توانائی کی صورتحال

توانائی کی صورتحال بجلی توانائی کا ایک ستا، کارآمد اور انتہائی مفید ذریعہ ہے۔ پاکستان میں 1947 دوران مکلی کی پیداوار 68 میگا واٹ تک محدود تھی۔ اس میں سے 10.7 میگاواٹ ہائڈل اور 57.3 68 میگاواٹ تک اور مہم کے میگاوات تحرمل تھی جبکہ جو ہری ذرئع سے بجلی پیدانہی کی جاری ھی بجلی کی پیداوار کے تین اہم ادارے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی راولپنڈی الیکٹرک پاور کمپنی تھے جو بالترتیب 1913 1922ء اور 1923ء میں قائم کئے گئے تھے۔ بعد ازاں بجلی پیدا کرنے والے ملک کے سب سے بڑے ادارے واپڈا کا قیام 1958ء میں عمل میں آیا۔ اس وقت ملک میں بجلی ک سالانہ مجموعی پیداوار 23,420,000 کے الگ الگ تھی۔ 1972 میں ملتان الیکٹرک سپلائی کمی اور راولپنڈی الیکٹرک پاور کمانی کوئی شعبہ سے سرکاری شعبہ میں منتقل کر دیا گیا جبکہ اس سے مل 1952 ء ہی میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن  کے بیشتر حصص حکومت نے خرید لئے تھے۔ مذکورہ بالا اداروں کے علاوہ کراچی نے کلیئر پاور پروجیکٹ  جوہری توانائی سے مکمل پیدا کرنے کا کام کرتا ہے۔ توانائی کسی بھی ملک کی ترقی اور انسانی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا کو روز بروز توانائی کی طلب میں اضافہ کو پورا کرنے سے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ توانائی کی طلب آگئے ہیں سالوں میں تقر یادہوگئی ہو جائے گی۔ پاکستان کے کیس میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ تعمیر ہے۔ اس لئے اس کے حل کے لئے حکومت کئی میدانوں میں مصروف عمل ہے جس میں ایران سے کیس اور عمل کی درآمد (Import) کوئٹہ کے 185 میں ذخیرہ کا استعمل ، چونے ہائیڈرو پراجکٹ کی تیاری، تو اہلی کے بہتر طور پر استعمال کی کوشش اور گیس بجلی اور تیل کے علاوہ توانائی کی دوسری شکلوں کی دریافت اور تیاری شامل ہے۔ یہ تمام کوشین اس لئے ضروری ہیں کہ سال 08-2007 ء کے پہلے تو ماہ میں پرویم ، گیس پھیل اور کوئلہ کا استعمال %10.1 %2.8 5.7 اور 11.9 بالترتیب بڑھ گیا ہے۔

توانائی کی صورتحال

خام تیل کی پیداوار

خام تیل کی پیداوار جولائی ۔ مارچ 08-2007 ء کے دوران 70,166 بیرل یومیہ ہے جبکہ پچھلے سال 66.485 بیرل یومیہ تھی، اس طرح خام تیل کی پیداوار میں 5.54 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اوسط 50.9 فیصد پیٹرولیم مصنوعات رانسپورٹ کا شعبہ استعمال کرتا ہے۔ اس کے بعد 32.8 فیصد تو انال کا شعر صنعت 11.0 فیصد، گھر یلو استعمال 1.9 فیصد دوسرے حکومتی استعمال 2.2 فیصد اور زراعت 1.2 فیصد ( دس سالوں کے دوران یعنی 98-1997ء سے 07-2006 ء تک

قدرتی گیس

قدرتی گیس کی اوسطا یومیہ پیداوار جولائی 2007 تا مارچ 2008ء کے دوران 3965.9 ملین کیوبیک فیٹ رہی ہے جبکہ پچھلے سال یہ پیداوار اوسطا 3876.4 ملین کیوبک فیٹ یومیہ تھی۔ اس طرح یہ اضافہ 2.3 فیصد ہوا۔ اوسطا توانائی کا شعبہ 36.8 فیصد قدرتی گیس استعمال کرتا ہے اس کے بعد کھاد کا شعبہ 20.7 فیصد، صنعتی شعبہ 19.8 فیصد، گھریلو استعمال 17.4 فیصد ، تجارتی شعبہ 2.7 فیصد اور سیمنٹ 11 فیصد (گزشتہ دس سالوں کی بنیاد پر یعنی 98-1997 ء سے 07-2006ءتک

بجلی کی پیداواری گنجائش

بجلی کی پیداواری گنجائش سال جولائی ۔ مارچ 08-2007 ء میں 19566 میگاواٹ تک بڑھی ہے جبکہ یہ گنجائش اس سے پہلے 19440 میگاواٹ تھی ، اس طرح بہت کم اضافہ یعنی صرف 0.65 فیصد بنتا ہے جو بجلی کی طلب اور ضرورت سے بہت کم ہے۔ صنعتی اور کمرشل استعمال کے علاوہ گھریلو استعمال میں اضافہ اس اعداد وشمار سے ظاہر ہے کہ ان گاؤں کی تعداد جن میں بجلی مہیا کی گئی ہے۔ مارچ 2008 ء تک 126,296 تک پہنچ گئی ہے  جبکہ 07-2006 ء میں یہ تعداد 113,605 تھی یعنی 11.2 فیصد اضافہ ظاہر ہوتا ہے  ۔ آج کل تقریبا 2068 سی این جی سٹیشن ملک میں کام کر رہے ہیں۔ مارچ 2008 ء تک تقریباً 1.70 ملین گاڑیاں  میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ پاکستان ایشیا کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا استعمال کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

بجلی کی پیداواری گنجائش

70-1960 کا عشرہ

جس طرح 60-1950ء کے عشرے کے دوران صنعتی ترقی کے سلسے میں حکومت کی پالیسی کو لیو 1ء دوران پان اور پہلے پانچ سال منصوبے کی شکل میں متعین کیگئی تھی، اس طرح 70-1960ء کے عشرے کے دوران حکومت کی صنعتی پالیسی کا مظہر دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 65-1960 اور تیسرا پانچ سالہ منصوبہ 70-1965ء کی پہلی کڑی بھی ہے۔ پہلے عشرے کے بر عکس اس عشرہ کے دوران صنعتی شبے میں ترقیاتی کامکا زیادہ تر بوجھ بتدریج بھی شعبہ پر ڈال دیا گیا اور سرکاری شعبے کی سہارا دیا گیا او سرمایه کاری آہستہ آہستہ پس منظر میں چلی گئی۔ لہذا نجی شعبے کے منکاروں اور سرمایہ کاروں کوبھر پور انداز میں سہارا دیا گیا اور حد انہیں بے پناہ معاونت فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ بونس داؤ پر کیم اس سلسلے کی ایک مشہور کڑی ہے۔ نجی شعبے کی اس حد ہیں ہے انا اعانت فراہم کرنے کی اختیار کی ہوس اور اس سلے کی مشہور رہی بی کی اس حد تک معاونت نے آجروں کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی راہیں کھول دیں لیکن بد قسمتی سے بھی شعبے نے منافع کمانے کے ساتھ ساتھ ملکی صنعت و تجارت کو بین الاقوامی معاشی حالات سے ہم آہنگ کرانے کیلئے کوئی مثبت کردار سر انجام نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عشرے کے اواخر تک پہنچتے پہنچتے ملکی ادائیگیوں کا توازن خراب سے خراب ہوتا گیا اور اندرون ملک سرمایہ کاری بھی، چاہے وہ بھی شعبہ ہو یا سرکاری، زوال پذیر رہی، چنانچہ ملکی معیشت کڑی سے کڑی شرائط پر حاصل کئے ہوئے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے پر مجبور تھی اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ گو دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے متوقع نتائج حاصل کر لئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود حکومت کی فراخدلانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں ملکی دولت کا ارتکاز محض چند خاندانوں تک محدود ہو چکا تھا۔ یہ عشرہ بھی صنعتکاروں کے لئے ایک سنہری دور تھا جبکہ صنعتوں کے لئے ایک تاریک دور تھا۔ رابرٹ میکنا مارا کے الفاظ میں پاکستان کے صنعتکار ، صنعت چلانے میں نہیں بلکہ محض صنعت لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

دوسرا پانچ سالہ منصوبہ

پہلے پانچ سالہ منصوبے کے 10800 ملین روپے کے اخراجات کے مقابلہ میں دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی مدت کے دوران مجموعی طور پر 23000 ملین روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس رقم کا 12050 ملین روپے پر مشتمل حصہ اندرونی ذرائع سے اور 10950 ملین روپے کا حصہ بیرونی ذرائع سے حاصل کیا جانا تھا۔ مزید برآں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کل اخراجات میں سے 12400 ملین روپے سرکاری شعبہ کے تحت اور بقیہ 10600 طمعین روپے بھی ونیم سرکاری شعبہ کے تحت خرچ کئے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر صنعت کے لئے 4050 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی جس کا محض 125 ملین روپے کا حصہ سرکاری شعبہ کے تحت خرچ ہونا تھا۔ اسی طرح صنعت سے متعلقہ ایندھن اور معدنیات کے شعبہ کے لئے 850 ملین روپے کی رقم میں سے صرف 125 ملین روپے سرکاری شعبہ کے تحت خوچ ہونا تھا۔ صرف ذرائع مواصلات و خبر رسانی ہی ایسے شعبے تھے جن کے لئے مختص کی گئی 3350 ملین روپے کی رقم کا صرف 830 ملین خالصتا نجی شعبہ کے تحت خرچ کیا جانا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت جو مقاصد پیش نظر تھے ان میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 60 فیصد، قومی آمدنی میں 24 فیصد فی کس آمدنی میں 12 فیصد اور ملکی بچتوں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں 10 فیصد اضافہ کرنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ مزید 25 لاکھ افراد کو روز گار مہیا کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ مختلف صنعتی شعبوں کے سلسلے میں سیمنٹ کی پیداوار 1050 ہزار ٹن سے بڑھا کر 3000 ہزارٹن، سپر فاسفیٹ کھاد کی پیداوار 1500 ٹن سے بڑھا کر 18000 ٹن، گھی کی پیداوار 22000 سے 50,000 ٹن اور کاغذ کی پیداوار 40 ہزارٹن سے بڑھا کر 80 ہزار ٹن سالانہ تک لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ منصوبے کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا اس کے اہم نکات یہ ہیں :  ترجیحات کی بنیاد پر سب سے پہلے ایسی سرمایہ کاری کو لا نا جس سے موجودہ پانٹوں کی پیداوار بڑھے۔ اس کے بعد موجودہ پلانٹوں کو جدید خطوط پر چلانا اور آخر میں نئے پلانٹوں میں سرمایہ کاری کرنا۔ بڑی صنعتوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ چھوٹی صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دینا اور ہر دو قسم کی صنعتوں کے در میان سرمایہ کاری اور تحفظ کا توازن قائم کرنا ۔ چند بڑے شہروں تک صنعت کے ارتکاز کور و کنا۔ صنعتی ترقیاتی پروگرام کے سلسلہ میں بنیادی طور پر صرف اور صرف بھی شعبہ پر انحصار کرنا۔ سرکاری شعبہ کے تحت سرمایہ کاری صرف ان شعبوں تک محدود کرنا جن میں نجی شعبہ کو یا تو کوئی دلچسپی نہیں یا پھر وہ مالی اور تکنیکی طور پر ان شعبوں میں انتظامی اور مالی امور سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ نجی شعبہ کو سرمایہ کاری کی ترغیب دلانے کے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے گئے۔  نیا قائم شده اداره انویسٹمنٹ پروموشن بیورو  بھی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے جس میں لائسنسوں کی فراہمی فنی معلومات کی فراہمی اور مشاورتی خدمات شامل ہیں۔ صنعتی سرمایہ کاری کے نئے شیڈول کے تحت چند خاص صورتوں مں سرمایہ کاری کوحکومت کی پیشگی اجازت سے سنتی قرار دینا۔  حکومت کی طرف سے قیمتوں پر کنٹرول کی پالیسی کو نرم کرنا۔  مشینری اور خام مال کی درآمد پر کنٹرول نرم کرنا۔ قرضہ کی عام سہولتوں کی بہم رسائی۔  مجھی فرموں کے تعاون سے صنعتی تربیت اور تحقیق کے پروگرام کو آگے بڑھاتا۔ اس منصوبے کے تحت مطلوبہ نتائج خاصی حد تک حاصل کر لئے گئے یعنی صنعتی ترقی کی رفتار 8.3 فیصد سالانہ تک جا پہنچی اور برآمدات میں سالانہ 7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ بحیثیت مجموعی قومی آمدنی 30 فیصد اور فی کس آمدنی میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔

تیسرا پانچ سالہ منصوبہ 70-1965

تیسرا پانچ سالہ منصوبہ ایک تناظری منصوبہ 85-1965ء کی پہلی کڑی تھی۔ ناظری منصوبہ کے اہم مقاصد میں خام قومی پیداوار میں چار گنا اضافہ، ملک کے دونوں حصوں کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ مکمل روزگار کی سطح تک پہنچنا، غیر ملکی امداد سے نجات اور ملک کی مکمل آبادی کو تعلیم یافتہ ہونے کی سطح تک پہنچانا تھا۔ تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے تحت 52 بلین روپے کی رقم ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کی گئی تھی ، جس کا 55 فیصد ملکی اور 45 فیصد غیر ملکی ذرائع سے حاصل کیا جانا تھا۔ 52 بلین روپے کی اس رقم میں سے 13.46 بلین روپے صنعتی شعبہ کی ترقی کے لئے مخصوص کئے گئے تھے جبکہ 7.21 بلین روپے کی رقم ذرائع مواصلات وخبر رسانی کے لئے مخصوص کی گئی تھی۔ کل رقم میں 30 بلین روپے سرکاری شعبہ اور 22 بلین روپے نجی شعبہ میں رکھے گئے تھے۔ تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے چند اہم اور متعلقہ مقاصد میں بھاری بنیادی صنعتوں کا قیام صنعتی پیداوار میں 12 سے 21 فیصد تک اضافہ، قومی آمدنی میں 37 فیصد اور بجھی بچتوں میں 20 فیصد اضافہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ تقریبا 5 5 لاکھ مزید افراد کو روز گار کی فراہمی بھی اس کا ایک اہم مقصد تھا۔ تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران جو صنعتی پالیسی اختیار کی گئی اس کے چند اہم نکات یہ تھے۔ پہلے اور دوسرے منصوبے کے صنعتی پروگرام کے برعکس اشیا سرمایہ کی پیداوار میں اضافہ کرتا ۔ بھاری اور بنیادی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا۔ ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنا جن سے یا تو قومی آمدنی میں تیزی سے اضافہ ہو یا ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال بہتر ہوتی ہو یا پھر بھاری تعداد میں لوگوں کو روز گار مہیا ہوتا ہو۔ بہتر ہوئی ملک میں اشیائے صرف کی مانگ کو برقرار رکھنے کیلئے غیر منصفانہ تقسیم دولت کی صورتحال کو بہتر بنانا۔ نعتی ترقیاتی پروگرا کی ذمہ داری بدستور جی شعبہ کوسونپا اوراس کی بدولت ملکی دولت کا ارتکاز اگر چند ہاتھوں میں ہو جائے ، تو اسے بھی روکنے کی کوشش کرنا ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا۔ چند بڑے شہروں میں صنعتوں کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کرنا۔ چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی پالیسی جاری رکھنا۔ صنعتی تربیت اور تحقیق کے کام کو آگے بڑھانا ۔ صنعتی پالیسی کے مذکورہ بالا مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تیسرے پانچ سالہ منصوبہ کا آغاز کیا گیا لیکن یہ منصوبہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ منصوبے کی مدت کے پہلے دو سال جنگ اور اس کے بعد خراب اقتصادی صورتحال میں گزرے۔ بعد میں خراب موسمی حالات اور حکومت وقت کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے اس منصوبے کے تمام مقاصد خاک میں ملا دیئے۔ 1970ء کے اعداد و شمار کی رو سے صنعتی پیداوار میں 10 فیصد کی بجائے صرف 7.6 فیصد اضافہ ہوا۔ 52 بلین روپے کے مجوز اخراجات کی بجائے صرف 39 بلین روپے کے ترقیاتی اخراجات ممکن ہو سکے۔ بعینہ خام قومی پیداوار میں بھی 37 فیصد کی بجائے  فیصد اضافہ ہوا۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "توانائی کی صورتحال"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment