پہاڑ وغیرہ سرمایہ نہیں ہیں۔
اقسام
گلکسڈ اور زیر گردش سرمایہ
فکسڈ سرمایہ ٹھوس اور پائیدار شکل میں ہوتا ہے اور ایک لمبے عرصہ تک بار بار زیر استعمال لایا جاتا ہے مثلا مشین ، آلات ، فیکٹری کی عمارت وغیرہ، جبکہ زیر گردش سر مایہ نا پیدار اور جلد خراب ہونے کے باعث ایک ہی استعمال کے بعد اپنی افادیت کھو دیتا ہے مثلا کاغذ ، لکڑی، چمڑا، کھاد، خام مال وغیرہ۔
ذاتی و قومی سرمایہ
ذاتی سرمایہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں ہوتا ہے اور اس کا فائدہ بھی براہ راست اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً درزی کی سلائی مشین ۔ جبکہ قومی یا سرکاری سرمایہ ان پیداواری وسائل پر مشتمل ہوتا ہے جو مجموعی طور پر تمام قوم کی مشتر کہ ملکیت ہوتا ہے مثلاً ذرائع نقل و حمل ، سڑکیں، ہسپتال ، بجلی گھر وغیرہ۔
مادی اور غیر مادی سرمایہ
ایسی اشیا جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک شخص کی ملکیت سے دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل کیا جاسکے ۔ مثلاً مشین ، سرمایہ جامد اور سرمایہ متحرک یا جاسکے اور نہ ہی کسی دوسرے اسنے ے استعمال میں لایا جائنگے ب ضرورت تبدیل کیا جا سکے اور کلی سرمائے کی ایسی مخصوص شکل جس کو کسی دوسری شکل میں تبدیل نہ کیا جاسکے اور نہ ہو وغیرہ جبکہ ایسا سرمایہ جس کی شکل وصورت کو حسب نہ سرمایه جامد کہلاتا ہے۔ مثلاً ڈیم۔ پل۔ سڑکیں و متعدد استعمالات میں لایا جاسکے متحرک سرمایہ کہلاتا ہے مثلا خام مال، کمپنی کے حص، پرائز بانڈز وغیرہ۔
پیداواری اور صرفی سرمایہ
ایسا سرمایہ جو براہ راست اشیا پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے یا سرمائے کا وہ حصہ جو اشیا پیدا کرنے اور پیداوار بڑھانے میں مدد ے پیداواری سرمایہ کہلاتا ہے۔ مثلا شین، آت وغیرہ لیکن ایسی اشیا جو آمدن میں اضافہ کا باعث توانی میں لیکن پیداوار میں اضافہ کا باعث نہ بنیں صرفی سرمایہ کہلاتی ہیں مثلا کرائے پر دی جانے والی کار، کرائے پر دیا جانے ولا گھر وغیرہ
اُجرتی اور امدادی سرمایہ
سرمائے کا وہ حصہ جو محنت کی اکائیوں کو اجرتیں اور معاوضے ادا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے اجرتی سرمایہ کہلاتا ہے۔ مثلا روپیہ پیسہ جبکہ امدادی سرمایہ وہ سرمایہ ہوتا ہے جو مزدور کو عمل پیدائش میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً مشین۔ آلات ۔ خام مال وغیرہ۔
ملکی اور غیر ملکی سرمایہ
وہ سرمایہ جو ملکی باشندوں کی بچتوں کے استعمال سے وجود میں آئے ملکی سرمایہ کہلاتا ہے۔ مثلاً باغات۔ سڑکیں۔ پل وغیرہ جبکہ غیر ملکی سرمایہ سے مراد غیر ملکی سرمایہ کاری جو کسی دوسرے ملک میں کی جاتی ہے یا امداد کے لیے دیا گیا روپیہ غیرملکی سرمایہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
اہمیت
پیدائش دولت کے عمل میں سرمایہ کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی پیداواری عمل بھی سرمائے کا موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے کسی معیشت کی معاشی سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لیے اگر سرمایہ منہا کر دیا جائے تو پوری معیشت کا پیداواری عمل رک جائے گا۔ اس لیے کسی ملک کے معاشی نظام کو چلانے کیلئے سرمایہ انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ درج ذیل سے سرمائے کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ سرمائے کے استعمال ہی کی بدولت مل کے قدرتی وسائل کو سحر کیاجاسکتا ہے اور معدنی کانوںسے قیمتی معدنیات کالے کام سرمائے ہی کی بدولت سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اشیا تیار کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے سرمائے ہی کی بدولت جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر بڑے پیمانے پر اشیا تیار کی جاسکتی ہیں۔ سرمائے کی ہی بدولت انسان کی استعداد کار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ فی تربیت اور مہارت کے بل بوتے پر پیداوار کو کئی سرمائے کی فراوانی سے عوام کا معیار زندگی بلند کیا جاسکا ہے اور انہیں ہولتیں فراہم کرکے اچھی زندگی گزارنے کا موقع گنا بڑھا یا جا سکتا ہے۔ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ سرمائے کی مدد سے پیدا کردہ اشیا کی لاگت پیدائش کم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ تقسیم کار کی وجہ سے پیداوار کا پیمانہ بڑھ جاتا ہے۔ الہذا فی اکائی اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔ سرمائے کی بدولت کاروبار کو وسیع کر کے تخصیص کار کا اصول اپنایا جاسکتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں کام of مختلف حصوں میں بٹ جاتا ہے اور ہر محنت کی اکائی اپنا کام پوری تندہی سے سرانجام دیتی ہے۔ سرمائے کی بدولت اشیا کا معیار بہتر ہو جاتا ہے اور بازار میں اعلیٰ کوالٹی کی ! اشیا دستیاب ہو جاتی ہیں۔ سرمایه انسانی پیداواری صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ سرمائے کی بدولت جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے کام کو جاری رکھا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں ایجادات جنم لیتی ہیں۔ سرمائے سے مادی وسائل کو بروئے کار لا کر اقتصادی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔
استعداد کار
دیگر عاملین پیدائش – اسے اشتراک
سرمایہ کی استعداد کار سے مراد سرمایاتی اشیا کی پیداواری صلاحیت یا قوت کار کردگی ہے جو اس کے استعمال کے بعد رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر سرمائے کی مدد سے زیادہ مقدار میں پیداوار حاصل ہو تو سرمائے کی استعداد کار زیادہ ہوگی اور اگر کم پیداوار حاصل ہو تو استعداد کار پست ہوگی۔ عام طور پر سرمایاتی اشیا کی استعداد کار ایک جیسی نہیں ہوتی اس لیے سرمائے کی قوت کار کردگی سے اس کی استعداد کار کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً اگر زمین زرخیز اور مزدور محنتی اور جفاکش ہوں تو سرمائے کی استعداد کار بلند ہوگی۔ لیکن زمین بنجر اور مزدور نااہل اور بے ہنر ہوں تو اعلی ترین سرمایہ کی استعداد کار بھی پست ہو جائے گی۔ زمین ، محنت اور تعظیم کے اشتراک سے پیدائش دولت کے عمل میں کل پیداوار میں جو اضافہ ہوگا وہ سرمائے کی استعداد کار یا قوت کار کردگی کہلائے گا۔ سرمایہ کی انفرادی استعداد کار اس وقت تک صفر ہوتی ہے جب تک اس پر دوسرے عاملین پیدائش ایک مناسب تناسب سے نہ لگائے جائیں۔ اس لیے سرمائے کی استعداد کار کا انحصار دیگر عاملین پیدائش پر ہے۔ اگر یہ اشتراک بہترین اور مناسب ہوا؟
سرمائے کی استعداد کار بڑھ جا جاتی ہے۔ اور اگر دیگر عوامل ست اور غیر مناسب مقدار میں لگائے جا گائے جائیں تو سرمائے کی استعداد کار پست ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دو یا تین ایکڑ زمین کو کاشت کرنے کے لیے ایک ٹریکٹر کفایت شعاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے سرمائے کی استعداد کار کم ہوگی الندا ضروری ہے کہ دس سے میں ایکڑ زمین کے ٹکڑے کو کاشت کرنے کے لیے ٹریکٹر خریدا جائے۔
جدید آلات
اگر کاشتکاری کے میدان میں فرسودہ اور دقیانوسی زرعی آلات استعمال کئے جائیں تو سرمائے کی استعدادست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں پسماندہ ٹیکنالوجی سرمائے کی استعداد کار کو کم کر دیتی ہے۔ جدید اور نئے آلات پیداواری صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں اور سرمائے کی استعداد کار بڑھ جاتی ہے۔
تربیت یافتہ اور ہنر مند مزدور
اگر محنت کی اکائیاں ہنرمند اور تربیت ہے یافتہ ہوں تو وہ اپنی عقل و فہم اور تعلیم و و تربیت کے بل بوتے پر سرمائے کی استعداد کار میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں۔ جبکہ غیر ہنرمند، ان پڑھ محنت کی اکائیاں پیداواری صلاحیت کو کم کر دیتی ہیں جس سے سرمائے کی استعداد کار پست ہو جاتی ہے۔
سرمائے کا مناسب استعمال
اگر پیداواری عمل میں سرمائے کا مناسب استعمال کیا جائے تو سرمائے کی استعداد کار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مثلا اگر گھاس لانے کے لیے ٹرک اور پھل لانے کے لیے گدھا ریڑھی استعمال کی جائے تو یہ سرمائے کا نامناسب استعمال ہوگا اور اس کی استعداد کار کم ہو جائے گی۔
خام مال کی نوعیت
سرمائے کی استعداد کار کا انحصار اس خام مال پر بھی ہوتا ہے جو اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر خام مال بہتر ہوگا تو اعلیٰ کوالٹی کی اشیا تیار ہونگی اور سرمائے کی استعداد کار بڑھ جائے گی۔ جبکہ گھٹیا خام مال خراب کوالٹی والی اشیا پیدا کرے گا اور مشینوں کی استعداد کار کے ساتھ ساتھ سرمائے کی استعداد کار کو بھی پست کر دے گا۔
سرمائے کی نقل پذیری
سرمائے کی بہتر جگہ نقل پذیری سرمائے کی استعداد کار کو بڑھا دیتی ہے مثلاً اگر دریا سے نکالی ہوئی ریت کو شہروں میں تعمیر کے کاموں میں استعمال کرنے کے لیے لایا جائے تو سرمائے کی استعداد کار بڑھ جائے گی۔
ذرائع آمدورفت
اگر ملک میں ذرائع نقل وحمل سے اعلیٰ اور مستعد ہوں تو اشیا کی مناسب ترسیل کی وجہ سے سرمائے کی استعداد کار بڑھ جانی ہے۔ جبکہ ذرائع نقل وحمل کی عدم دستیابی اور غیر مستعدی سرمائے کی استعداد کار کو کم کر دیتی ہے۔
مرمت گاہیں
اشیا کی پیدائش کے دوران اشیا ئے سرمایہ میں توڑ پھوڑ ہوتی رہتی ہے اس لیے اگر ان کی مرمت کے مناسب انتظامات موجود ہوں تو ان کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور سرمائے کی قوت کار کردگی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
تشکیل سرمایہ
کسی خاص عرصہ کے دوران ملک کے حقیقی سرمایہ کے ذخائر میں اضافہ تشکیل سرمایہ کہلاتا ہے۔ ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے افراد کو مجموعی طور پر قربانی دینا پڑتی ہے اور اپنی روزمرہ ضروریات میں سے کچھ نہ کچھ مستقبل کو بہتر کرنے کے لیے بچت کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح عوام کی مجموعی بچتیں اشیائے سرمایہ مثلا مشین، آلات ڈیم، خام بال، عمارتیں، کارخانے وغیرہ بنانے پر خرچ ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کے اخراجات کو سرمایہ سازی کا نام دیا جاتا ہے۔ قوم کی مجموعی بچتوں کو استعمال میں لاکر ملکی سرمایاتی ذخائر میں اضافہ کرنے کو تشکیل سرمایہ کا نام دیا جاتا ہے۔ تشکیل کے سلسلے میں پاکستان کی صورت حال اتنی اچھی نہیں کیونکہ آزادی کے دن سے ہی پاکستان کو غربت کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت پاکستان اس دن سے ہی اپنے ذخائر بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوشش کر رہی ہے تا کہ تشکیل سرمایہ کی رفتار کو بڑھایا جاسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی فی کس آمدنی دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے بچتوں کا معیار انتہائی کم ہے اور تشکیل کی رفتار بھی بہت ست ہے۔ پاکستان میں موجودہ بچتوں کی شرح 10.7 فی صد ہے جو دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری بھی کم ہورہی ہے۔
تشکیل کی رفتار کوست کرنے والے عوامل
وسائل کی قلت اور ان کے نامناسب استعمال کی بدولت پاکستان کی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور دولت کی نمائش کی خاطر کچھ لو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اشیای تعیش پر خرچ کر دیتے ہیں۔ اس طرح سرمایہ کاری کے لیے کچھ بھی نہیں بچ پاتا اور تشکیل سرمایہ کی رفتار ست رہ جاتی ہے۔ اکثر بچائی ہوئی رقوم کو سرمایہ کاری کی بجائے سونے چاندی کی خریداری پر صرف کر دیا جاتا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے رقوم دستیاب نہیں ہوتیں اور تشکیل سرمایہ کی رفتارست ہو جاتی ہے۔ تعلیم کے فقدان کے باعث بہت سارے لوگ اپنی آمدنی اور اخراجات کا کوئی حساب نہیں رکھتے۔
اکثر اوقات اخراجات ضرورت سے زیادہ کر لیے جاتے ہیں اور بچتیں متاثر ہوتی ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے رقوم نہیں بھتیں۔ ناسازگار حالات جیسے جنگ۔ سیلاب – بدامنی ۔ سیاسی عدم استحکام وغیرہ سرمایہ کاری کے عمل کو اکثر روک دیتے ہیں اور سرمایہ کار ناسازگار حالات میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ پیداوار کو بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی ساکن رہتی ہے اور بچتوں کا معیار بھی معین رہتا ہے ۔ تشکیل سرمایہ کی رفتار کو بڑھانے کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں: حکومت کو چاہیے کہ وہ بچتوں کو بڑھانے کے لیے زری اور مالیاتی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرے تا کہ بچوں کی کیا بڑھ سکے اور سرمایہ کاری تیز ہو سکے۔ بچتوں کو بڑھانے کے لیے مالی اداروں کو مستحکم کیا جائے تاکہ لوگ اپنی بچتیں محفوظ سمجھتے ہوئے بنکوں میں رکھوائیں اور رقوم سرمایہ کاری کے لیے دستیاب ہو سکیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بچت کی خصوصی سکیموں کو متعارف کرایا جائے اور لوگوں کو بچتوں پر مجبور کیا جائے تاکہ راہ انا کے عمل کو تیز کیا جاسکے۔ ملک میں تشکیل سرمایہ تیز کرنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت دوسرے ممالک سے قرضوں کی بجائے امداد حائل کرے۔ تشکیل سرمایہ کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے انعامی سکیمیں عوام میں مقبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ افراد اپنی بھائی ہوں رقوم ان سکیموں میں جمع کروائیں جن سے سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “سرمایه“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ