روزگار کی کیفیت

روزگار کی کیفیت پاکستان میں بے روزگاری کی صور تحال دو خصوصیات کی حامل ہے: شہری علاقوں میں کھلی بیروزگاری دیہی علاقوں میں نیم بے روزگاری بیرور گاروں کا تقریباً 64 فیصد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن کی عمر دس برس اور چوبیس برس کے درمیان ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو اسکول اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر روز گار ڈھونڈتے ہیں اور جب تک روز گار نہیں ملتا بے کار رہتے ہیں۔ گویا یہ بے روزگاری زیادہ تر کشمکشی نوعیت کی ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ زرعی شعبے میں مستور بیروزگاری ( ایسی بے روزگاری جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن در حقیقت موجود ہوتی ہے ) کافی زیادہ ہے۔ معاشی زبان میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی مختم پیداوار زرعی شعبے میں صفر ہے۔ زرعی پیشے میں اس قدر بیروزگاری کا ہی نتیجہ ہے کہ لوگ روزگار کی تلاش میں دیہات سے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح وہ مسائل جنم لے رہے ہیں جو شہروں میں آبادی کے اضافہ کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں یعنی مکانات کی فراہمی تعلیم وصحت کی سہولتوں کا مہیا کیا جانا، پانی اوربجلی کی فراہمی کے مسائل۔

روزگار کی کیفیت

افرادی قوت کی نقل مکانی

ملک کے اندر بیروزگاری کے مسئلہ نے جہاں ایک طرف آبادی کے دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی میں اضافہ کر دیا ہے وہاں بیرون ملک ہجرت میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی قومی آمدنیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ تیل کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان ممالک میں ترقیاتی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے ان ممالک کو مختلف قسم کے ہنر مند اور نیم ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی تعداد میں انجینئر پیشین اور دوسرے کارکن پاکستان اور دوسرے ممالک سے حاصل کئے ہیں گذشتہ برسوں کے دوران بیرون ملک جانے والے لوگوں کی تعداد برابر براحتی جارہی ہے۔ بیرون ملک ہنر مند افراد کی طلب میں نمایاں اضافہ کے پیش نظر حکومت پاکستان نے اپنے کارکنوں کی ملی تربیت کے بڑے پیمانے پر انتظامات کئے ہیں ۔ 1976ء سے 1980ء کی درمیانی مدت میں پچاس ہزار افراد کی فنی تربیت کا بندو بست کیا گیا اور اس مدت میں اس اسکیم کے تحت 16285 افراد نے ٹرینگ عمل کی۔ حکومت یہ کوشش بھی کر رہی ہے کہ موجودہ عملیکی تربیت کے اداروں کی تعد اور کئی کردی جائے۔

نقل مکانی کے اثرات

ملک سے باہر جانے والے افراد کی نقل مکانی نے ملی معیشت پر کی موافق اور غیر موافق اثرات مرتب کئے ہیں۔

موافق اثرات

بیرون ملک روزگار کے مواقع نے اندرون ملک بے روزگاری کے مسئلہ کی شدت کو کافی کم کر دیا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے افراد کثیر مقدار میں زرمبادلہ وطن بھیج رہے ہیں جو ملک کی ادائیگیوں کے توازن کے جو لوگ پیر دن ملک ہجرت کرتے ہیں انہیں ایک اجنبی ماحول میں رہنے اور کام کرنے کا موقعہ ملتا ہے، اس طرح ان خسارہ کو دور کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ حکومت نے با ہر کام کرنے والے لوگوں کو بہت سی ایسی ترغیبات دی ہیں جو انہیں ملک کے اندر روزگار بڑھانے والی صنعتوں کے قیام پر آمادہ کر سکیں۔ والی کے قیام پر جو میں خود اعتمادی اور روشن خیالی پیدا ہوتی ہے۔

غیر موافق اثرات

تعداد میں شرمند افراد کے سے کی ہے اور ( بڑی تعداد میں ہنر مند افراد کے باہر چلے جانے سے کئی شعبوں میں افرادی قوت کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں دقت پیش آرہی ہے۔ . بیرون ملک سے وافر مقدار میں ملک کے اندر آنے والی رقم یا تو سامان تعیش کی درآمد پر خرچ کی جارہی ہیں یا زمین اور جائیداد کی خرید پر خرچ ہو رہی ہیں، اس سے ان کی قیمتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس سوال کا اطمینانی جنم لیاری سے کیونکہ باہرکی ورک نے بعض کے معیارزندگی اس صورتحال سے سماجی بے اطمینانی بھی جنم لے رہی ہے کیونکہ باہر کی دولت نے بعض لوگوں کے معیار زندگی میں کردیا آنا فانا انقلاب برپا کر دیا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے اپنے وسائل سے تجاوز کر رہے ہیں جس سے وی بہت متاثر ہوری ہے۔ لیکن حکومت ان مسائل سے واقف ہے اور وہ مناسب ذریعہ ہے۔ یافتہ افراد کی کے تدابیر کے ذریعہ انہیں حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تربیت یافتہ افراد کی قلت دور کرنے کے لئے تربیتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جارہی ہے۔ نئے تربیتی ادارے قائم کئے جارہے ہیں اور زرمبادلہ کے بہتر استعمال کے لئے ی کار بہتر ہے۔ سے تربیتی ادارے قائم کیے جارہے ہیں اور زرمبادلہ کےبہتر استعمال کے لئے ہے نے تربیتی ادارے جارہے ہیں اور زرمبادلہ کے بہتر استعمال کے لئے بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ ملک میں صنعتیں قائم کریں تا کہ ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔

 مختلف پیشوں کے لحاظ سے روزگار کی کیفیت

مختلف پیشوں میں روزگار کے مواقع کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زرعی شعبہ میں برسر روزگار لوگوں کی بھاری اکثریت یعنی 71.7 فیصد لوگ کھتی باڑی، پرورش حیوانات ، جنگلات اور ماہی گیری کے شعبوں سے روزی کماتے ہیں اور 14.7 فیصد لوگ پیداوار ے متعلق دیگر کاموں سے پائر اسپورٹ سے یا پھر مزدوری کر کے روزی حاصلی کرتے ہیں ۔ شہری علاقوںمیں تقریبا 40 فیصد لوگ پیداوار اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ٹرانسپورٹ میں اور مزدوری کر کے روزی کھاتے ہیں ۔ اکنامک سروے 08-2007 میں ایک جائزہ سے چلتا ہےکہ زراعت اور حلقہ پیوں میں روزگار حاصل کیے والوں کا تاب 91-190ء میں 15 51 فیصد سے کم ہوکر 08-2007ء میں 43.61 فیصد ہو گیا کان کنی اور صحت سے تعلق کارکنوں کا تناسب 12.84 بعد سے بڑھ کر 13.65 فیصد ہوگیا اور میرات کے کارکنوں کا تناسب 6.36 فیصد سے بڑھ کر 156 یصد ہوگیا۔ بجلی نہیں اور پان سے متعلق کارکنوں کا تاب 0.59 فیصد سے بڑھ کر 0.79 فیصد ہوگیا اور ٹرانسپورٹ سے متعلق کارندوں کا تاب 1990 اور 2008ء کے درمیان 8 4 فیصد سے بڑھ کر 39 5 فیصد ہو گیا ۔

بیروزگاری کا حل

بیروزگاری اور نیم بے روز گاری پاکستان کے معاشی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں ۔ دیہی علاقوںمیں گھریلو اور چھوٹے پانے کی صنعتی بہت بڑی تعدادمیں لگائی جائیں تا کہ ان علاقوں کے محنت کش اپنے گھروں کے قریب ہی روزگار حاصل کر سکیں۔ زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جائے تا کہ زراعت پیشہ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہو اور وہ زیادہ بچت کر کے سرمایہ کاری پر خرچ کریں۔ والے کے کوسامان و  بیرون ملک کام کرنے والے افراد کے ارسال کردہ زرمبادلہ کو سامان تعیش کی درآمد کی بجائے اشیائے سرمایہ اور خام مال کی درآمد پر خرچ کیا جائے تا کہ ملک کی زرعی اور نعتی ترقی تیز رفتاری سے بڑھ سکے۔ کواپنے مختلف ترقیات کے ذریعہ ہی ان ملک کام کرنے والے لوگوں کو اپنے وطن میں صنعتیں قائم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ من حیث القوم سادگی کو اپنا یا جائے اور بے دریغ صرف دولت اور نمود و نمائش سے پر ہیز کیا جائے۔  محنت کش طبقے کو اس کا جائز حق ضرور دیا جائے تا کہ وہ قومی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔ جاذب محنت ٹیکنالوجی استعمال کی جائے ، اس سے روزگار کے مواقع میں وسعت پیدا ہوگی۔ ملک کے اندر افراط زر کی روک تھام کی جائے ، اس طرح ملکی کرنسی کی قیمت میں استحکام پیدا ہوگا اور قومی بچت کو فروغ ملے گا۔ برآمد کے لئے اشیاء بنانے والی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی زرمبادلہ کما کر اس سے اشیاء سرمایہ درآمد کی جاسکیں۔ ملک کے اندر اشیائے سرمایہ بنانے کی صنعتوں کا قیام زیادہ سے زیادہ تعداد میں عمل میں لایا جائے تا کہ قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ ملک کی تعلیمی پالیسی ملکی تقاضوں کے مطابق مرتب کی جائے جو ملک کے اندر جدید قسم کی ٹیکنا لوجی کو اپنانے میں مدد گار ثابت ہو اور قومی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کا موجب بنے۔  بیرونی امداد صرف پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کی جائے جس سے ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ خوف خدا، جذبہ حب الوطنی اور دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دے کیونکہ صرف اسی صورت میں قوم ہر شعبہ میں ترقی کر سکتی ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "روزگار کی کیفیت"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment