افادہ

افادہ

افادہ سے مراد کسی شے یا خدمت کی وہ خوبی یا صلاحیت ہے جس سے کسی انسان کی کوئی خواہش پوری ہوتی ہے. اس لیے افادہ ہر اس شے یا خدمت میں موجود ہوتا ہے جو انسان کی کسی خواہش کی تکمیل کر رہی ہو۔ مثلا روٹی بھوک مٹاتی ہے ۔ پانی پیاس بجھاتا ہے۔ قلم لکھنے کے کام آتا ہے۔ یہ سب اشیا اپنے اندر انسانی خواہش کی تکمیل کا وصف رکھتی ہیں۔

افادہ

پروفیسر فرگوسن کے مطابق

افادہ سے مراد شے کا وہ وصف ہے جس کے باعث کسی شے کی آرزو کی جاتی ہے۔ افادہ خالصتاً ذہنی کیفیت کا نام ہے کیونکہ ہر شخص کی طبعی اور نفسیاتی تشکیل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔

گویا پروفیسر فرگوسن کے نزدیک افادہ ایک اضافی اصطلاح ہے۔ اس لیے ایک ہی شے کا افادہ ایک آدمی کے نزدیک زیادہ اور دوسرے آدمی کے نزدیک کم ہو سکتا ہے۔

انسانی خواہش پر انحصار 

افادہ کسی شے کا ذاتی وصف یا خوبی نہیں جو ہر شخص کیلئے ایک جیسا ہو۔ بلکہ افادہ کا انحصار کسی شخص کی خواہش پر ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو کتنا چاہتا ہے۔ مثلاً ہم میں سے کچھ لوگ پرانے نوادرات اور قیمتی پتھر حاصل کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں اس لیے یہ اشیا ان کے نزدیک بہت افادہ رکھتی ہیں لیکن وہ لوگ جو ان اشیا کی خواہش نہ رکھتے ہوں ان کے نزدیک ایسی اشیا کی کوئی اہمیت نہیں ۔ گویا کسی شے کے افادہ کا انحصار اس شے کے استعمال کرنے والے کی خواہش پر ہوتا ہے۔

استعمال پر انحصار

اگر کوئی شے متبادل طور پر استعمال ہو سکتی ہو تو اس کا افادہ بھی مختلف استعمال میں مختلف ہوگا۔ مثلاً شہر کے نزدیک ایک نجرا زمین کے ٹکڑے کا افادہ کھیتی باڑی کے مقصد کے لیے اتنا نہیں ہوگا جتنا کہ اس پر رہائشی مکانات تعمیر کرنے سے ہوگا۔ اسی طرح عمارتی لکڑی کو تعمیر کی بجائے بطور ایندھن جلایا جائے تو اس کا افادہ کم ہوگا۔

علم پر انحصار

کسی شے کا افادہ انسان کی معلومات اور علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ماضی میں لوگ پیٹرولیم کی ذیلی پیداوار اور ان کے استعمال سے واقف نہ تھے لیکن دور جدید کے علوم اور ٹیکنالوجی نے انسان کو پیٹرولیم کی ذیلی پیداوار کی نوعیت اور استعمال سے آگاہ کر دیا جس سے انسان بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

شکل پر انحصار

کسی شے کا افادہ اس کی شکل وصورت بدلنے سے بھی بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مٹی سے قیمتی برتن بنائے جاسکتے ہیں، لکڑی سے فرنیچر تیار کیا جاسکتا ہے، چڑے سے جوتے تیار کئے جاسکتے ہیں ۔ گویا کسی شے کی شکل بدلنے سے اس کا افادہ بھی بدل جاتا ہے۔

وقت اور موسم پر انحصار

وقت اور موسم کے تبدیل ہونے سے بھی اشیا کا افادہ بدل جاتا ہے مثلاً برف کا استعمال گرمیوں میں زیادہ افادہ دیتا ہے لیکن سردیوں میں کم۔ اسی طرح گرم کپڑوں کا سردیوں میں زیادہ افادہ ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں کم۔

مقام پر انحصار

اگر کسی شے کو مناسب استعمال کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے تو اس کا افادہ بھی بڑھ جاتا ہے مثلاً دریا سے نکالی گئی ریت کا افادہ اس صورت میں ہوگا جب اس کو شہر میں عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا۔ اسی طرح جنگل میں پڑی لکڑی کا افادہ اسی صورت میں زیادہ ہوگا جب اس کو عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کرنے کے لیے شہر لایا جائے گا۔

ملکیت پر انحصار

کسی شے کا افادہ ملکیت بدلنے سے بھی تبدیل ہو جاتا ہے مثلا اگر ایک نایاب ڈکشنری کسی ان پڑھ کے پاس چلی جائے تو اس کے لیے اس کاردی کے علاوہ کوئی استعمال نہیں لیکن وہی ڈکشنری ایک پڑھے لکھے شخص کے پاس آ جائے تو بڑی اہمیت کی حامل ہوگی۔

یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ افادہ (Utility) اور فائدہ مندی (Usefulness) دو مختلف رحجانات ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو چیز افادہ رکھتی ہو وہ فائد ہ مند بھی ہو۔ بہت سی اشیا ایسی بھی ہیں جو افادہ تو رکھتی ہیں لیکن انسانی زندگی پر ان کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے وہ فائدہ مندی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر سگریٹ نوش کے لیے سگریٹ میں افادہ موجود ہے لیکن اثرات کے لحاظ سے یہ نقصان دہ ہے۔ اس لیے افادہ اور فائدہ مندی کو دو مختلف معنوں میں استعمال کرنا چاہیے۔

کمیابی

کمیابی کا مطلب کسی شے کا ضرورت کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اس کا تعلق کسی شے کی براہ راست طلب سے ہے۔ اگرکسی شے کی طلب رسد کے مقابلے میں زیادہ ہو تو وہ کمیاب ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں کروڑوں ٹن چینی پیدا ہوتی ہے لیکن ضرورت کے مقابلے میں کم ہے اس لیے یہ کمیاب ہے۔ لیکن گندے انڈے مقدار میں قلیل ہونے کے باوجود کمیاب نہیں کیونکہ ان کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے۔

معاشیات کی تعریفیں

آدم سمتھ کی تعریف معاشیات

آدم سمتھ کلاسیکی مکتب فکر کا بانی تھا۔ یہ پہلا معیشت دان تھا جس نے 1776ء میں معاشیات کے علم پر باقاعدہ کتاب لکھی جس کا نام تھا۔

“An enquiry into the Nature and Causes of Wealth of Nations”
“اقوام کی دولت کی نوعیت اور وجوہات پر تحقیقاتی مقالہ”

آدم سمتھ کے نزدیک

معاشیات دولت کا علم ہے جس میں پیدائش دولت ، صرف دولت، تقسیم دولت اور تبادلہ دولت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کلاسیکی مکتب فکر کے حامی ڈیوڈ ریکارڈ و ( David Ricardo )، این ڈبلیو سینئر (Senior ، جے ایس مل (IS.Mill) اور بالتمس (Malthus) نے بھی معاشیات کو دولت کا علم قرار دیتے ہوئے آدم سمتھ کے مکتب فکر کو جلا بخشی اور دولت ہی کو تمام معاشی مسائل کے حل کا مرہون منت گردانا۔

افادہ

این ڈبلیو سینئر کے مطابق 

معاشیات میں دولت کی نوعیت، پیدائش اور تقسیم دولت کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔

جے ایس مل کے نزدیک

معاشیات دولت کی نوعیت اور پیدائش دولت کے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔

گویا کلاسیکی مکتب فکر کے تمام معیشت دانوں کے نزدیک معاشیات دولت کا علم ہے۔

تنقیدی جائزہ

جس دور میں آدم سمتھ نے معاشیات کی تعریف کی اس وقت مذہبی رحجانات اپنے عروج پر تھے ۔ ایسے حالات میں دو مصلحین کا ر لائل (Carlyle) اور رسکن (Ruskin) نے دولت کے علم کو صرف اور صرف دولت کا حصول سمجھتے ہوئے رد کر دیا اور درج ذیل اعتراضات کئے۔

خود غرضی کا علم

رسکن اور کارلائل کے نزدیک دولت کا حصول انسان کو لالچی اور خود غرض بنادیتا ہے اس لیے انسان صرف دولت کا پجاری بن کر رہ جاتا ہے اور ہر وقت دولت کے حصول کے لیے منصوبے بناتا رہتا ہے۔

 

 

قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو افادہ کے  بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

  ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

 

Leave a comment