اصول مساوات ⇐ آدم سمتھ کے نزدیک ٹیکس عائد کرتے وقت اگر حکومتیں اصول مساوات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام پر ٹیکس لاگو کریں تو لوگ آسمانی سے ٹیکس ادا کر سکیں گے اور ملکی خزانے میں اضافہ ہوگا ۔ اس اصول کے مطابق ہر شہری اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے یعنی زیادہ آمدنی والے حضرات زیادہ فیکس اور کم آمدنی والے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ اصول مساوات کے تحت مساوی قیس سے مراد یہ نہیں کہ سب افراد کو ایک جتنا ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے بلکہ اس سے مراد متنزائد شرح ٹیکس ہے جس میں ٹیکس کی شرح آمدنی میں تبدیلی کے ساتھ کم و بیش ہوتی ہے۔ یعنی آمدنی بڑھنے کے ساتھ لوگ زیادہ شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور آمدنی میں کمی کے ساتھ ٹیکس کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ اصول عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور حکومت کی آمدنی کا ذریعہ بنتا ہے۔ عام طور پر دور حاضر کی حکومتیں انکم اور پراپرٹی پر متزائد شرح سے ٹیکس عائد کرتی ہیں۔
اصول تیقن
آدم سمتھ کے مطابق یہ اصول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹیکس گذار یا ٹیکس ادا کرنے والے کو یقین ہونا چاہیے کہ اسے کتنا ٹیکس، کب اور کہاں ادا کرتا ہے۔ نیز ٹیکس ادا کرنے کے کیا متبادل طریقے ہوں گے اگر ٹیکس ادا کرنے کا نظام اس اصول سے متصادم ہوگا تو ٹیکس کی وصولی بھی غیر یقینی ہو جائے گی۔ کیونکہ ٹیکس گزاروں کو ٹیکس کی ادائیگی کا وقت طریقہ اور مقدار معلوم نہ ہوگی اور وہ مکمہ ٹیکس کے اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوں گے جو ٹیکس گزاروں کو مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکا کر رشوت طلب کر سکتے ہیں ۔ اصول تیقین کے اطلاق سے حکومت کو بھی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا صحیح اندازہ ہوگا وگر نہ سرکاری ملازمین کو ٹیکسوں کے لین دین میں من مانی کارروائیاں کرنے اور رشوت میں ملوث ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر ٹیکسوں کا نظام اصول تیقن پر پورا اترتا ہو تو ٹیکس گزاروں کو ادائیگی میں اور حکومت کو وصولی میں آسانیاں ہوتی ہیں۔
اصول سہولت
آدم سمتھ کے خیال میں ٹیکس گزاروں پر ٹیکس اس وقت لاگو کیا جانا چاہیے یا ایسے طریقے سے عائد کیا جانا چاہیے کہ ٹیکس ادا کر نے والوں کو ٹیکس کی رقم ادا کرنے میں مشکل نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کی رقم یکمشت وصول کرنے کی بجائے آسان اقساط میں وصول کی جائے ۔ ٹیکس گزاروں کو ٹیکس جمع کرانے کے لیے بار بار دفتر کے چکر نہ لگانے پڑیں ۔ سہولت کی خاطر ملازمین کی تنخواہوں سے ٹیکس کی خاطر رقم ماہوار وصول کر لی جائے ۔ کا شتکاروں سے ٹیکس (مالیہ ) اس وقت وصول کیا جائے جب فصل پک کر تیار ہو جائے ۔ ٹیکس جمع کروانے کے یا لیے لوگوں کو نزدیک ترین جگہوں پر دفتری سہولیات فراہم کر کے وقت کی بچت اور دیگر مسائل سے چھٹکارا دلایا جائے ۔ اس طرح نہ صرف لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ حکومت کے خزانے میں بھی زیادہ رقوم جمع ہوتی ہیں ۔
اصول کفایت
اصول کفایت سے مراد ٹیکس اکٹھا کرنے پر کم سے کم اخراجات اٹھانا ہے تا کہ ٹیکس کی مد میں وصول کردہ رقوم زیادہ سے زیادہ قومی خزانے میں جمع ہوسکیں ۔ آدم سمتھ کے خیال میں ٹیکس کا نظام ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے عملے پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ ہوں کہ ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم زیادہ تر ان کی تنخواہوں پر صرف ہو جائے اور سرکاری خزانے میں بہت کم جمع ہو۔ اصول کفایت کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ نہ ہو کہ لوگوں میں کام کرنے کا جذ بہ ٹھنڈا پڑ جائے اور وہ بچت کرنے کے قابل نہ رہیں اور ٹیکسوں کا انتظام غیر موثر ہو کر رہ جائے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکس عائد کرتے وقت بھاری ٹیکسوں سے اجتناب کیا جائے تاکہ لوگوں کی بچتوں میں اضافہ اور سرمایہ کاری کا عمل جاری رہے۔
ٹیکس عائد کرنے کے درج ذیل اصول
ٹیکس عائد کرنے کے درج ذیل اصول ماہرین معاشیات نے وضع کر کے ٹیکسوں کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے رہنمائی کی ہے۔ Taxation( ٹیکس عائد کرنے کے
دیگر اصول
اصول پیداواری
اس اصول کے مطابق ملک میں ٹیکس کا نظام ایسا ہونا چاہے کہ حکومت کو تام ترقیاتی غیر ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے اتنی رقم حسب ضرورت مہیا ہو گے کہ وہ توازن بجٹ بناسکیں ۔ دوسری طرف ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی ضرورت سے زیادہ بھی نہیں ہونی چاہے کیونکہ ایسے میں اگر حکومت ضرورت سے زیادہ لیس لگا کر لوگوں پر یکسوں کا بوجھ نقل کر دیتی ہے۔ جس سے لوگوں کی بچوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور سرمایہ کاری کا عمل رک جاتا ہے۔ اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں ۔ پیداوار کا معیار گر جاتا ہے ۔ ایسی صورت حال سے لگنے کے لیے حکومت کو اپنے پیداواری یونوں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ قرضوں کے بوجھ سے افراط زر کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور معیار زندگی گر جاتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ حکومت کو اصول پیداواری کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنے ہی لیکن لگانے چاہئیں جس سے ملک میں سرمایہ کاری اور پیداواری عمل رکنے نہ پائے۔ بوجھ تو وہ کر سرکا ملک میں ٹیکوں کا نظام اتنا لچکدار ہونا چاہے کہ اگر حکومت کو زیادہ مالی وسائل کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ٹیکس بڑھا کر سرکاری آمدنی میں اضافہ کرسکے اوروں پراس کیس کا زیادہ ہو بھی نہ پڑے۔ اسکے برعکس اگر حکومت کی مالی ضروریات گھٹ جائیں توحکومت ٹیکس کی شرح کم کر کے سرکاری آمدنی میں کی لا سکے۔ لہذا اصول لچکداری آمدنی اور شرح ٹیکس میں براہ راست رشتہ قائم کرتا ہے یعنی اگر آمدنی میں اضافہ ہوتو لیس کی شرح میں بھی اضافہ ہو جائے اور آمدنی میں کمی کے ساتھ ٹیکس کی شرح بھی کم ہو جائے اس طرح نہ تو معیشت کے
اصول لچکداری
ملک میں یکسوں کا نظام انا لچکدار ہونا چاہے کہ اگر حکمت کو زیادہ مالی وسائل کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ٹیکس بڑھا کر سرکاری آمدنی میں اضافہ کرسکے اورلوگوں پر اسلیکس کا زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔ اس کے برعکس اگر حکومت کی مالی ضروریات گھٹ جائیں تو حکومت ٹیکس کی شرح کم کر کے سرکاری آمدنی میں کمی لا سکے ۔ لہذا اصول لچکداری آمدنی اور شرح ٹیکس میں براہ راست رشتہ قائم کرتا ہے یعنی اگر آمدنی میں اضافہ ہو تو ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ ہو جائے اور آمدنی میں کمی کے ساتھ سیکس کی شرح بھی کم ہو جائے اس طرح نہ تو معیشت کے ترقیاتی منصوبوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نہ ہی لوگوں پر ان ٹیکسوں کا بوجھ پڑتا ہے۔
اصول سادگی
ستان ، سادہ اور اچھے نظام میکس کے لیے ضروری ہے کہ فیسوں کا نظام آسان، ساہ اور عام فہم ہوتا کہ عام آدی کو اندازہ ہو سکے کہاس نے کئی آمدنی پر کتا کی ادا کرتا ہے اورس طرح ٹیکس سے متعلق معلومات کولیس ریونیو کی طرف سے ارسال کردہ فارم میں درج کرتا ہے۔ اگر کی کا نام مجید نا قابل فہم اورضروری معلومات کی فارم میں درج کرنے میں مشکلات پیش آئیں تو کس دہندہ کوئی دشواریوں اور پیچیدگیوں کا سامناکرنا پڑتاہے اور وہ کس جمع کرانے سے کتراتے ہیں جس سے ملک میں رشوت ستانی فروغ پاتی ہے اور سرکاری میکس فرد بر ہونے ) اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔اس لیے اچھے نظام کس کے لیے ضروری ہے کہ فیس ادا کرنے کا طریقہ کار سادہ ہواور ٹیکس گزاروں کو کوئی مشکل پیش نہ قیس آئے اور اس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اصول تنوع( اصول تنوع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک میں ٹیکسوں کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ معیشت کے کسی ایک شعبے پر نہ پڑے بلکہ معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی ٹیکسوں کا اطلاق برابری کی سطح پر ہو۔ گویا اس اصول کے مطابق حکومت کو ایک ہی قسم کے ٹیکس پربھی گویا اصول عائد نہیں کرنے چاہیے بلکہ مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرنے چاہئیں تا کہ ملک کے تمام شہری اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق سرکاری خزانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔ اس طرح اگر حکومت مختلف قسم کے ٹیکس لاگو کرے تو کسی ایک ٹیکس سے آمدنی کم ہونے کے باوجود حکومت دیگر ٹیکسوں سے خاطر خواہ آمدنی حاصل کر کے اپنے اخراجات پوری کر لیتی ہے ۔
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔