نظام اراضی کا مفہوم

نظام اراضی کا مفہوم نظام اراضی سے مراد لیے تو امین اور مروجہ روایات ہیں جو کہ زمین کی ملکیت اور اس کے استعمال کے بارے میں کاشت کار حکومت اور دیگر متعلقہ افراد کے حقوق کو متعین کرتے ہیں۔ اس نظام سے مندرجہ ذیل باتوں کے بارے آگاہی ہوتی ہے۔ ی زمین کا مالک کون ہے اور میمن کی میت کی نوعیت کی ہے یعنی خود کاشت کرتا ہے اداروں خوار وں سے کاشت کرواتا ہے۔  اگر کاشت حرارموں سے کرواتا ہے تو اس سلسلے میں کیا شرائط ہے کہ میں یعنی زرعی پیداوار میں کاشت کار کا کیا حصہ ہے۔  کیا مزارعوں کو زمین کاشت کرنے کے مستقل حقوق حاصل ہیں یا زمینداری مرضی پر کسی وقت بھی بے دخل کئے جا سکتے ہیں۔  زمین کی ملکیت کے سلسلے میں حکومت کے کیا حقوق میں اسی طرح زمین کی پیداوار میں حکومت کا کیا حصہ ہے یعنی اس زمین سے حکومت کتنا مالیہ وصول کرتی ہے۔ یہ نظام کا شکاری اور مالیت کی اکائی کا حجم متعین کرتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کاشتکاری کے لئے کونسا طریقہ استعمال کیا جائے گا اس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ کا شکار رکوزمین کی پیداوار سے کتنا حصہ ملے گا دوسرے الفاظ میں کا شکار اپنے کام میں کسی قدر دلچسپی لیتا ہے اس کا دارو مدار بھی اراضی کے نظام پر ہے۔ مزید بر آن نظام اراضی زمین کو کاشت کرانے والوں اور مالکوں کے ساتھی اور سیاسی رہنے کا تعین کرتا ہے۔

نظام اراضی کا مفہوم

تاریخی پس منظر

بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے ان میں نظام اراضی جو تھا وہ ہمیں انگریزوں سے ارشہ میں ملا اس کے تحت ان علاقوں میں زمینداری نظام تھا پنجاب اور صوبہ سرحد میں زمینداری نظام کے وجود میں آنے کی دود جو بات تھیں ۔ (1) پہلی وجہ یہ تھی کہ غیر یقینی سیاسی حالات کی بنا پر بڑے بڑے اسٹیٹ کے مالکانہ حقوق حاصل کر لئے تھے  دوسری وجہ جس کی بناء پر بڑی بڑی زمینداریاں وجود میں آئیں دوریہ تھیں کہ انگریزوں نے اپنے وفادار لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کو بڑی بڑی جاگیر داریاں عطا کر دیں اس طرح سے ان علاقوں میں بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر دار وجود میں آئے جو کہ عرصہ دراز سے غریب کا شتکاروں کا استعمال کرتے آرہے ہیں صوبہ سندھ میں جو کہ پاکستان بنے سے پہلے صوبہ بمبئی کا ایک حصہ تھار جیت داری نظام اس علاقے کے حالات کی مناسبت سے کام کرتا رہا اس نظام کے تحت وہ کا شکار جن کا زمین پر قبضہ تھا کاشت کرتے رہے زمین کی ملکیت قانونی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ زمین کا رقبہ خاصا وسیع تھا اس طرت سے درحقیقت میں کی مالک حکمت تھی کرنی زمین کی ملی کی کو ہی کی جاتی اس کا یہ یا اس کا کا فرض بن جاتا تو بعد میں سندھ میں جناب اور صوبہ سرحد کی طرح بری نظام وجودمیں آیا تو میوں کی قدر و بیت با رنگی اور اس طرح سے صوبہ سندھ میں بھی بالکل وہی حالات پیدا ہوئے جو کہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں تھے یعنی کہ بڑی ہوئی زمینداریاں وجود میں آگئیں اس طرح زمین پر جوبھی قابض تھے وہ ہر لحاظ سے زمین کے مالک بن گئے۔

پاکسان میں نظام اراضی

اس طرح گزشتہ کی بنوں کے دوران پکستان کا کام اراضی تلف یا تعمیرات اور معالی موال کے یار کی مال لے کرتا ہو موجودہ حالات کو پہنچاہے ملک کے مختلف علاقوں میں اس نظام کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں ان صورتوں کو درج ذیل سطروں میں بیان کیا جاتا ہے۔۔

ریاستی زمین داری نظام

اس نظام کے تحت حکومت زمین کی خود مالک ہوتی ہے اور زمین کو کاشت کرنے کے لئے مزارعین کو یہ پر دے دیتی ہے مزار میں اگر زمینوں کے مالک بنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ انتقام شرائط کو پورا کر ہے ہوں جو کہ حکومت کی طرف سے عائد کی گئی ہو اس ستم کا نظام العلم ان علاقوں میں رائج ہے جوغیر آباد میں اور مجرمیں وہ تمام علاقے جو حکومت کے بتائے ہوئے ڈیم اور براجوں  کے ذریعے کاشت کئے جاتے ہیں ان میں یہ نظام رائج ہے ان میں قابل ذکر علاقے گود بیران اور جناح ایران کے تحت والے علاقے ہیں۔

رعیت داری نظام

اس نظام کے تحت زمین کی مالک خود حکومت ہوتی ہے اور چھوٹے چھوٹے کاشتکار جنہیں رعیت کہا جاتا ہے زمین پر مزارع کی حیثیت سے کام کرتے ہیں یہ نظام ریاسی زمینداری او کی زمینداری کے بین بین سمجھا جاتا ہے اس نظام کے تحت کا شکار کوایک فائدہ ہے اوروہ یہ کہ اگر وہ جھتا ہے کہ زمین کی کاشت اب منافع بخش نہیں رہی وہ زمین پر کام کرنا ترک کر سکتا ہے حکومت اس سے کوئی مایہ وصول نہیں کرتی اس کے علاوہ ان کا شکار چاہے تو زمین پر کاشتکاری کے حقوق اپنی اولاد کوگی مشتمل کر سکتا ہے گاؤں کی چراہ گاہیں عوام کی ملکی نہیں ہوتیں بلکہ ان کی مالک در حقیقت حکومت ہوتی ہے ایسی چراہ گاہوں میں عوام کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو لے جائیں اور ہر میں یہ کام زیادہ ترصوبہ سندھ میں پیا جاتا ہے۔

نیجی زمینداری نظام

اس نظام کے تحت بڑے بڑے زمیندار زمینوں کے مالک ہوتے ہیں وہ خود زمینوں کو کاشت نہیں کرتے ہیں بلکہ زمین کو مزارع یا مزدوروں سے کاشت کرواتے ہیں یہ مزارع زمین پر قابض کا شکار ہو سکتا ہے یا ایسا مردور ہو سکتا ہے جسے عارضی بنیاد پر کام پر لگایا گیا ہو اس قسم کے مزارع کا کافی عرصہ استعمال ہوتا رہا لیکن اب کسی حد تک ان کو حقوق کا بل ے عارضی بیاد کا است دارای مواد ہوتا رہا اب حد تک ان کو کا تمل ذریے تحفظ گیاہے یہ زیادہ ترصوبہ اورصوبہ سرحد میں رائج ہےکے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے یہ نظام زیاد تر صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد مش رائج ہے اگر چہ 1959ء اور 1972ء کی زرعی اصلاحات کے تحت ان کا کافی زور توڑ دیا گیا ہے لیکن یہ بات اب بھی ہمارے زرعی ماحول میں خاصا گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے جب سے یہ زمینداری نظام اس علاقے میں رائج ہے اس وقت یہ زمیندار زمینوں کے اصل مالک نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت محض مالیہ اکٹھا کرنے والوں کی تھی لیکن انگریز حکومت کی نظر عنایت اور کچھ غیر یقینی سیاسی حالات کی بنا پر زمینوں کے مالک بن بیٹھے اس نظام کی بہت سی برائیاں ہیں جو درج ذیل ہیں: اس نظام کے تحت دو طبقے پیدا ہو گئے اولاً وہ جو کہ زمینوں کے مالک تھے اور بے پناہ دولت کے مالک بن بیٹھے دوئم دو جو کہ زمین کاشت کرتے تھے یعنی مزارع جن کے حقوق کا کسی کو بھی خیال نہیں آتا اور ہمیشہ استحصال کا شکار رہے۔  زمیندار کیونکہ صرف وصولیوں میں دلچپس لیتا تھا اور زمین پر کس قسم کی سرمایہ کاری نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کی کوئی اصلاح ہونے کی بجائے زمین کی حالت ابتر ہوتی گئی۔ کاشت کار میں کام کرنے کا جذ بہ سرد پڑتا گیا کیونکہ دور یکتا تھا کہ زمیندار بغیر پیسے لگائے اور بغیر محنت کے پیداوار کا بڑا حصہ سمیٹ کر لے جاتا تھا ۔

خود کاشت کاری کا نظام

اس نظام میں زمین کی کاشت کرنے والا ہی زمین کا مالک ہوتا ہے اس قسم کے زمین کے مالک اور بڑے زمیندار خصوصی طور پر غیر حاضر زمیندار میں فرق صرف اس بات کا ہے کہ اول الذکر کے پاس زمین کا رقبہ مقابلتا چھوٹا ہوتا ہے اس قسم کے نظام اراضی میں کسان کے پاس زمین کا رقبہ تھوڑا ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر اوقات بکھرا ہوا ہوتا ہے زمین کا تھوڑ ارقبان کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے خود کاشتکار دوسرے زمینداروں سے کچھ زمین کاشت اور کے لئے حاصل کرتا ہے اور زمیندار کو اس کا لگا ادا کرتا ہے اس طرح سے خود کا شکا را پی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے یہ کام انجاب صوبہ سرحد میں پایا جاتا ہے۔ اس قسم کے نظام کے کچھ فائدے اور ساتھ نقصانات ہی ہوتے ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں۔

فائدے

 اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کا شکار پوری دلجمعی کے ساتھ کام کرتا ہے اور پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ہی زمین کا مالک ہے اور کوئی بھی اس کی محنت میں شریک ہونے والا نہیں اس طرح سے دیکھنے میں آیا ہے کہ ویران اور بنجر علاقے بھی لہلہاتے کھیتوں میں بدل دیئے گئے ہیں اس نظام کے تحت کا شکار چونکہ خودہی زمین کا مالک ہوتا ہے اس لئے اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ اس رتا طور پر وہ طرح سے اچھا اور ذمہ دار شہری ثابت ہوتا ہے معاشی طور پر آزاد ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی کسی کو موقع نہیں دیتا کہ وہ اس کا استحصال کرے۔

نقصانات

اس نظام کے تحت کونہ کا شکار چھوٹے چھوٹے قطعات کے مالک ہوتے ہیں اور وسائل یا ذرائع کے معاملے میں شکار ہوتے ہیں اس لئے وہ از خووز مین کی اصلاح اور بہتری کے لئے اقدامات نہیں اٹھا سکتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا معیار زندگی تیزی سے بلند نہیں ہو پاتا۔

پاکستان میں نظام اراضی کے برے اثرات

پاکستان کا نظام اراضی جو اسے تقسیم کے وقت ورثے میں ملا اور جو کہ ابھی تک ہمارے ملک میں پاؤں جمائے ہوئے ہے بہت ہی ناقص اور برائیوں سے اٹا پڑا ہے زمین کی تقسیم ، زمین کی ملکیت اور اس کے صحیح استعمال کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس سے برا نظام کہیں بھی نہیں دکھائی دے گا زمین کا بڑا رقبہ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی ملکیت میں ہے زمینوں پر کام کرنے والے غریب کا شکار اور مزارع ہیں جو کہ مستقل طور پر زمینداروں کے کی بھی امی کی کرن دکھائی دے رہی زمین کی ہیں ہا تھوں استحصال کا شکار چلے آرہے ہیں ان کے لئے کوئی بھی اُمید کی کرن نہیں دکھائی دے رہی زمین کی اس ناقص تقسیم کے باعث بہت کسی سماجی معاشرتی اور معاشی برائیاں عود کر آئی ہیں جن کی وجہ سے ہماری معیشت کے اہم شعبہ یعنی زراعت کی ترقی اس رفتار سے نہیں ہو سکی جس کی ہمیں توقع تھی۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "نظام اراضی کا مفہوم"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment