معاشی پسماندگی

معاشی پسماندگی ترقی پذیر ممالک میں اس کا روبار کے محدود ہونے کی ایک وجہ معاشی پسماندگی بھی ہے جو ملک معاشی طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتے ان کے کاروباری اور دیگر معاملات بھی محدود ہوتے ہیں۔ مثلا اگر کسی اور یک کی بیرونی تجارت ہی نہیں تو اس ملک میں بحری بیمہ کا کوئی تصور نہ ہوگا۔

معاشی پسماندگی

غربت

ترقی پذیر ممالک میں بیمہ کاری کو زیادہ ترقی حاصل نہ ہونے کی ایک وجہ غربت بھی ہے اس کی وجہ سے لوگوں کے پاس اتنی بچت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس مقصد کے لیے صرف کر سکیں ۔ ہمارے ملک میں بھی زیادہ تر لوگ بنیادی ضروریات ہی حاصل نہیں کر سکتے تو بیمہ کی قسطیں ادا کرنے کے لیے رقم کہاں سے لائیں گے۔

جهالت

ترقی پذیر ممالک میں زیادہ لوگوں کی تعداد جاہل اور ان پڑھ ہے۔ اس لیے وہ بیمہ کی اہمیت اور افادیت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ نیز وہ بیمہ کے ذریعے کسی تحفظ کو حاصل کرنا بے کار سمجھتے ہیں۔

لوگوں کا خوف

ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کو بیمہ کے نمائندوں سے ایک انجانا خوف ہوتا ہے۔ وہ ان سے کھل کر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے بات کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پھانس لیے جائیں گے۔ وہ بیمہ کی افادیت سمجھ کر متاثر تو ضرور ہو جاتے ہیں مگر قسطوں کی ادائیگی کا تسلسل قائم نہ رکھ سکنے کی کمزوری کی وجہ سے ایک پہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس ذہنی کشمکش سے بچنے کے لیے نما ئندہ حضرات سے گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

بیمہ کارجحان

ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خوشحال ہونے کے باوجود ہیمہ کی طرف کوئی رجحان نہیں کیونکہ وہ آنے والے حالات کے بارے میں کوئی خدشہ نہیں رکھتے۔

قابل بیمہ حقوق 

خص الا یہ کون سے مراد یہ ہے کہ کوئی ص کی چیز کا یہ کروانے کاحق رکھتا ہو دوسرے الفاظ میں بیمہ حقوق وہ چیز اس کی ملکیت ہو یا پھر جس پر اسی نوعیت کے حقوق حاصل ہوں اس چیز کا بیمہ کر سکتا ہے۔ مثلاً پیر کروانے والے شخص کو اپنے مال و جائیداد بیوی بچوں یا قرض داروں پر قابل ہیمہ حقوق حاصل ہوتے ۔ قابل بیمہ کو ایسے حقوق ہوتے ہیں جن کے ضائع ہو جانے سے بیمہ کروانے والے کو مالی نقصان ہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور ان حقوق کے محفوظ ہو جانے سے اسے مالی مفاد حاصل ہوتا ہے۔

حدد رجہ اعتماد

بیمہ پالیسی کی بنیاد بیمہ کرانے والے شخص اور بیمہ کرنے والی کمپنی دونوں کے درمیان حد درجہ اعتماد پر ہوتی ہے۔ فریقین کو چاہیے کہ تمام حقائق کو ایک دوسرے کے سامنے صاف صاف واضح کر کے انہیں معاہدہ بیمہ میں درج کریں اور کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہ لیں ورنہ اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی ۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنی زندگی کا بیمہ کرواتا ہے لیکن بیمہ کمپنی کو یہ نہیں تھا تا کہ اسے پہلے ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے۔ اب اگر یہ شخص ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے تو بیمہ کمپنی کسی کلیم کو ادا نہیں کرے گی۔

تلافی نقصان کا معاہدہ

زندگی کے بیمہ کے علاوہ بیمہ کے تمام معاہدے تلافی نقصان کے اصول پر طے کیے جاتے ہیں۔ ہیں جاس وجہ ان معاہدوں میں یہ منی خاص وجہ کی بنا پرہونے والے نقصان کو پورا کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔ اس لیے جاتاہے۔ دار کوصرف بیمہ کو تلافی نقصان کا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ بیمہ کمپنی بیمہ دار کو صرف عملی طور پر نقصان واقع ہونے کی کی کے صورت میں صرف نقصان ہی کی مالیت کے ہرجانہ کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنے گھر کا ایک لاکھ روپے کا بیمہ کرواتا ہے۔ گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے پچاس ہزار روپے کا نقصان ہوتا 4 دو بر ایمن ہے تو بیمہ دار کو بیمہ کمپنی سے صرف پچاس ہزار روپے وصول کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

دوہرا بیمہ

دیانا اگر کوئی شخص اپنی اشیاء یا مال کے تحفظ کے ہیمہ کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت ہونے والے نقصان کا بوجھ تمام بیمہ کمپنیاں برداشت کرتی ہیں جنہوں نے اس مال کا بیمہ دار اصل نقصان سے زیادہ ہر جانہ وصول کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ دوہرے بیمہ لیے بیک وقت دو کمپنیوں سے بیمہ کر والے تو اسے دوہرا کا اصول زندگی کے بیمہ پر لاگو نہیں ہوتا۔

نقصان کی اصل وجہ

بیمہ کے معاہدہ میں بیمہ کمپنی کسی خاص وجہ کی بنا پر ہونے والے نقصان کی تلافی کا وعدہ کرتی ہے۔ اگر طے شدہ وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے نقصان ہوا ہو تو کمپنی پر ادائیگی کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔ مثلاً ایک بحری جہاز میں گندم کو کسی اور وجہ سے نقصان ہوا ہو تو کمپنی پر ادائیگی کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔ مثلاً ایک بحری جہاز میں گندم کوکسی دوسری جگہ بھیجنے کے لیے سمندری خطرات کے پیش نظر گندم کا بیمہ کروایا جاتا ہے۔ کسی طرح چو ہے جہاز میں داخل ہو کر اس میں سوراخ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر کا پانی جہاز کے گودام میں داخل ہو کر گندم خراب کر دیتا ہے ۔ اس صورت میں بیمہ کمپنی پر نقصان پورا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن اگر چو ہے گندم کو خراب کرتے تو بیمہ بیمہ کمپنی نقصان سے بری الذمہ ہوتی۔

خطرے کی موجودگی

بیمہ کے معاہدہ میں واضح طور پر خطرے کا ذکر موجود ہوتا ہے۔ اگر اس میں خطرے کی نشاندہی یا اس کا تعین نہ کیا جائے تو یہ معاہدہ قانونی طور پر قابل اطلاق نہیں ہوتا ۔

نقصان سے بچاؤ

ہیمہ کا معاہدہ طے ہو جانے کے بعد خطرہ یا نقصان چونکہ یہ کمپنی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ہمہ دار لیے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ نقصان سے بچاؤ یا اسے کم سے کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ اگر اس کوشش میں ہمہ دار کوئی رقم بھی خرچ کرتا ہےتو بیمہ کمپنی اسکی بھی ادائیگی کرتی ہے۔ لیکن اگر بیمہ دار نقصان ان کلیہ سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کرتا تو اسکا نقصان پورا کرنے کا کلیم منسوخ بھی ہوسکتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "معاشی پسماندگی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment