ملکی ترقی میں صنعت کا کردار ⇐ جب انسان نے چند سادہ کی مشینیں ایجاد کیں تو اس وقت شاید ہی کسی کے ذہن میں آیا ہوگا کہ دھات کے یہ بے نظم کے زمین پر ایک نئے سماج کو خم دیں گے لیکن آج ہم اپنے گردو پیش پرنظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ صنعت صرف مشین یا مینی پیداوار کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورے کا جی ڈھانچے کا نام ہے جس ہم صنعتی معاشرہ کہتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام معیشت میں مستعمل اور رائج سادہ ذرائع پیدائش اور آلات پیداوار، جب موجودہ معاشرے کے لئے انتہائی پیچیدہ ذرائع پیدائش اور آلات پیداوار میں تبدیل ہوئے تو اس سے پیدائش دولت کے مختلف عاملین کے درمیان باہی رشتوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو گئیں ۔ اس طرح تیز رفتار ذرائع پیدائش نے انسان کو جغرافیائی فاصلے سمٹنے پر مجبور کردیا۔ تیز تر ذرائع مواصلات کی بدولت مختلف قسم کی اشیاء و خدمات کے لئے ہی منڈیوں کا حصول ممکن ہو گیا ہے اور یوں خام مال کی ترسیل میں حائل ہر قسم کی رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔
پاکستان میں صنعتی ترقی کی اہمیت
پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے صنعتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہماری قومی معیشت کے لئے صنعتی ترقی کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں بنیادی طور پر ہماری معیشت ایک زرعی معیشت ہے کیونکہ ملک کی کل آبادی کے تقریباً تین چوتھائی حصے کا ذریعہ روز گار زراعت اور اس سے ملحقہ پیتے ہیں۔ ملک کی زرعی ترقی جدید صنعت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح صنعت کی دیا۔ بدولت تیار کی جانے والی کیمیائی کھادیں زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ایک معیشت میں بالائی ڈھانچے کی تعمیر وترقی بھی صنعت سے وابستہ ہوتی ہے مثلاً ذرائع مواصلات صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں زرعی اجناس کی نقل و حمل آسان ہو جاتی ہے۔ صنعت کی ترقی سے ملکی معیشت کے دیگر شعبے خود بخود ترقی کرنے لگتے ہیں۔ جس سے مجموعی پیداوار بڑھتی ہے اور قومی آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر صنعتی ترقی ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد دے رہی ہے تو یقینی بات ہے کہ غریب ممالک میں صنعت کے جاذب محنت منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے جب کہ دولت مند ممالک میں جاذب سرمایہ منصوبوں میں سرمایہ کاری ہوتی ہے جس سے ملک میں مجموعی روزگار کی سطح بلند ہوتی ہے۔ معاشی خود کفالت حاصل کرنے کیلئے مختلف شعبوں میں صنعتی پیداوار بڑھائی جاتی ہے جس سے ملکی درآمدات کا حجم کم ہو جاتا ہے اور برآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح ادائیگیوں کا توازن درست کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ملک میں صنعتی ترقی سے لوگوں کا عمومی معیار زندگی بلند ہو جاتا ہے ان کی ہنر مندی اور صلاحیتوں میں بے انتہا تنوع پیدا ہو جاتا ہے جس سے ایک معیشت کی بنیاد میں مضبوط ہو جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک کی مجموعی پیداوار میں اضافہ اور مکی ذرائع کی مکمل کھپت صرف جدید صنعتی ترقی سے ہی ممکن ہے، ہم یہ نتیجہ با آسانی اخذ کر سکتے ہیں کہ خود انحصاری کی منزل پر پہنچنے اور حقیقی سیاسی آزادی حاصل کرنے کے لئے ملکی صنعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینی چاہئے۔ جاگیردارانہ معاشرت کی خامیوں، جاہلانہ طرز فکر اور فرسودہ اقدار سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک صنعتی معاشرے کا قیام از حد ضروری ہے۔
پاکستان میں صنعتی پسماندگی
م 1947 ء میں بر صغیر ہند کی تقسیم کے وقت پاکستان کے حصہ میں جو صنعتیں آئیں وہ محض چند آنا پینے کی ملوں ، چاول چھڑنے کی ملوں، کپاس بیلنے کی ملوں، ایک سیمنٹ پلانٹ اور چند سادہ کی فیکٹریوں پر مشتمل تھی۔ بنیادی ڈھانچے میں صنعتی ترقی کے دیگر لوازمات مثلاً مالیاتی ادارے، ذرائع نقل و حمل، پیشہ ورانہ مہارتیں اور مربوط منصوبہ بندی وغیرہ کی سہولتیں بالکل ناپید تھیں۔ لہذا ملک کی صنعتی اساس بہت کمزور تھی۔ آزادی سے قبل ہندوستان میں بڑی بڑی صنعتوں کے کل 1063 کارخانے تھے جن میں سے صرف پچاس پاکستان کے حصے میں آئے ۔ ان کارخانوں کی پیداوار ملک کی خام پیداوار کا محض 2.2 فیصد تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ بڑی صنعت سے مراد ایسے پلانٹ یا پراجیکٹ ہیں جن میں بیس سے زائد مزدور کام کرتے ہوں اور وہ پلانٹ بجلی سے جلائے جاتے ہوں۔ ملک میں آج سر مایہ اور فی مہارتوں کی اس قدر کی تھی کہ ملک میں نہ تو ضروری بنیادی صنعتوں کے قیام کی اہلیت نظر آتی تھی اور نہ ہی سرمایہ کاری شعبہ میں زرمبادلہ کی کمی کے باعث ایک خاص حد سے زیادہ سرمایہ کاری کی گنجائش دکھائی دیتی تھی۔ ان حالات میں ملکی معیشت کی صنعتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے دو ادارے تشکیل دیئے گئے جو 49-1948ء قائم اور میں قائم کی جانے والی اقتصادی امور کی وزارت اور ایک ترقیاتی ضروری ہے وہاں ان صنعتوں کو تقویت پہنچانے اور انہیں مؤثر طریقے پر چلانے کیلئے مختلف مالیاتی اداروں اور فنی مہارتوں سے لیس مشاورتی اداروں کا قیام بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے اداروں کو چلانے کا وجود خاص طور پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں نہ صرف وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات محدود ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں تجربہ اور فنی مہارتوں کا بھی فقدان ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں پاکستان میں بنیادی صنعتوں کا فقدان تھا۔ وہاں مختلف سطح کے مالیاتی فنی ، مشاورتی اور انتظامی ادارے بھی تقریباً نا پید تھے۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ حکومت نے ان مسائل کے ٹھوس حل کے لئے کئی قسم کے ادارے قائم کئے۔ ان اداروں میں پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن بورڈ ہیں۔ ایک اقتصادی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
صنعتی شعبے سے متعلق اہم ادارے
کسی ملک میں صنعتی ترقی کیلئے جہاں زیادہ سے زیادہ کلیدی اہمیت کی صنعتوں کا قیام ضروری ہے وہاں ان صنعتوں کو تقویت پہنچانے اور انہیں مؤثر طریقے پر چلانے کیلئے مختلف مالیاتی اداروں اور فنی ا سے لیس مشاورتی اداروں کا قیام بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے اداروں کو چلانے کا وجود خاص طور پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں نہ صرف وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات محدود ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں تجربہ اور فنی مہارتوں کا بھی فقدان ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں پاکستان میں بنیادی صنعتوں کا فقدان تھا۔ وہاں مختلف سطح کے مالیاتی فنی ، مشاورتی اور انتظامی ادارے بھی تقریباً ناپید تھے۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ حکومت نے ان مسائل کے ٹھوس حل کے لئے کئی قسم کے ادارے قائم کئے۔ ان اداروں میں پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن پاکستان صنعتی قرضہ اور سرمایہ کاری کی کارپوریشن اور صنعتی ترقیاتی بینک پاکستان سب سے زیادہ اہم مہارتوں اور موثر کردار ادا کرنے والے ادارے ہیں۔
پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن
قیام پاکستان کے وقت مجموعی قومی پیداوار کا 22 فیصد بھی بڑی صنعتوں سے حاصل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور ، مایوس کن بات یہ ہے کہ ملک کی صنعتی ترقی کے لئے ، خاص طور پر نجی شعبے میں اتنی اہمیت نہ تھی کہ وہ جدیدفنی مہارتوں کو حاصل کرے اور اسے بروئے کار لاتے ہوئے کلیدی اہمیت کی صنعت کاری کرے اور ان صنعتوں کا مالیاتی اور فنی انتظام چلا سکے۔ ان مسائل کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ سرکاری شعبہ یہ ذمہ داری خود سنبھالے اور یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دس سالوں میں زیادہ تر صنعتی سرمایہ کاری اور انتظام سرکاری شعبے نے اپنے ذمہ لئے رکھا۔ اس سلسلہ میں کام کو مربوط طریقے پر چلانے کے لئے بنیادی ڈھانچے میں انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام 1950ء میں مکمل میں لایا گیا۔
اغراض مقاصد
کارپوریشن کا بنیادی کام ملک میں بڑی صنعتوں کا قیام اور ان کی ترقی کی رفتار تیز کرنا قرار پایا۔ ابتدائی طور پر جن چودہ قسم کی صنعتوں کو کارپوریشن کے سپر د کیا گیا ان میں سے چند نام یہ ہیں :
- بھاری انجینئرنگ پٹ کن
- کاغذی بورڈ اور نیوز پرنٹ
- جہاز سازی
- بھاری کیمیائی صنعت
- کھادیں
کارپوریشن کی ذمہ داری صرف ان صنعتوں کے قیام اور ترقی تک محدود رکھی گئی جبکہ ان کی ملکیت کارپوریشن کے سپرد نہیں کی گئی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں نجی سرمایہ دستیاب ہو وہاں نجی حصہ داروں کو زیادہ سے زیادہ اس میں شامل کیا جائے اور بتدریج حالات کے ساتھ ساتھ صنعتی ملکیت نجی شعبے کو ہی منتقل کر دی جائے۔ کار پوریشن کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ملک کے چند بڑے بڑے شہروں میں صنعتی ارتکاز کوحتی الامکان رو کے۔ صنعتوں کے قیام سے قبل ان کے بارے میں سائنسی فنی حقی اور مطالعاتی پروگرام بھی کار پوریشن کے سپرد ہوئے۔ صنعتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ ملک کے معدنی سمندری اور جغرافیائی ذرائع کی تلاش اور ان کا بھر پور استعمال بھی کارپوریشن کو تفویض کیا گیا۔ کارپوریشن کے ذمہ یہ کا بھی کیا گیا کہ وہ جہاں مناسب ہو حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے صنعتی شعبے کے خصص کی خرید و فروخت کرتی رہے تا کہ صنعتی سرمایہ کاری کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے۔
ارتقائی جائزہ
ابتدائی طور پر پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن 10 ملین روپے کے منظور شدہ سرمائے سے قائم کی گئی۔ یہ سرمایہ ایک ایک لاکھ روپے کے 100 حص پر مشتل تھا۔ مجوعی سرمایہ کا 8 لاکھ روپے پرمشتمل حصہ سرکاری سرمایہ کاری پرمشتمل تھا۔ 1962ء میں نئے آئین کے تحت صنعتوں کو مرکز کی بجائے صوبوں کی نگرانی میں دے دیا گیا چنانچہ کار پوریشن کو بھی دو نے امور کا انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس یونٹ نے مشرقی پاکستان کی صنعتوں کے امور کا کام سنبھالا ، اس کا نام “مشرقی پاکستان ” صنعتی ترقیاتی کا پروریشناور مغربی پاکستان سے متعلقہ یونٹ کا نام مغربی پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن رکھ دیا گیا۔ ہر دو یونٹوں کا منظور شدہ سرمایہ اس وقت دس دس ملین روپے تھا۔ بہر حال بنگہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان سے متعلقہ یونٹ نے پھر پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کی صورت اختیار کر لی۔ جس کا ادا شدہ سرمایہ 1978 کے اعداد و شمار کے مطابق 50 ملین روپے تک پہنچ چکا تھا۔ 1972ء میں حکومت نے 32 بڑے بڑے کارخانے قومی ملکیت میں لے لئے ۔ 1974ء میں کارپوریشن کے زیر انتظام چلنے والے کارخانے اور قومی ملکیت میں لئے جانے والے کارخانوں کو اپنی قسموں کے اعتبار سے اس مقصد کیلئے بنائی جانے والی دس کارپوریشنوں کے انتظام میں دے دیا گیا۔ پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن بھی انہی دس کارپوریشن میں سے ایک تھی۔ جن کا مشتر کہ انتظام ایک نے قائم شدہ بورڈ آف انڈسٹریل مینجمنٹ ابورڈ ک سپرد کردیا گیا۔ 1979 میں یہ اور بھی توڑ دیا گیا اورتمام کار پوریشنیں براہ راست وزارت پیداوار کے زیر انتظام دیدی گئیں۔
کارکردگی
کارپوریشن نے حکومت کی پالیسیوں کے مطابق وقتا فوقتا لگائی جانے والی تمام ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا ہے۔ دسمبر 1973 ء کے اختتام تک کارپوریشن 1242.6 ملین روپے کے سرمائے سے 52 مختلف منصوبے پائیے تحمیل تک پہنچا چکی تھی۔ جن میں سے مشین ٹول فیکٹری لانڈھی، ہیوی مکینیکل ٹیکسلا ، کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس، متعدد کھاد فیکٹریاں اور نمک اور کوئلے کی کانیں شامل ہیں ۔ 1978 ء کے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ مختلف فیکٹریاں کارپوریشن کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ جن میں چینی ، کپڑے، قدرتی گیس، اونی کپڑے وغیرہ کی ملیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 12 مزید پروجیکٹ اس کارپوریشن کے زیر انتظام مکمل ہو رہے ہیں۔ ان میں سوتی کپڑے، کاغذ، معدنیات اور لوہے کے کارخانے شامل ہیں۔
انتظامی ڈھانچہ
یہ کار پوریشن جس میں ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ لوگ ملازم ہیں، ایک چیئر مین، ایک فنانس ڈائریکٹر اور ایک پرمشتمل بورڈ کی زیرنگرانی کرتی اور ایک ڈائریکٹر پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹرز کی زیر نگرانی کام کرتی ہے جو حکومت کی جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں اپنی پالیسی مرتب کرتا ہے اور تمام کاروباری، مالی اور نظیمی فیصلے کرتا ہے۔
پس منظر
کو تقسیم برصغیر کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک میں تجارتی بینکوں کا ایک نظام قائم ہو چکا تھا اور کچھ مالی ادارے جن میں پاکستان کی صنعتی مالیاتی کارپوریشن شامل ہے، بھی معرض وجود میں آچکے تھے لیکن ان سب کی مالیاتی حیثیت اتنی مضبوط نہ تھی کہ یہ ملک میں صنعتی سرمایہ کاری کی ضرورت کو پورا کر سکتے کیونکہ پاکستان کی صنعتی مالیاتی کارپوریشن سمیت تمام بینک اور ادارے تھوڑی بہت سرمایہ کاری کی ضروریات کو غیرملکی کی علا پورا کر رہے تھے۔ جو محض مقامی کرنسی میں ہی ممکن تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کی صورت میں قرضوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس کے علاوہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہ تھا جو نئے ابھرنے والے سرمایہ کاروں کو ایسے مشورے فراہم کرتا جن کی بنیاد پر وہ بڑے بڑے نقصانات سے بچتے ہوئے ملکی پیداوار میں اضافہ کے لئے کوئی عملی قدم اٹھا سکتے ۔ چنانچہ سرمایہ کاری اور مشاورت کے اس خلاء کو پر کرنے کیلئے حکومت پاکستان اور عالمی بینک کے تعاون سے اکتوبر 1957ء میں صنعتی قرضے اور سرمایہ کاری کی کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 2001 ء میں نے گلف کمرشل بینک کو اپنے ساتھ ضم کر لیا اور اپنے گاہکوں کو تمام مالی لین دین کی سہولت پہنچانے کیلئے کمرشل بینک کے نام سے نیا ادارہ کھولا ۔
مالیاتی ڈھانچہ
یہ کارپوریشن تکنیکی لحاظ سے بھی شعبے کا ایک مالیاتی ادارہ ہے جس کا عمومی طریقہ کار ایک ترقیاتی بینک کا سا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کارپوریشن کا ادا شدہ سرمایہ 20 ملین روپے تھا جو 1963 ء تک دو گنا ہو گیا اور اس وقت 2008ء میں یہ 3000 ملین روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ آتھور ائزڈ سرمایہ 5000 ملین ہے۔ اس میں سے 63 فیصد حصہ پاکستان کے بھی سرمایہ کاروں اور کچھ مالیاتی اداروں کی ملکیت ہیں جبکہ باقی ماندہ 37 فیصد غیرملکی سرمایہ کاروں اور اداروں کے ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، جاپان اور جرمنی کے حصہ دار شامل ہیں ۔ حکومت پاکستان نے اس کارپوریشن میں براہ راست سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ قومیائے گئے بینکوں کے توسط سے کی ہے۔
دائرہ کار
اس کارپوریشن کے چیدہ چیدہ اور اہم کام درج ذیل ہیں ی کارپوریشن بھی بے میں منعی سرمایہ کاروں کو ر نے فراہم کرتی ہے۔ یہ قرضے جو مقامی اور غیرملکی کرسی میں ہوسکتے ہیں، بھی اور درمیانی مدت کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔
- یہ کارپوریشن سرمایہ کاری حصص کی خرید و فروخت کرتی ہے
- مختلف قرضوں کے لئے گارنٹی فراہم کرتی ہے
- مختلف صنعتی شعبوں میں لوگوں کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے
- مختلف صنعتی شعبوں کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے
- ملک کے نجی شعبہ کے لئے انتظامی اور فنی مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہے
پالیسی اور طریق کار
یہ کارپوریشن عام طور پر نجی شعبے کی ان صنعتوں کو خدمات فراہم کرتی ہے جن کے لئے خام مال ملک کے اندر ہی دستیاب ہو سکتا ہے اور جو زرمبادلہ کمانے یا بچانے میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہوں۔ رپوریشن اپنی سرمایہ کاری کی پالیسی میں تنوع رکھتی ہے یعنی یہ کی قسم کی صنعتوں اور مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری یہ کار پور کرتی ہے خاص طور پر پسماندہ علاقوں اور صنعتوں کو ترجیح دیتی ہے۔ کارپوریشن شن اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ نئے نئے سرمایہ کاروں اور آجروں کو ابھرنے کا موقع ملے۔ کارپوریشن کی سرمایہ کاری چون سرکاری پالیسوں سے مطابقت رکھتی ہے اس لئے یہ سرمایہ کاری کے لئے ایسی صنعتوں کا چناؤ کرتی ہے جو پاکستان کے صنعتی سرمایہ کاری شیڈول کے تحت آتی ہیں۔ قرضہ کے لئے دی جانے والی درخواست کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ پروجیکٹ کی پوری تفصیل دی جائے۔ درخواست کی حصول کے بعد کار پریش پر ایک کی چھان بین کے لئے ایک رنگ پارٹی کھیل ویتی ہے جس میں ایک مالیاتی تجزیہ کار یک صنعتی اجمیر اور ایک مارکیٹ ایمپورٹ شامل ہوتا ہے۔ یہ ورکنگ پارٹی منصوبے کا جائزہ لیتے وقت ، آجروں کی فنی صلاحیت، منصوبے کی کلیکی اور عظیمی امور ، سرمایہ کاری کی ساخت اور منصوبے کی متوقع پیداوار کا لیکی اور تومی نقطہ نظر سے جائزہ لیتی ہے۔ کی رقم 12 فیصد و اس مقصد کے لئے کارپوریشن درخواست دهندگان سے قرضہ کی رقم کا فیصد بطور فیس وصول کرتی ہے۔ غیر ملکی کرنسی کی شکل میں دیئے گئے قرضے پر 10.50 سے 11 فیصد سالانہ اور ملکی کرنسی کی شکل میں 8 سے 10 فیصد سالانہ سود وصول کیا جاتا ہے۔ قرضہ کی فراہمی کے بعد منصوبے کی انتظامی ذمہ داری کارپوریشن کے پاس نہیں ہوتی ۔ بہر حال کارپوریشن ہر ممکن طریقے سے اس بات کا انتظام کرتی ہے کہ قرضہ کا غیر پیداواری استعمال نہ ہونے پائے اور منصوب ٹھوس بنیادوں پر چلتا رہے۔ چنانچہ اور کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ کارپوریشن یہ بھی کرتی ہے کہ تمام غیر ملکی قرضوں سے کی جانے والی خریداری اپنی نگرانی میں کرائے اور غیر ملکی آلات وغیرہ کی ادائیگی خود کرے۔ قرضہ کے خواہش مند درخواست دہندگان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کارپوریشن کی درخواست کے ساتھ اپنے اثاثوں کی شکل میں ضمانت فراہم کریں۔ قرضے کے تحفظ کی خاطر کار پوریشن درخواست دہندگان سے بھی تقاضا کرتی ہے کہ وہ منصوبہ کے ایک بڑے حصے کے لئے خود بھی سرمایہ کاری کریں۔
پاکستان صنعتی ترقیاتی بینک
قیام پاکستان کے دو سال بعد یعنی 1949ء میں پاکستان کی نوزائیدہ صنعت کی سرمایہ کاری کی ضروریات پورا کرنے کا قیام عمل میں لایا کے لئے پاکستان مستی مالیاتی کارپوریشن گیا۔ اس کارپوریشن کے تین چھوٹے چھوٹے یونٹ، لاہور، ڈھا کہ اور چٹا گانگ میں مصروف عمل تھے۔ کارپوریشن کا دائرہ کار صرف پہلے سے قائم شدہ صنفی یونٹوں کی مالی معاونت اور قرضوں کی فراہمی تک محدود تھا اور قرضہ وغیرہ کی زیادہ سے زیادہ لمیٹڈ کمپنیوں کی صورت میں 15 لاکھ روپے اور دوسری کمپنیوں کی صورت میں 5 لاکھ روپے تھی ۔ 1961ء میں اس کارپوریشن کو پاکستان صنعتی ترقیاتی بینک کا نام دیا گیا۔
اغراض و مقاصد
جیسا کہ پہلے بتایا گیاہے کہ پاکسان صنعت مالیاتی کارپوریشن کی سرگرمیاں صرف پہلے سے قائم شدہ صنفی یونٹوں تک محدود تھی۔ کارپوریشن کو بیک میں تبدیل کرنے کے بعد اس ادارے کے فرائض میں یہ بات بھی ہی شامل کردی گئی کہ ٹی صنعتوں کے قیام کی غرض سے نئے صنعتکاروں کو بھی قرضہ فراہم کیا جائے۔ بینک کی پالیسی کے مطابق ایسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لئے قرضہ ترجیحی بنیادوں پر جاری کیا جاتا ہے جن کے لئے خام مال مقامی طور پر ہی مل سکتا ہو، جو درآمدات کا مقابلہ کر سکتی ہوں یا جو بر آمدات پیدا کرتی ہوں۔
مالیاتی ڈھانچہ اور کارکردگی
شروع کے چند سالوں میں بینک کا ادا شدہ سرمایہ 30 ملین روپے تک محدود تھا۔ جو 1978 ء کے اعداد وشمار کے مطابق بڑھ کر 50 ملین روپے تک تھی چکا ہے۔مجموعی طور پر بیک کے سرمایہ کی مالیت 1490 ملین روپے کے لگ بھگ ہے۔ 78-1977 ء کے مالی سال کے دوران بینک کی 150 ملین روپے کی آمدنی کے مقابلہ میں اخراجات 130 ملین روپے تھے اور اس طرح منافع تقریبا 20 ملین روپے کے لگ بھگ تھا۔ بینک کے مجموعی سرمائے کا 73.6 فیصد وفاقی حکومت اور بقایا صوبائی حکومتوں، سرکاری کارپوریشنوں اور بینکوں کی ملکیت ہے۔ بینک کی کارکردگی کا انداز و اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے قیام کے پہلے تین سال کے اندر اندر بینک کی طرف سے 462 منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاچکی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ بینک کی طرف سے سرمایہ کاری کے طفیل ہونے چار ہزار افرادکو روز گار کے مواقع میسر تھی ۔ 78-1977ء کے مالی سال کے دوران بینک نے تقریباً 61 منصوبوں میں سرمایہ ہیں۔ مختلف پراجیکٹس خلا پیک دودھ، ریڈیو، وائرلیس سیٹ، ماریل کا کام، کان کنی ، گرینائیٹ ایستک دھا گا ، PVC سمندری فشنگ پر بھی کام کر رہا ہے۔ سال 2008 ء کے اعداد وشمار کے مطابق ان جیسے پراجیکٹس کے ذریعے نے 100,000 سے زیادہ افراد کو روزگار کے مواقع دیتے ہیں اور ملک میں برآمدات کی صلاحیت میں 8 بلین سالانہ اضافہ کیا ہے۔ کے تحمیل شدہ پراجیکٹس کا زرعی تخمینہ 15 بلین سالانہ ہے۔ رمایہ کاری کی جبکہ اس سے پچھلے سال بھی 41 نظیمی ڈھانچے: بینک کے معاملات کی عمومی تنظیم اور نگرانی کا کام ایک بورڈ آف ڈائریکٹر سر انجام دیتا ہے۔ یہ بور ڈ ایک چیئر مین، ایک نیجنگ ڈائر یکٹر اور وفاقی حکومت کے نامزد کردہ پانچ دوسرے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا اداروں کے علاوہ صنعتی شعبے کے دوسرے اداروں میں پاکستان کی سرمایہ کاری کارپوریشن قومی سرمایہ کاری ٹرسٹ چھوٹے کاروبار کی مالیاتی کارپوریشن مساوی شمولیت کا فنڈاور چھوٹی صنعتوں کی قومی ترقیاتی شامل ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "ملکی ترقی میں صنعت کا کردار" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ