زری پالیسی کے آلات ⇐ پاکستان میں زری پالیسی کے آلات درج ذیل ہیں۔
شرح بینک میں تبدیلی
عام تجارتی بینکوں کی طرف سے پیش کردہ ہنڈیوں پر مرکزی بینک جس شرح سے کٹوتی کرتا ہے۔ اسے شرح بینک کہتے ہیں۔ پاکستان میں شرح بینک 1947 سے لیکر 1958 ء تک 3 فیصد رہی ہے۔ 1958ء سے لیکر 1965ء تک 4 فیصد رہی۔ یہ شرح بڑھتے بڑھتے 9 فیصد تک گئی مگر پھر اس میں کمی کر کے اسے 6 فیصد پر لایا گیا ہے ۔ آج کل 2008 ء میں شرح بینک 13 فیصد ہے۔ شرح بینک میں اضافہ سے قیمتوں میں استحکام کا مقصد پورا ہوا۔ کاروباری لوگ زیادہ شرح پر قرضے لینے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس طرح افراط زرور دنیا نہیں ہو پاتا اس کا اثر محدود ہوتا جاتا ہے۔ شرح بینک میں کمی سے سرمایہ کاری کے فروغ ” کا مقصد پورا ہوا ۔ شرح بینک میں کمی سے کاروباری لوگوں اور سرمایہ کاروں کو زیادہ قرضے لینے کی آسانی ہوئی اور اس طرح نئے کارخانے وجود میں آئے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا۔
شرح سود میں رد و بدل
عام تجارتی بینکوں میں عوام روپیہ جمع کرتے ہیں اور انہی سے قرضہ کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے عوام کی امانتوں پر دیئے جانے والے سود کی شرح میں اضافہ کیا تا کہ لوگوں میں بچت کرنے کی تحریک پیدا ہو۔ عام بچت اکاؤنٹ پر اب بینک 1/2-7 فیصد سود ادا کرتے ہیں۔ اس سے پیشتر یہ شرح 4 فیصد بھی رہی ہے۔ شرح سود میں اضافہ سے صرف میں کمی لانے کا مقصد پورا ہوتا ہے جبکہ شرح سود کم کر کے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
پی ایل ایس اکاؤنٹ
لوگوں میں بچتوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر اسٹیٹ بینک نے عام بچت اکاؤنٹ کے علاوہ ایک نیا اکاؤنٹ اکاؤنٹ کے نام سے قائم کیا ہے جس میں امانتدار بینک کے منافع اور نقصان دونوں میں برابر کا شریک رہتا ہے۔ ہمارے بیٹوں کی 81-1980 کی کارکردگی کا اظہار یوںہوا کہ پی ایل ایس اکاؤنٹ پر سود کی بجائے 8 سے 9 فیصد تک منافع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ میں کم و بیش 21/2 ارب روپیہ جمع کرلیا گیا تھا۔ پی ایل ایس اکاؤنٹ کی بدولت زری پالیسی کا مقصد نمبر یعنی بچتوں کی حوصلہ افزائی پورا ہوا ہے۔
زرضمانت میں کی با بیشی
قانونی طور پر پاکستان کے تمام تجارتی بینک اپنی امانتوں کا کچھ فیصد اسٹیٹ بینک کے پاس لازما رکھواتے ہیں تا کہ اگر زری پالیسی پر عملدرآمد کے بارے میں تجارتی بینکوں کی طرف سے عمداً کوتاہی کی جائے تو ان امانتوں کو سبق سرکار ضبط کر لیا جائے۔ نیز اسٹیٹ بینک میں امانتوں کی موجودگی سے زیر گردش زر کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے زرضمانت کی کرلیا نیز نیز کی سے زیر ہو شرح 1947ء سے 1963 ء تک 2 فیصد تھی ۔ 1963ء سے 1967ء کے دوران یہ شرح 5 فیصد ہوگئی۔ اس کے بعد 61/2 فیصد ۔ اور پھر کھا کر فیصد کر دی گئی۔ رمضانت بڑھانے سے زری پالیسی کا مقصد نبر 1 ( قیمتوں میں استحکام حاصل ہوا اور اس کی زرضمانت سے زری ہوا شرح گھٹانے سے مقصد نمبر 3 ( یعنی سرمایہ کاری کا فروغ) کے حصول میں مدد ملی۔
تجارتی جنگ اپنی شاخوں میں اضافہ کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک سے اجازت لیتے ہیں
اسٹیٹ بینک علاقے کی صنعتی، زری اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر میکوں کو شاہیں کھولنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اجازت دیتے وقت اسٹیٹ بینک اس بات کا لحاظ رکھتا ہے کہ تمام بینکوں کی شاخیں ایک ہی علاقے پر مرکوز نہ ہو جا ئیں اور یہ بھی کہنتی برانچیں ان علاقوں میں قائم کی جائیں جہاں پہلے یہ شاخیں موجود نہیں ہیں۔ زری پالیسی کے اس طریقہ کار کے ذریعے زری پالیسی کا مقصد نمبر 5 ( علاقائی عدم توازن کی اصلاح) پورا ہوا۔ نئی شاخیں کھلنے یا ان کی پہلے سے زیادہ تعداد ہو جانے کی بناء پر نہ صرف بچتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ قرضوں کی تقسیم زیادہ منصفانہ ہو گئی۔
زراعت کیلئے خصوصی قرضے
پاکستان میں زری پالیسی کا ایک آلہ یہ بھی ہے کہ زراعت کیلئے اسٹیٹ بینک نے قرضوں کا اہتمام کیا ہے۔ قومی ملکیت میں آنے سے پیشتر تجارتی بینک زیادہ تر نعت یا بھر پور تجارت کے لئے قرضے جاری کرتے تھے۔ زراعت کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ زری ملک ہونے کے باوجود ہم زرعی طور پر خودکفیل نہ تھے۔ اسٹیٹ بینک نے زرعی پالیسی کے تحت یہ انتظام کیا کہ ہر بینک کو زرعی قرضے جاری کرنے کیلئے خصوصی کاؤنٹر کھولنے کی تاکید کی۔ ان بینکوں کے ذریعے قرضے کی فراہی کا شتکاروں کیلئے آسان ہوگئی ۔ 79-1978ء میں ان بینکوں نے قریبا دو ارب روپے کے زرعی قرضے دیئے ۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے زراعت کی سر پرستی کیلئے خصوصی طور پر قائم شدہ زرعی ترقیاتی بینک کو بھی قرضوں کی فراہمی آسان بنانے کیلے حکم دیا۔ زرعی ترقیاتی بینک اب گھر گھر جا کر بھی کا شتکاروں کو قرضے دیتا ہے۔ 08-2007ء میں اس بینک نے قریبا 39561.17 ملین روپے کاشتکاروں کو قرضہ دیا۔ زری پالیسی کے اس آلہ کے ذریعے پالیسی کا مقصد نمبر 3 اور 5 بخوبی حاصل ہو گیا۔ یعنی سرمایہ کاری کو فروغ نصیب ہوا اور علاقائی عدم توازن کم ہو گیا۔
بر آمدات کیلئے خصوصی شرح سود پر قرضے کی فراہمی
توازن ادائیگی کی درستی ہمارے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایک طرف تو درآمدات میں کمی کی جائے اور دوسری طرف برآمدات میں اضافہ کیا جائے ۔ بین الاقوامی منڈی میں ہماری برآمدات کو سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقابلے کے علاوہ دوسرے ملکوں کی طرف سے ہماری برآمدات پر عائلہ ہونے والی پابندیوں نے بھی ہمارے لئے زر مبادلہ کی کمائی میں اضافہ مشکل بنا دیا ہے۔ اس کا حل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ دریافت کیا ہے کہ برآمد کنندگان کو خصوصی رعایتی شرح پر تجارتی بینکوں سے قرضے فراہم کئے جائیں۔ اس سکیم کا نام ہے۔ اس اسکیم کے تحت صفر شرح پر سٹیٹ بینک تجارتی بینکوں کو قرضے فراہم کرتا ہے جنہیں وہ صرف برآمد کنندگان کو قرضے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ برآمد کنندگان سے یہ بینک صرف 3 فیصد سود وصول کرتے ہیں جبکہ تجارتی بینکوں سے عام قرضے پر 14 فیصد سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ برآمد کنندگان کو قرض کی تمام رقم دراصل اسلیٹ بینک ہی مہیا کرتا ہے۔ اس طرح زری پالیسی کے تحت برآمد کنندگان کو عام شرح سود سے 11 فیصد کم شرح پر قرضہ مل جاتا ہے۔ اس اقدام سے زری پالیسی کا مقصد نمبر 6 پورا ہوتا ہے اور زرمبادلہ کی کمائی کو تقویت ملتی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "زری پالیسی کے آلات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ