جمہوریت ⇐ جمہوریت میں نظام حکومت ایک یا چند افراد کی بجائے منتخب افراد کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا جو ملک کے مفاد کے خلاف ہو اور جس سے ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ نہ ہو سکے۔
آمریت
آمرانہ نظام حکومت میں تمام تر اختیارات حقیقی طور پر فرد واحد کے پاس ہوتے ہیں ۔ عملی طور پر وہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے تمام معاشی اور تجارتی فیصلے اس کی منشا کے مطابق ہوتے ہیں ملک میں اگرچہ معاشی آزادی ہوتی ہے۔ لیکن ملک کی معاشی باگ دوڑ چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ چھوٹے اور متوسط طبقے کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے اس لئے وہ ملک کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ آمریت کے دور میں کاروبار کو وہ ترقی نصیب نہیں ہوتی جو جمہوری نظام حکومت میں ہوتی ہے۔
بادشاہت
اس قسم کے نظام حکومت میں ملک کے تمام تر اختیارات ایک شخص کو حاصل ہوتے ہیں اس کا ہر فرمان ملکی قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ملک کی معاشی ترقی کا انحصار بادشاہ کے جاری کردہ فرامین پر ہوتا ہے۔ معاشی آزادی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس لئے اس نظام حکومت میں کاروباری سرگرمیاں محمد د و د رہتی ہیں ۔
سیاسی استحکام
اگر ملک میں سیاسی استحکام ہو تو کاروبار بہت جلد وسیع ہو جاتا ہے۔ جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔ سرمایہ داروں کو سرمائے کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ معاشی منصوبوں کا وقت مقررہ پر مکمل ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک معاشی طور پر ترقی کرتا ہے جو کاروبار کی وسعت کی بنیادی شرط ہے۔ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ه مالیاتی اداروں کو ترقی نصیب ہوتی ہے اس لئے کاروبار کے لئے سرمایہ آسانی سے فراہم ہو سکتا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی افراتفری کا دور دورہ ہو ، اکثر انقلاب آتے رہے ہوں، حکومتیں بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہوں ان حالات میں قائدین صرف کرسی کی فکر میں ہوتے ہیں وہ نہ کاروبار کی ترقی کے لئے ٹھوس ا پالیسیاں مرتب کرتی ہیں اور نہ اقتصادی ترقی کے لئے کوئی کام کرتے ہیں۔ ان کی قوتیں باہمی تخریب و آویزش میں ہی ضائع ہوتی رہتی ہیں۔
تجارتی پالیسی
تجارتی پالیسی سے مراد سے ایسے اقدامات لئے جاتے ہیں جن کے تحت بیرونی تجارت، اور مالیت کو ملکی معاشی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ تجارتی پالیسی کا بنیادی مقصد جسامت، ہمت برآمدات میں اضافہ کر کے کاروباری اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تجارتی پالیسی کے تحت کئی قسم کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جن میں درآمدی، برآمدی لائسنس، کولر سٹم زر مبادلہ پر کنٹرول تجارتی معاہدے، زر کی بیرونی قدر میں تبدیلی اور برآمدات کو فروغ دینے والے اداروں کا قیام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تجارتی پالیسی ملک میں زرمبادلہ کی صورت حال کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ اگر ملک میں زر مبادلہ کی وافر مقدار موجود ہو تو پالیسی کو نرم کر دیا جاتا ہے۔ اور زیادہ اشیاء کوفری لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں تجارت کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
سرمایہ کا تحفظ
ملک میں سرمایہ کاری پر جس عامل کو بہت زیادہ دخل ہے وہ سرمائے کا تحفظ ہے۔ جب تک سرمایہ دار کو سرمائے کا تحفظ فراہم نہ کیا جائے وہ سرمایہ کاری کرنے پر مائل نہیں ہوتا حکومت اگر ایسا سیاسی قانون بنادے جس سے سرمائے کو تحفظ حاصل ہو جائے تو اس سے سرمایہ دار مطمئن ہو جائیں گے اور وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر کے ملک کو معاشی خوشحالی سے ہمکنار کریں گے ۔ سرمائے کو تحفظ دینے کے سیاسی قانون کے علاوہ حکومت کو عملی طور پر ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جس سے سرمایہ داروں کے دل سے سرمائے کو قومی تحویل میں لے لئے جانے کا خطرہ دور ہو جائے ۔ حکومت اگر اس مقصد میں کامیاب ہو جائے تو ملک میں سرمایہ کاری کی رفتار میں اضافہ ہوگا اور کاروبار کوترقی حاصل ہوگی۔
انتظامیہ کا کردار
اگر نتظامی مشینی ناقص اور غیرمستعد ہوتواس کی اہلیت اور دیات کا معیار بی بوداپست ہوتا ہے۔ نتظامی کی نا اہل نہ بدعنوانیوں کوجنم دیتی ہں بلکہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کا موجب بھی بنتی ہے۔ انتظامیہ نا تجربہ کاری کی بناہ پر بھی اپنے فرائض اچھی طرح ادا نہیں کرتی۔ کاروبار کی ترقی کے لی انتظامیہ کو جو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بد قسمتی سے نا اہل انتظامیہ کی بدولت اس کے حوصلہ افرانتائج برآمدنہیں ہوتے ۔ انتظامیہ اپنے فرائض سے پوری طرح عہدہ بر آنہیں ہو سکتی ۔ مزدوروں کے حقیق کے تحفظ کے نئے قوانین بنتے ہی ان رعمل درآمدنہیں ہوسکتا ان تمام وجوہات کی بناپر کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ اور کاروباری اداروں کو ترقی کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
ملکی بجٹ
بجٹ ایک ایسا گوشوارہ ہوتا ہے جس میں حکومت آنے والے مالی سال کے لئے اپنی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ پیش کرتی ہے۔ بجٹ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔
آمدنی بجٹ
بجٹ کے اس حصے میں ٹیکسوں اور فیس وغیرہ کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی درج ہوتی ہے۔ اس میں حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے یعنی حکومت مختلف قسم کے ٹیکسوں سے سال بھر کے دوران کتنی رقم حاصل کرے گی اور اسے کس طرح سے مختلف خدمات بہم پہنچانے والے محکموں پر خرچ کیا جائے گا۔ اگر حکومت کی آمدنی کا تخمینہ اخراجات سے زیادہ ہو تو فاضل بجٹ ہوتا ہے۔ اگر آمدنی کے مقابلے میں اخراجات کا تخمینہ زیادہ ہو تو یہ خسارے کا بجٹ کہلاتا ہے۔ اگر آمدنی اور اخراجات برابر ہوں تو متوازن بجٹ کہلاتا ہے۔
سرمائے کا بجٹ
سرمائے کا بجٹ ترقیاتی بجٹ بھی کہلاتا ہے۔ اس میں حکومت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ غیر ملکی امداد اور آمدنی بجٹ کی فاضل رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس بجٹ کے تمام تر اخراجات ترقیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلا ریلوں اور سڑکوں کی تعمیر بھی گھر بنانا نہریں کھودنا، کارخانے لگانا اور دیگر ترقیاتی اخراجات ۔ کوئی ملک اپنے بجٹ میں مناسب تبدیلیوں کے ذریعے افراط زر کی شدت کو کم کر کے بچتوں کے تناسب میں اضافہ کرکے سرمایہ کاری کی رفتار تیز کرکے اور دولت کی تقسیم کو مساوی بنا کر کاروبار کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کر سکتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “جمہوریت” کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
معاشیات کی نوعیت اور وسعت
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
MUASHYAAAT.COM