زر اعتبار کا پھیلاؤ ⇐ تجارتی بینکوں کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ ان کے منافع کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ لوگوں کی طرف سے جمع کرائی ہوئی امانتوں کو کسی رفتار سے قرضوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئینی طور پر امانت کا ایک خاص تناسب ، نقد حالت میں رکھ کر باقی امانتیں بطور قرض چلا دیتے ہیں۔ اس طرح قرضوں کی مالیت ، امانتوں کی مالیت سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر امانتوں کا 23 فیصد بطور زر محفوظ رکھنا ضروری ہو تو 100 روپے کی امانت سے 500 روپے کا زر اعتبار پیدا ہوتا ہے۔
پھیلاؤ کے اثرات
زراعتبار کے وسیع ہونے سے بیگوں کو فائدہ پہنچا ہے کیونکہ اس طرح ہر قرضہ جو پیدا ہوتا ہے، بینکوں کا ذریعہ آمدنی بنتا ہے تجارتی بینکوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زر محفوظ کی شرح کم سے کم ہو جائے تا کہ منافع کے امکانات بڑھ جائیں مگر زر اعتبار کے پھیلاؤ سے افراط زر کا مسئلہ رونما ہوتا ہے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر زرا تبار کی مقدار مناسب حدود میں رہے تو یہ کاروباری سرگرمیوں کے فروغ اور معاشی ترقی کے پھیلاؤ کی دلیل ہوتی ہے مگر جب یہی مقدار جائز حدود سے تجاوز کر جائے تو مرکزی بینک پر لازم آتا ہے کہ اسے کنٹرول کرے۔ ہمارے ہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان زرا اعتبار کو کنٹرول کرتا ہے۔
پاکستان میں زراعتبار
پھیلاؤ کی وجوہات
پاکستان میں زراعتبار کے پھیلاؤ کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
کرنسی کا پھیلاؤ
پاکستان میں زیر گردش کرنسی کی مقدار ہمیشہ سے بڑھتی چلی آئی ہے۔ 1950ء میں اس کرنسی کی مقدار 2 ارب روپے تھی ۔ جو 2008 ء میں 982001 ملین روپے ہوگئی۔ کرنسی کی مقدار میں اضافہ سے بینکوں کی امانتیں بڑھ گئیں جن کے سبب زراعتبار کی مقدار میں پھیلاؤ پیدا ہوا۔
امانتوں میں اضافہ
پاکستان میں عوام اور کاروباری حلقوں کی طرف سے بینکوں میں جمع کرائی ہوئی امانتوں کی مقدار بڑھتی گئی ہے۔ امانتوں میں اضافہ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ کے سبب واقع ہوا۔ بینکوں میں جمع شدہ امانتوں کی مالیت 1950ء ایک ارب روپیہ تھی جو 2008ء میں بڑھ کر 3422237 ملین روپے ہوگئی۔ ان امانتوں سے زراعتبار میں اضافہ ہوا۔
کاروباری سرگرمیاں
پاکستان کے قیام سے اب تک نئے نئے کاروبار قائم ہوئے ۔ پرانے کاروبار وسیع ہوئے۔میں اور باری کی طرف میں سوا پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی واقع ہوئی۔ اس تیزی کی بدولت بینک بھی زیادہ رقومات قرض دینے پر مجبور ہوئے ۔ 1950ء میں بینکوں کی طرف سے دیئے جانے والے قرضوں کی مالیت 46 کروڑ روپے تھی جو 2008 ء میں 2850891 ملین روپے ہوگئی۔
سرمایہ کاری میں اضافہ
1947 ء سے اب تک پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ 70-1969ء میں مجموعی سرمایہ کاری کی مالیت قریباً 7 ارب روپے تھی ۔ 2007ء میں بڑھ کر 300145 ملین روپے ہوگئی۔ سرمایہ کاری کے مواقع میں کثیر اضافہ کی بدولت زر اعتبار میں پھیلا و پیدا ہوا۔
زیر اعتبار پرکنٹرول
پاکستان میں زراعتبار کو غیر ضروری طور پر پھلنے سے روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک کنی اقدامات کئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
شرح بینک کی پالیسی
اسٹیٹ بینک نے شرح بینک میں اضافہ کر کے زر اعتبار کو پھلنے سے روکا ہے۔ اس وقت 2008 ء سے شرح بینک 13 فیصد ہے۔ 1947ء میں یہ شرح تین فیصد تھی ۔ شرح بینک میں اضافے سے ہنڈیوں اور سرکاری کھاتوں وغیرہ کو قدر تم میں تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور زراعتبار وسیع نہیں ہو پاتا۔
کھلے بازار کا عمل
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا یہ فرض ہے کہ جب زر اعتبار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو ہنڈیوں کی براہ راست فروخت کا انتظام کرے۔ ہنڈیوں وغیرہ کی فروخت سے نقد سرمایہ پہنچ کر بینک کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح زیر گردش کرنسی کی مقدار کم ہو جانے سے زر القبار پر بھی مطلوبہ اثر پڑتا ہے۔
زر محفوظ کی شرح میں تبدیلی
اسٹیٹ بینک نے تجارتی بینکوں کواس بات کا پابند بنایا ہوا ہے کہ ہ اپنی معیاری اور دوسری ا کے پاس رہیں۔ اس شرح میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ 2008ء میں یہ 5 ہے۔ امانتوں کا کچھ حصہ اس کے پاس رکھیں۔ اس شرح میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ 2008ء میں یہ شرح 5 فیصد ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ شرح 2 فیصد تھی ۔ اس شرح میں اضافہ سے بینکوں کی قرضے دینے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اور زراعتبار کی مقدار محدود ہو جاتی ہے۔
نقدیت کی شرح
قانونی طور پر بینک اس بات کا پابند ہے کہ وہ امانتوں کا مخصوص حصہ اپنے پاس ہر حالات میں نقد شکل میں رکھے اور باقی رقم بطور قرضہ استعمال کرے گا۔ اس شرح میں اضافہ سے بینکوں کے پاس نقد سرمایہ کی مقدار سکڑ جاتی ہے جس کے ذریعے وسیع پیمانے پر قرضہ جاری کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔
متفرق اقدامات
اسٹیٹ بینک تجارتی بینکوں کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ غیر پیدا اور مقاصد کیلئے قرضے جاری نہ کریں۔ ان پر یہ بھی پابندی ہوتی ہے جس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ان اقدامات سے بھی زر اعتبار کوکنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے فرائض
ہر ملک کا ایک مرکزی بینک ہوتا ہے جو اس ملک کے نظام زر کو کنٹرول کرتا ہے اور اسے محکم بنیادوں پر رواں دواں رکھتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کا نام ” اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ یہ بینک کیم جولائی 1948ء کو معرض وجود میں آیا۔ اس کا افتتاح بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں سے ہوا ۔
انتظام
اسٹیٹ بینک کا انتظام ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سپرد ہے۔ بینک کے تین اہم شعبے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ذیل ہیں ۔
شعبہ اجراء
یہ شعبہ نوٹ جاری کرتا ہے۔ نوٹوں کی پشت پناہی کے لئے یہ شعبہ 30 فیصد سونا، چاندی اور نہ ہی اور زر مبادلہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔
شعبہ بینکاری
یہ شعبہ تجارتی بینکوں کے 3 شعر زرمبادلہ : یہ شعبہ کے حصول ، تحفظ اور تقسیم کا کام کرتا ہے۔ برآمدات کے بدلے حاصل کیا ہو از رمبادلہ نہیں کام کی نگرانی کرتا ہے اور قرضوں کے لین دین کے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔
حکومت کا بینک
وفاقی حکومت کے مالی معاملات نمٹانے کی ذمہ داری اس بینک کے سپرد ہے۔ حکومت کے لئے عوام اور دوسرے اداروں سے قرض لیتا اور واپس کرنا اس بینک کا کام ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی بھی یہی کرتا ہے۔ سرکاری ٹیکسوں کی وصولی کا فریضہ بھی اسی کے ذمے ہے۔ حکومت کی امانتوں کی حفاظت کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ 2
بینکوں کا بینک
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ملک میں زر اعتبار کی مقدار بڑھانے اور گھٹانے کا ذمہ دار ہے۔ اس مقصد کے لئے دو عام تجارتی ٹینکوں کے لئے ایک پالیسی وضع کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد کراتا ہے۔ عام بینکوں کو اپنی پالیسی کا پابند بنانے کے لئے اسٹیٹ بینک ان سے ان کی امانتوں کا 5 فیصد نقد شکل میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ عام بینکوں کے لئے شرح سود کا تعین کرنا اور ان کی طرف سے ہنڈیوں پر بٹہ لگانے کی شرح کا اعلان کرتا، اسٹیٹ بینک کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکوں کو مختلف علاقوں میں برانچیں کھولنے کی اجازت بھی اسٹیٹ بینک ہی دیتا ہے۔
نوٹ جاری کرنے کا واحد ادارہ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ملک میں کرنسی نوٹ اور سکے جاری کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ یہ اختیار کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ جتنی مالیت کے نوٹ اس بینک کی طرف سے جاری ہوتے ہیں، ان کے پس پشت 30 فیصد سونا، چاندی یا زرمبادلہ یقینا محفوظ رکھا جاتا ہے یہ جینک دس، پچاس ہو، پانچ سو، ہزار اور پانچ ہزار کے نوٹ جاری کرتا ہے۔
زرمبادلہ کا محافظ
پاکستان کے روپے کی بیرونی قیمت حکومت مقرر کرتی ہے۔ اس قیمت کو برقرار رکھنا اسٹیٹ بینک کا کام ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ بینک زر مبادلہ کے ذخائر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ کوئی بھی شہری جو زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اسے وہ اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کرانا پڑتا ہے۔ یہی بینک درآمدات اور دوسرے مقاصد کے لئے زر مبادلہ کو خرچ کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ یہ بینک مختلف کرنسیوں کی خرید و فروخت بھی کرتا ہے تا کہ روپے کی سرکاری قیمت مستحکم رہے۔
بازار زر کا ناظم
اسٹیٹ بینک بازار زر کے ناظم کے طور پر بھی فرائض انجام دیتا ہے۔ ملک میں افراط زر اور تفریط زر جیسے حالات پر قابو پانے کے لئے مختلف پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کی ذمہ داری بھی اسی بینک پر ہے۔ کسی بھی ملک کے زر اعتبار کا غیر ضروری پھیلاؤ اور اس میں غیر ضروری تخفیف معاشی لحاظ سے غیر پسندیدہ کبھی جاتی ہے، اس لئے ان دونوں حالات کو قابو میں لانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ کام اسٹیٹ بینک کے فرائض کا حصہ ہے۔
معاشی استحکام پیدا کرنا
معاشی نشیب و فراز سے بچا کر ملک کو محکم بنیاد فراہم کرنا اسٹیٹ بینک کے فرائض میں شامل ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے وہ زرعی اور صنعتی شعبوں کی متوازن ترقی کا انتظام کرتا ہے اور انہیں ضرورت کے مطابق قرض فراہم کرتا ہے۔ قرضوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور غیر پسندیدہ استعمال کے تدارک کے لئے یہی بینک قدم اٹھاتا ہے۔
تربیت کا انتظام کرنا
تجارتی بینک ہی کھلی منڈی میں بچتوں، سرمایہ کاری اور قرضوں کی فراہمی اور استعمال کا انتظام کرتے ہی اور ہیں بینکوں کو ان مخصوص شعبوں کا کاروبار چلانے کے لئے تربیت یافتہ افسران اور عملہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک ان بینکوں کیلئے مطلوبہ معیار کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔
ترقیاتی کاموں کی انجام دہی
اسٹیٹ بینک ملک کے معاشی نظام کے لئے ترقیاتی کام بھی انجام دیتا ہے۔ زرعی صنعتی تعمیر مکانات اور سرمایہ کاری کے خصوصی امور کے لئے مختلف اداروں کا قیام اسٹیٹ بینک کے فرائض میں شامل ہے۔ اب تک اس بینک نے کئی ایسے ادارے قائم کئے ہیں اور ان کے کاموں کی نگرانی بھی کی ہے جو خصوصی شعبوں میں قرضے کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں۔ مثلا ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن و سرمایہ کاری کی کارپوریشن اور زرعی ترقیاتی بینک وغیرہ۔
بچتوں کو فروغ دینا
ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارے وسائل محدود اور ضروریات لامحدود ہیں۔ مختلف پروجیکٹوں سے اور ترقیاتی کاموں کے لئے سرمایہ کی قلت پر قابو پانے کیلئے اسٹیٹ بینک عوام میں بچتوں کو فروغ دینے کے لئے کام کرتا ہے۔ بچتوں کی ترقی کیلئے وسیع تر بنیادوں پر شہیر اور تلی کا انتظام اسی بینک کے سپرد ہے۔
اسٹیٹ بینک کا ترقیاتی کردار
ذیل میں ان امور کا جائزہ ہے جو سٹیٹ بینک کے ترقیاتی کام کہلاتے ہیں ۔
ابتدائی دشواریوں کا مقابلہ کرنا
قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس نہ اپنی کرنی تھی، نہ اپنا مرکزی بینک اور نہ نظام بیکاری کمپری کے ایسے عالم میں اسٹیٹ بینک کا قیام قائد اعظم کی زندگی کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ اس بینک نے اپنے قیام کے ساتھ ہی ان تمام مسائل پر قابو پانے کا آغاز کردیا جکسی بھی ملک کو ابتدا در پیش ہوتے ہیں ۔ اس بینک نے تجارتی بیٹوں کے قیام اور پھیلاؤ میں مددی۔ اس بینک کے ذریعے بیر کا کاروبار قائم ہوا اور اس میں وسعت پیدا ہوئی ۔ اسٹاک اینچ کی تشکیل اور توسیع میں اس بینک نے بنیادی کام انجام دیا۔ ان مختلف اداروں کے قیام سے پاکستان میں بچت اور سرمایہ کاری کے لئے موزوں قضاء قائم ہوئی جس سے تجارت، زراعت اور صنعت کے شعبوں نے فائدہ اٹھایا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی نازک معاشی حالات میں اسٹیٹ بینک نے ہی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ اور باقی مانده پاکستان کو دوبارہ معاشی استحکام بخشا۔
مالی منڈی کا قیام
قیام پاکستان کے وقت ملک میں مالی منڈی موجود نہیں تھی۔ اسٹاک ایچینج کے نہ ہونے سے قرضوں کی فراہمی اور حصص کی خرید و فروخت کے سلسلے میں دشواریاں پیش آرہی تھیں ۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لئے اسٹیٹ بینک نے 1949ء میں کراچی میں پہلی مالی منڈی قائم کی۔ دوسری منڈی کا قیام لاہور میں 1971ء میں عمل میں آیا۔ ان مالی منڈیوں کے کاروبار میں با قاعدگی پیدا کرنے کی غرض سے دو مزید ایجنسیاں وجود میں لائی گئیں، ایک کا نام سیکیو رٹیز اینڈ ایم پیچ اتھارٹی آف پاکستان ہے اور دوسری کا نام کنٹرولر آف کیپٹل ایشوز ہے ۔ 2008 ء تک پاکستان میں رجسٹرڈ جائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی تعداد 5400 سے تجاوز کرگئی تھی۔ اور صرف کراچی اسٹاک اینچ میں جن کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت ہو رہی تھی ، ان کی تعداد 762 سے زائد تھی۔
مخصوص قرضہ جاتی اداروں کا قیام
تجارتی بینک زیادہ تر تجارت پیشہ لوگوں کو ہی قرضہ دینے پر اکتفا کرتے تھے۔ اسٹیٹ بینک نے باقی شعبوں کی حق تلفی محسوس کرتے ہوئے ان کیلئے مخصوص مقاصد رکھنے والے قرضہ جاتی ادارے تشکیل دیئے، مکانات کی تعمیر ومرمت کیلئے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ، سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے انویسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان صنعتوں کو قرض مہیا کرنے کے لئے صنعتی ترقیاتی بینک آف پاکستان صنعتی اداروں کو زرمبادلہ کی شکل میں طویل مدت قرضوں کی فراہمی کیلئے صنعتی قرضہ سرمایہ کاری کی کارپوریشن وغیرہ قائم ہوئے، ان اداروں کے قیام سے مختلف شعبوں کو قرنے کی فراہمی آسان ہوگئی۔ ان صنعتوں اور شعبوں کے قائم ہونے سے روزگار، پیداوار، آمدنی اور سہولتوں میں اضافہ ہوا۔ ان امور میں اضافہ سے معاشی ترقی رونما ہوئی۔
زرعی قرضوں کا خصوصی اہتمام
ہمارا ملک 60 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک زرعی معیشت میں شمار ہوتا ہے۔ ہماری قومی آمدنی میں 20.9 فیصد حصہ اب بھی زرعی آمدنیوں اور پیداوار کا ہے۔ اس شعبہ سے آبادی کے کثیر حصے کا وابستہ ہونا ایک اہم عصر ہے۔ زراعت جیسے اہم شعبہ کی ترقی کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ ایک طرف زرعی ترقیاتی بینک آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو دوسری طرف تمام تجارتی بینکوں کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ زرعی قرضے کی فراہمی کے سلسلے میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ قرضے کا شتکاروں کو بروقت دستیاب ہو جائیں۔ زرعی شعبہ کی مجموعی بہتری کیلئے کئی دیگر اقدامات بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زیر نگرانی اٹھائے گئے مثلاً چاول کی برآمدی کارپوریشن اور کپاس کی برآمدی کارپوریشن اور ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن نیوب دیل کارپوریشن ، وغیرہ کا قیام اور زراعت سے وابستہ لوگوں کو مختلف قرضہ جاتی اداروں نے جو قرضے دیئے ان کی تفصیل یوں ہے:۔
- زرعی بینک نے 08-2007ء کے دوران 3956117 ملین روپے کے قرضے دیئے
- عام تجارتی ٹینکوں نے 08-2007 ء کے دوران 65124.83 ملین روپے کے قرضے دیئے
- پنجاب صوبائی کار پوریٹر بینک نے 08-2007 ء کے دوران 3935.16 ملین روپے کا قرض دیا
تربیت کی سولت
قیام پاکستان کے وقت بینکوں کی داغ بیل ڈالی جائے گی تو تربیت یافتہ حملے کی شدید کی لاحق ہوئی ۔ اس مسئلے کو اسٹیٹ بینک نے مل کیا۔ اسٹیٹ بینک نے تجارتی بیٹوں کو حملہ خود بھرتی کرنے کیلئے کہا اور ان کو تربیت دینے کی ذمہ داری خود سنبھالی۔ بینکاری کے مختلف شعبوں میں مستعد نو جوانوں کو تربیت دینے کا ادارہ کراچی میں قائم ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری کم ہوتی گئی اور ہر ایک تجارتی بینک نے اپنے تربیتی ادارے کھول لئے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تمام بڑے تجارتی بینکوں کے تربیتی ادارے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ اعلیٰ تربیت کے سلسلے میں یہ بینک بھی اسٹیٹ بینک کی خدمات حاصل کرتے۔
بچت کی عادت کے لئے پلبستی
ہمارے ملک کے لوگوں میں فضول خرچی کا بہت رواج ہے۔ صرف کی حد بڑھی ہوئی ہونے کے سبب بچت کی عادت بہت کم ہے۔ ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے روپے کی کمی لاحق ہوتی رہی ہے۔ اس کی پر قابو پانے کیلئے اسٹیٹ بینک نے ملک بھر میں بہت کی عادت ڈالنے کی مہم کا آغاز کیا۔ عوام میں بچت کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ایک و پلینی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ جو بچت کے لئے یا دن مناکر سیمینار منعقد کر کے اور تقریری پمفلٹ جاری کر کے عوام میں نیت کی عادت راسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
افراط زر کی روک تھام
پاکستان میں آبادی میں اضافہ، زر کی مقدر میں تو کتنا منافع خوری کی روش اور دوسرے قومی اور عالمی نوعیت کے اسباب کی بناء پر افراط زر کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ہر سال یہ مسئلہ زیادہ اہم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بڑھتی ہوئی گرانی پر قابو پانے میں بھی مددی ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے اس بینک نے شرح بینک میں اضافہ کیا ہے۔ بیٹوں کی زیادہ امانتیں اپنے پاس رکھنی شروع ک ہیں اور زیر گردش ز کو تلف طریقوں سے محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "زر اعتبار کا پھیلاؤ" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ