مصنوعی پیسٹ ⇐ تیسرے قسم کے گروپ میں ایسی تمام اقسام کی بیسٹ شامل ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء میں بغیر ضرورت کے خمیر اٹھا دیتی ہیں جس کی وجہ سے کھانے میں عجیب قسم کی خوشبو اور ذائقہ پیدا ہو جاتا ہے اور کھانے کو بد ذائقہ بنا دیتی ہے۔ اس قسم کی بیسٹ عموما لکڑی کے گودے اور برادے اور اسی طرح کی دوسری اشیاء جو اس کو غذائیت فراہم کرنے میں فائدہ مند ہوتی ہیں پر نشو نما پاتی ہیں۔
مولڈز پھپھوندی
یہ شاخوں والے جراثیم کئی خلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان شاخوں کو فلامینٹ کہتے ہیں اور ایک شاخ کو ہا یا جبکہ بہت سی شاخوں کو ما تسلیم کہتے ہیں۔ مولڈز کے مائیکسلم آپس میں مل کر بڑی بڑی کالونیاں بناتے ہیں جو کہ عام آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ آپ نے گیلی سطح کے ارد گرد کائی کی شہ دیکھی ہوگی ۔ یہ انہی مختلف قسم کے مولڈز کی کالونیاں بنی ہوتی ہیں۔ ان کالونیوں کی سطح ایک فرکی شکل میں ہوتی ہے۔ مولڈ زپانی کے ذریعے اور ہوا کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ عام آب و ہوا میں بھی بڑی خوشی سے پرورش پاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تمام غذائیں جو ہوا میں کھلی یا کچھ عرصہ بند پڑی رہتی ہیں ان غذاؤں پر یہ مولڈ ز ایک جالے کی شکل بنا دیتے ہیں۔ جسکو عام زبان میں اولی کہا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مربے اور اچار کو اگر ذرا دھیان سے نہ رکھا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اور اس پر ہلکے سبز یا سیاسی مائل رنگ کا جالا پڑ جاتا ہے ۔ وہ جالا انہی مولڈز کی وجہ سے ہوتا ہے۔
خورد نامیوں کی پرورش میں مدد دینے والے عوامل
خیال رہے کہ ان جراثیم سے نجات حاصل کرنا مشکل نہیں لیکن اگر ان سے بچاؤ کی تدابیر نہ کی جائیں تو یہ بڑی تیزی کے ساتھ پرورش پاتے رہتے ہیں اور ایک خاص قسم کے سازگار ماحول تلاش کر کے اپنی تعداد کو بڑھاتے ہیں ۔ سازگار ماحول سے یہاں ہماری مرادان عوامل سے ہے جو ان خوردنامیوں کے بڑھنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں ۔
خوراک
تمام خوردنامیوں کو زندہ رہنے اور نشو و نما پانے کیلئے اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خوراک کے ذریعے یہ اپنے لئے قوت و توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ان جراثیم کو ایک گروہ کی صورت میں دیکھا جائے تو ان کو انسان کی طرح مختلف اقسام کی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بیکٹیر یا جس غذا کو استعمال کر کے تیزی سے بڑھتے ہیں وہ گوشت اور دودھ ہے۔ جہاں ان کو گوشت اور دودھ ملا یہ اس قسم کی خوراک پر فوراً حملہ آور ہوتے ہیں۔ لہذا عام حالات میں گوشت اور دودھ کو بیکٹیریا سے بچانے کی تدبیر لازم ہوتی ہے۔ گوشت اور دودھ کی نسبت تیکھن اور روٹی کو بیکٹیر یا اپنے استعمال میں لانا زیادہ پسند نہیں کرتے ۔ جہاں تک مولڈز اور بیسٹ کا تعلق ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ جراثیم ڈبل روٹی یعنی نشاستے والی اشیاء پر زیادہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ لندا غذائیت کے لحاظ سے بیکٹیریا کی من پسند غذائی جز و پروتئین ہے۔ اگر چہ اس کو زندہ رہنے کیلئے اور دوسرے غذائی اجزاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح مولڈز اور بیسٹ کو کاربو ہائیڈ رئیس والی غذا میں زیادہ پسند ہوتی ہیں جن سے یہ نشو و نما پانے کیلئے قوت اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔
پانی نمی
تمام خوردنامیوں کو زندہ رہنے اور اپنی خوراک کو جسم میں استعمال کرنے کیلئے دوسری جاندار پانی چیزوں کی طرح پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک پانی کے استعمال اور پانی کے اخراج کے درمیان توازن رہتا ہےتو یہ جراثیم زندہ رہتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے تو خوردن میوں کا زندہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر چہ بیکٹیریا اپنے جسم کے اندرتو یہ پانی زیادہ استعمال نہیں کرتے لیکن اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک خاص مقدار میں لی پسند کرتے ہیں ۔ اردگرد کے ماحول میں اگر یہ پانی برف کی صورت میں موجود ہوتو یہ پانی ان کیلئے بے کار ہوتا ہے جو ان کی مولانا میں نہیں دیتا۔ اس طرح اردگرد کے ماحول میں پانی موجود ہوتو یہی ہی بیکٹیریا کے کسی کام نہیں ہوتی کیونکہ اس قسم کے پانی میں یہ نشو نما نیں پاسکتے بلکہ زندہ بھی نہیں رہ سکتے اس لئے خوراک کو محفوظ کرنے کے دوران سی کو جراثیم سے بچاؤ کیلئے یا تو خوراک کو فریز یعنی برف بنا دیا جاتا ہے یا اس میں اس حد تک چینی ڈال دی جاتی ہے کہ بیکٹیریا یا مولد زنی والی اشیاء میں شو د لمانہ پاسکیں۔
درجہ حرارت
مختلف قسم کے خوردنا ہے مختلف درجہ حرارت پر نشو و نما پاتے ہیں اور جس درجہ حرارت پر ان کی نشو و نما سب سے زیادہ ہوتی ہے اس کو اوسط درجہ حرارت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مولڈز اور پیسٹ کمرے کے درجہ حرارت یعنی 20 سے 30 سینٹی گریڈ پر تیزی سے پرورش پاتے ہیں جبکہ بیکٹیر یا تین قسم کے درجہ حرارت پر نشو و نما پاتے ہیں۔ وہ بیکٹیر یا جو 20 سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت پر زیادہ سر گرم عمل ہوتے ہیں ان کو سانگو فیلک بیکٹیریا کا گروہ کہا جاتا ہے۔ ان بیکٹیریا میں وہ تمام قسمیں شامل ہیں جو ریفریجریٹر کے درجہ حرارت یعنی (4°C) سینٹی گریڈ پر بھی فریج میں پڑی ہوئی غذا کو خراب دیتے ہیں۔ ایسے بیکٹیریا جو انسان جسم کے درجہ حرارت 37 سینٹی پر سب سے زیادہ سرگرم عمل ہوتے ہیں ان کو میز و فلیک بیکٹیریا کہا جاتا ہے۔ غذا کی سب سے زیادہ خرابی ان میں بیکٹیریا کی سرگرمی سے عمل میں آتی ہے اور غذا سے پیدا ہونے والی سب سے زیادہ بیماریاں ان ہی کے عمل سے پھیلتی ہیں۔ وہ تمام بیکٹیر یا جن کاعمل تحول 60 سینٹی گریڈ پر بھی جاری رہتا ہے ان کو تھر موفیلک بیکٹیریا کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے بیکٹیر یا غذا کو خراب کرنے میں کم مدد گار ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی نغذا میں موجودگی دوسری قسم کی تیاریاں پھیلانے کا موجب ضرورت ہوتی ہے۔ ہیں تمام قسم کے جراثیم ایک خاص درجہ حرارت پر تیزی سے ہوتے ہیں لیکن اگر درجہ حرارت اس درجے سے کم یا زیادہ ہو توان جراثیم کی سرگرمی آہستہ رفتاری میں جاری رہتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی اسی طرح کچھ جراثیم غذا کو ابالنے یعنی 100 سینٹی گریڈ پر گرم کرنے سے مر جاتے ہیں لیکن کچھ اس درجہ حرارت میں بھی زندہ بچ رہتے ہیں۔ خاص طور پر دودھا ایک ایسی غذا ہے کہ جس میں ٹی بی کے جراثیم اگر موجود ہوں اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہوتو دور کو 10 سینٹی گریڈ پرکانی وقت کیلئے ابالنا ضروری ہوتا ہے تا کہ جراثیم اچھی طرح مر جائیں ۔ خیال رہے کہ یہ جراثیم 100 درجہ پر زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتے ۔ اسی طریقے سے دوسری پروٹین والی غذا میں مثلا گوشت میں زیادہ تر میز و فیلک بیکٹیر یا پائے جاتے ہیں لہٰذا احتیاط کیلئے ضروری ہے کہ گوشت ایسے درجہ حرارت پر سٹور کیا جائے جو میز و فیلک درجہ حرارت سے بہت زیادہ یا بہت کم ہو یعنی 63 سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر پھر 10 سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت سے پڑا ہو تب یہ بیکٹیریا جلد نشو نما ہیں پاسکتے کیونکہ اس درجہ حرارت پر ان کی سرگرمی تقریب نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
گیس والی آب و ہوا
خوراک کو خراب کرنے اور متعدی بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کو گیس کے توسط سے دو بڑے گروہوں میں بانٹا جاتا ہے ۔ ایسے جراثیم جو بغیر آکسیجن کے نشو و نما پاتے ہیں اور ان کو اپنے معمل تحول کیلئے آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرے وہ جراثیم بغیر آکسیجن کے پرورش نہیں پا سکتے اور ان کے عمل تحول کیلئے آکسیجن کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ جراثیم ایسے بھی ہوتے ہیں جو آکسیجن کی موجودگی یا غیر موجود گی دونوں صورتوں میں نشو نما پاتے رہتے ہیں۔
اساسی یا الکلی والے ماحول
انسان کی طرح خوردنامیوں میں عمل تحول کی سرگرمیاں بھی خامرے ہی کنٹرول کرتے ہیں اور یہ خامرے کچھ خاص پی ایچ (PH) پر اپنا عمل دکھاتے ہیں۔ خوراک کے ذریعے متعدی امراض پھیلانے والے جراثیم درمیانہ پی ایچ یعنی تقریبا (7PH) پر تیزی سے نشو و نما پاتے ہیں ۔ یہ پی ان (PH) بھی انسان کے خون اور دوسرے جسمانی محلول کی ہوتی ہے۔ اس لئے جو جراثیم خون میں پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ وہاں تیزی سے نشو و نما پانا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر متعدی امراض کا موجب بنتے ہیں۔
نوٹ
ایک سے سات درجے تک PH ماحول کی تیزابی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے جبکہ 7 سے 14 درجے کی PH ماحول کی الکلی خصوصیات کی نشاندہی کرتی ہے ۔ سے جتنی کم ہوگی ماحول اتنا تیز ابی ہوگا اور سے جتنی زیادہ ہوگی ماحول اتنا ہی اساسی ہوگا ۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "مصنوعی پیسٹ" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ