افراط آبادی کا مفہوم ⇐ افراط آبادی کے لغوی معنی ہیں آبادی کا زیادہ ہونا لیکن آبادی کا محض زیادہ ہونا کوئی معاشی مسئلہ نہیں کرتا بشر طیکہ اس آبادی کو اچھا معیار زندگی مہیا کرنے کے ذرائع اور وسائل موجود ہوں ۔ اصطلاحی طور پر افراط آبادی سے مراد ایک ایسی صورت حال ہے جب کسی ملک کے معلوم وسائل پیداوار اس ملک کے لوگوں کو معقول معیار زندگی مہیا کرنے سے قاصر ہوں ۔ یہ ایک اضافی اصطلاح ہے۔ زمان و مکان کی تبدیلی سے صورتحال بدل سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ملک میں آبادی کی گنجانی زیادہ ہو لیکن اسے ذرائع پیداوار بھی وافر مقدار میں میسر ہوں اور وہ ملک صنعتی و تجارتی نقطہ نظر سے اس قدر ترقی یافتہ ہو کہ لوگوں کو اچھے معیار زندگی کی ضمانت دے سکتا ہو۔ مغربی یورپ کے صنعتی ممالک جن میں اٹلی، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں ، اسی زمرے میں شامل ہیں۔ دوسری طرف ایسے ممالک بھی ہیں جو سبتا کم گنجان آباد ہیں لیکن ان کے وسائل پیداوار اور راج ٹیکنا لوجی لوگوں کو معقول معیار زندگی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ براعظم افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک اسی صورتحال سے دو چار ہیں۔
پاکستان افراط آبادی کا شکار ہے
نسبتا کم گنجان آباد ہونے کے باوجود پاکستان افراط آبادی کے مسئلہ سے دو چار ہے کیونکہ یداوار آبادی کو گزشتہ 62 برس کی معاشی جدوجہد کے باوجود ہمارے ملک کے معلوم وسائل پیداوار آبادی کو معقول معیار زندگی مہیانہیں کر ملتا سکے اور ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ انتہائی غربت و افلاس سے دو چار ہے۔ اس بات کا ثبوت مندرجہ ذیل حقائق سے ملتا ہے۔
فی کس آمدنی کا کم ہوتا
پاکستان کی فی کس آمدنی انتہائی قلیل ہے۔ فی کس آمدنی سے مراد وہ اوسط آمدنی ہے جو کسی ملک کی فی کا قومی آمدنی کو اس ملک کی کل آبادی پر تقسیم کر کے حاصل ہوتی ہے یعنی فی کس آمدنی کل قومی آمدنی آبادی ۔ اس سے کسی ملک کے لوگوں کے عام عیار زندگی کا چت چتاہے۔ اس جگہ یہ بات خص طور پر توجہ لب ہے کرفی کس آمدنی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعی پاکستان کے ہر شہری کو برابر روپے ملتے ہیں۔ در حقیقت آمدنیوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے کئی لوگ کروڑوں روپے سالانہ کماتے ہیں، کی لاکھوں روپے اور کئی ہزاروں روپے اور کئی ایسے بھی ہیں جو کچھ بھی نہیں کرتے اور بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔
فی کس زیر کاشت رقبے کا کم ہونا
: پاکستان میں فی کس زیر کاشت رقبہ بہت کم ہے جو ایک ایکٹر فی کس سے بھی کافی کم ہے ۔ ماہرین کی رائے میں لوگوں کو کم از کم معیار زندگی کی ضمانت دینے کے لئے زیر کاشت رقبہ کی اوسط ایک ایکڑ سے کم نہیں ہوئی چاہیے نہ صرف یہ کہ فی کس کاشت رقبہ کم ہے بلکہ اس میں برابر کی ہوتی چلی گئی ہے ( فی کس کاشت رقبہ معلوم کرنے کے لئے ہم کسی ملک کے زیر کاشت رقبہ کو اس کی آبادی سے تقسیم کر دیتے ہیں .
خوراک کی قلت کا مسئلہ
آج سے تقریبا سواد دو صدی قبل ایک برطانوی ریاضی دان اور معیشت دان را برٹ تھامس ہا تھس نے یہ کہا تھا کہ دنیا کی آبادی کا تعین و سائل خوراک سے ہوتا ہے اور آبادی میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ یہ وسائل خوراک سے تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ نظریہ اپنی اصلی صورت میں رد کیا جا چکا ہے۔ آبادی کا تعین محض وسائل خوراک سے بھی نہیں بلکہ کسی کے مجموعی سے ہوتا ہے۔ وسطلی کے پیٹر ممالک صرف سے مالا مال ہیں اور ملک کے مجموعی وسائل سے ہوتا ہے۔ مشرق وسطی کے بیشتر ممالک صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور اس کے بدلے نہ پاکستان کے لئے اوسط 166.3 افرادنی مربع کلو میٹر تھی۔ اس وقت پاکستان کی 10 افراد فی مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 206 افراد تک پہنچ چکی ہے۔ ستان افراط آبادی کی وجہ سے جن مسائل کا شکار ہے ان کی تفصیل سے )خزاں 2011ء خزاں 2008ء بہار 2007ء خزاں 2006ء معنی ہیں آبادی کا زیادہ ہونا لیکن آبادی کا محض زیادہ ہونا کوئی معاشی مسئلہ مرنے کے ذرائع اور وسائل موجود ہوں ۔ اصطلاحی طور پر افراط آبادی سے سلوم وسائل پیداوار اس ملک کے لوگوں کو معقول معیار زندگی مہیا کرنے سے کان کی تبدیلی سے صورتحال بدل سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ملک میں و افر مقدار میں میسر ہوں اور وہ ملک صنعتی و تجارتی نقطہ نظر سے اس قدر ترقی اہو۔ مغربی یورپ کے صنعتی ممالک جن میں اٹلی ، جرمنی اور برطانیہ شامل الريخان پبلی کیشنز ۔ اُردو بازار لاہور صرف اپنی خوراک بلکہ دیگر ضروریات زندگی بھی درآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان ممالک کو کسی قسم کا افراد آبادی کا مسئلہ در پیش نہیں ہے لیکن جو بات کسی ایک ملک یا چند ممالک کے لئے درست ہے وہ ضروری نہیں کہ ساری دنیا کے لئے بھی درست ہو۔ اگر دنیا کے چند ایک ممالک اپنی ضرورت کی خوراک خود پیدا نہیں کر سکتے تو دوسرے ممالک میں فاضل خوراک ہوگا۔ ضرور پیدا ہونی چاہیے بصورت دیگر خوراک نہ پیدا کرنے والے ملکوں کو قحط کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اس وقت پاکستان کی آبادی 1.8 فیصد سالانہ سے زیادہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ آبادی سے دگنی آبادی کے لئے دوگنی خوراک کی ضرورت ہوگی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہم کوششوں کے باوجود ابھی تک گندم کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہو پائے ۔ اس کے علاوہ ہم کھانے کا تیل بھی وافر مقدار میں درآمد کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ مقداری طور پر خوراک کی کمی ہے بلکہ وہ وصفی طور پر بھی ناقص ہے ۔ ہماری خوراک زیادہ تر انتاج یعنی گندم، چاول یکئی وغیرہ پر مشتمل ہے اور صحت آور خوراک یعنی گوشت ، الہ ہے، دودھ اور پھل بہت قلیل مقدار میں میسر ہیں۔
رہائشی ضروریات کی قلت
ہر خاندان کو رہنے کے لئے ایک مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی ہے ان کے مکانات کچے ہوتے ہیں اور ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ۔ برساتی موسم میں اور سیلابوں کی زد میں آکر اکثر مکان منہدم ہو جاتے ہیں۔ شہروں میں پلنے مکانات ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بالکل نا کافی ہیں۔
صحت و صفائی کی سہولتوں کی کمی
بار ایک افراد آبادی کے سل سے دو چار ہے۔ اس کا شورتی اس بات سے کسی ماتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ہوتوں کی شدید ملکت ہے۔ ہمارے ملک میں بارہ سو افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ اڑھائی ہزار افراد کے لئے سپتال میں صرف ایک نسل ہے۔ اگر چہ ہائی امراض پر بڑی حد تک قابوپالیاگیا ہے جان ناقص خوراک اور میر محمد مند ماحول کے سب بیماریاں عام ہیں ۔ اس لئے لوگوں کی استعداد کار بہت پست ہے۔
تعلیم کی سہولتوں کی کمی
ہمارے ملک میں 1998ء میں دس برس یا اس سے زیادہ محرکی آبادی کا صرف 14 فیصد خواندہ تھا اس شخص کو خواہد بھی خواندہ لیا سمجھ یا گیا تھا جو ایک سادہ سی عبارت کو پڑھ کر کچھ سکتا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اتا ہے کہ آبادی میں اس جبکہ طرح اضافہ ہوتار ہا و تعلیمی سہولتوں کا مسئلہ اور بھی شدت اختیار کر جائے گا۔
روزگار کے مواقع کی کمی
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجہ میں ہمارے ملک کی افرادی قوت میں ہر سال اضافہ اور ہا ہے لیکن زرعی اور منتی شعبہ میں روزگار کے مواقع اسی تناسب سے نہیں بڑھ ر ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک میں بڑے پیمانے پر ہجرت کے سب پیروزگاری کے مسلہ کی عینی میں کی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت کثیر افراد غیر مالک میں کام کر رہے ہیں جو نہ صرف ہمارے ملک میں پروزگاری کے مسئلے کومل کر رہے ہیں بلک کثیر مقدار مں زرمبادلہ کما کر وطن بھیج رہے ہیں۔ (vii)
افراط زر کی صورت حال
پاکستان میں افراط آبادی کی ایک واضح اور اہم علامت افراط زر ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ملک میں عام اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا ہے جس سے عوام کی مشکلات بڑھتی چلی گئی ہیں بالخصوص محدود آمدنی حاصل کرنے والے لوگوں اور تنخواہ دار طبقے کوسخت پریشانی سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
افراط آبادی کے مسئلہ کا حل
ہمارا ملک اس وقت جس صورتحال سے دو چار ہے وہ آبادی میں اضافہ کی موجودہ شرح 1.8 فیصد کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلہ کا حل انتہائی ضروری ہے۔ یا ایک ایسی جنگ ہے جو ہمیں دو محاذوں پر لڑتا ہے
زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ
افراط آبادی کے مسئلہ کا پہلا حل یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار میں نمایاں اضافہ کریں تا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو بطریق پورا کیا جا سکے جہاں تک زرعی پیداوار کا ہے اس میں دو طریقوں سے اضافہ ممکن ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "افراط آبادی کا مفہوم" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ