ہم زر کیوں استعمال کرتے ہیں

ہم زر کیوں استعمال کرتے ہیں جب بھی ہم کوئی چیز خریدیں گے تو اس کے عوض ہمیں کچھ نہ کچھ رقم ضرور ادا کرنی پڑے گی۔ اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے تو آپ کوئی چیز نہیں خرید سکتے ۔ اس کے برعکس اگر ہمارے پاس پانچ دس روپے یا سو روپے کا نوٹ ہو تو ہم مختلف اشیاء خرید سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم بازار سے سب چیزیں خرید سکتے ہیں ۔ ہم اپنے پاس رقم کے حساب سے خریداری کر سکتے ہیں۔ ۔ یہ ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں تو ہم کو زر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جتنا روپیہ ہمارے پاس ہو گا اشیاء کی اتنی ہی زیادہ مقدار ہم خرید سکیں گے۔ اب دیکھیں کہ فروخت خریداری کی ضد ہے۔ جب آپ کوئی چیز خریدتے ہیں تو آپ کو اس کے بدلے میں زر ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ہم کوئی شے فروخت کرتے ہیں کوئی کار یا قطعہ زمین وغیرہ تو ہم زر وصول کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اشیاء اور خدمات کی خرید و فروخت میں زر استعمال ہوتا ہے۔ خدمت  سے کیا مراد ہے یہ اصطلاح اس محنت کے لیے رائج ہے جو صلے کی خاطر کی جاتی ہے۔ جب ڈاکٹر آپ کے گلے کی خرابی کا علاج کرتا ہے یا حجام آپ کے بال تراشتا ہے تو یہ دونوں آپ کی خدمت بجالا رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر اپنا سامان اٹھوانے کے لیے آپ قلی کو بلاتے ہیں وہ قلی آپ کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔ اس نوعیت کی سب خدمات کا معاوضہ آپ کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ جس میں زر کا استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ خرید و فروخت کے عمل میں زر کے واسطے سے اشیاء اور خدمات کا مبادلہ بھی شامل ہے اس لیے زر کو آلہ مبادلہ بھی کہتے ہیں۔

ہم زر کیوں استعمال کرتے ہیں

تبادلی نظام  کسے کہتے ہیں

تاریخ انسانی کے ابتداء ہی میں زر بحیثیت آلہ مبادلہ استعمال ہونے لگا تھا۔ ابتدائے زمانے میں لوگ زر کی عدم موجودگی کے باعث اپنی خواہشات متبادل (اشیاء کا اشیاء سے مبادلہ  کے ذریعے پوری کرتے تھے۔ اشیاء کا اشیاء سے یہ مبادلہ تبادلی نظام کہلاتا ہے۔ آج بھی ملک کے نسبتا کم ترقی یافتہ دیہی ۔ یہ علاقوں میں متبادل رائج ہے۔ زمیندار اپنی فصل کی جنس یعنی چاول ، گندم وغیرہ کا ایک حصہ دکاندار کے حوالے کر کے اپنی ضروریات کی اشیاء یعنی کپڑا سبزیاں وغیرہ حاصل کرتا ہے۔

متبادل کی مشکلات

زمانہ قبل زر میں جب دکانداروں کا وجود نہ تھا تبادل حد درجہ خام شکل میں موجود تھا۔ ان دنوں تبادل نے کئی مشکلات کو جنم دیا۔ مثلاً تبادل کا تقاضا ہے کہ احتیاجات کی دو طرفہ مطابقت ہو۔ مثلاً نور زمان ایک بیل خریدتا ہے جس کا گندم سے مبادلہ مقصود ہے۔ تو نور زمان کو کسی ایسے شخص سے معاملہ کرنا ہو گا جو نہ صرف گندم رکھتا ہے بلکہ بیل کی تلاش میں بھی ہے۔ اگر نور زمان کا معاملہ اقبال سے ہوتا ہے جو گندم رکھتا ہے لیکن مبادلے میں کپڑے کا طلبگار ہے تو اس صورت میں نور زمان اور اقبال کے درمیان معاملہ نہیں ہو سکتا۔ تبادلی نظام میں کوئی مشترکہ پیانہ قد نہیں ہوتا۔ اگر اسے دو شخص یکجا بھی ہو جائیں تو ایک دوسرے کے ساتھ اشیاء کا مبادلہ کرنے کے خواہشمند ہوں پھر بھی ان کی اشیاء کی موزوں شرح مبادلہ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ دو اشیاء  مثلا بیل اور گندم کا مبادلہ کسی شرح سے کیا جائے کہ گندم کی کتنی مقدار ہو کہ بیل کی مالیت کے برابر ہو جائے ۔  اس نوعیت کی مشکلات زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ جب اشیاء مبادلہ تیل یا گھوڑے ایسی چیزیں ہو جن کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسلہ تقسیم پذیری کہلاتا ہے۔

بیمہ کاری کی تعریف

فریقین کے درمیان ایک ایسا تحریری معاہدہ جس میں ایک فریق بعوض پر تمیم دوسرے فریق کو اس کی جان و مال کے نقصان جو کسی امر آئندہ کے وقوع پر موقوف ہو کی تلافی کرنے کا وعدہ کرے بیمہ کہلاتا ہے۔ مختصر انقصان کی تلافی کرنے کے معاہدہ کو بیمہ کہتے ہیں۔

فریقین بیمہ

فریقین بیمہ کے معاہدہ میں دو فریق ہوتے ہیں۔

  • بیمہ دار
  • بیمہ کرنے والا بیمہ کمپنی

بیمہ دہندہ وہ رقم جو بیمہ دار بیمہ دہندہ کو ادا کرتا ہے۔ خواہ اس کی ادائیگی کیشت ہو ، سالانہ یا ، ششماہی ، سہ ماہی یا ماہوار۔ پریمیم کہلاتی ہے بیمہ کے وہ کاغذات جن پر قواعد وضوابط اور شرائط بیمہ پالیسی تحریر ہوں اس کہتے ہیں اور وہ تم جس کے لیے بیمہ کرایا جائے بیہ شدہ رقم کہلاتی ہے۔ بیمہ کر لینے سے خطرات کو ٹال ہی ختم نہں کیا جاسکتا ہے بلکہ خطرات ایک خطرات یا ایک دوسرے فریق یعنی بیمہ منی کو قتل ہو جاتے ہیں اور ان خطرات کی ذمہ داری قبول کرنے کا معاوضہ پر یم یا قط کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔

معاہدہ بیمہ کی خصوصیات

یہ معاہدہ تحریری ہوتا ہے۔اس معاہدہ میں دو فریق ہوتے ہیں۔  اس معاہدہ میں ایک فریق بعوض پر ہم دوسرے فریق کے جان ومال کےنقصان کی تلفی کا اقرارکرتا ہے۔ پریم ی قسط کی ادئیگی کی مدت کا تعین معاہدہ سے پیشگی طے پا جاتا ہے جو کہ عام طور پر کشت، سالانه ، ششماہی ، سہ ماہی یا ماہانہ ہوتا ہے۔

بیمہ کی ضرورت

آج کے انسان نے اپنی خداداد عقل و دانش اور فہم و فراست کی صلاحیت کی بدولت آسائشات اور تعیشات کے دلفریب سامان پیدا کر کے دنیا کو بہشت کا نمونہ بنا دیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے سر پر خطرات ہر وقت منڈلا رہے ہیں ۔ ہر وقت حوادث کا خطرہ رہتا ہے۔ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کسی عزیز کو اسٹیشن پر خدا حافظ کہنے گئے تو راستے میں دیگن نے کچل دیا۔ بازار سے سودا سلف خرید کر واپس آنے کے بجائے نعش واپس آگئی ۔ دولہا برات لے کر گیا مگر گھر واپس زندہ لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ بس دوسری بس سے ٹکرا گئی ، بس چکنا چور اور ڈرائیور کی جان، جان آفرین کے سپرد۔ مکان آگ لگنے سے خاکستر ہو گیا۔ اسی طرح ایک شخص جو اپنے خاندان کا واحد کفیل ہو، کسی سانحہ کا شکار ہو جائے یا کسی مرض میں مبتلا ہو کر اس دار فانی سے سدھار جائے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے پس ماندگان نان شبینہ کے محتاج ہو جائیں یا کسی تاجر کا تجارتی جہاز باہر کے ملک جارہا ہو اور وہ جہاز طوفان کی زد میں آکر غرق ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ تاجر مفلس اور کوڑی کوڑی کے لیے محتاج ہو جائے ۔ ان چند مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے که انسان کو ان حادثات کی وجہ سے کس قدر شدید نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ پس ماندگان کو زندہ درگور ہونے سے بچانے کے لیے اہل نظر کے غور و فکر اور تدبر نے بیمہ کا ڈھانچہ اختیار کیا کیونکہ انسانی حکمت عملی ہمیشہ اس کی کو شاں رہی ہے کہ ان ذرائع کو تلاش کیا جائے جس سے ان بے کس اور مجبور افراد کے شدید اور خطر ناک نقصان کا تدارک ہو سکے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "ہم زر کیوں استعمال کرتے ہیں"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment