بلاسود بینکاری ⇐معاشیات میں سود سرمایہ کے استعمال کا معاوضہ کہلاتا ہے۔ قرآن وسنت میں سود کے لئے لفظ ربو آیا ہے، ربط کے معنی ہیں اضافہ ہو نشو نما پانا ، بڑھنا، پھلنا پھولنا، مگر اس طرح کا اضافہ اسلام میں حرام ہے۔.قرآن پاک کا خاص ان کی روایت کو جرم قرار دیتا ہے جو دھار کے لین دین میں دی پالی جاتی ہے۔ یہ کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔ ایک محض اپنامال دوسرے کو رش رہتا ہےاور یہ طے کرتا ہے کہ ان مدت گزر نے پروہ اس پر اتنی رقم زائد وصول کرے گا۔ اس اک رات کو سود یا یہ کہتے ہیں جو حض مہلت کا معاوضہ ہے۔ سودی لین دین کا رواج اسلام سے پہلے بھی تھا جسے دور جاہلیت کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس کی بتی سے ممانعت اور مذمت فرمائی ہے۔ نبی کرم مال یا پیہم نے سودی کاروبار میں کسی بھی ملح اورکسی بھی حیثیت میں شامل ہونے والوں کو گناہ گار قرار دیا ہے۔
اسلام نے سود کو کیوں حرام قرار دیا
اخلاقی اعتبار سے سود انسان کو خود غرض بخیل اور تنگدل بناتا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں اللہ کی راہ میں صدقہ دینے سے ہمدردی، اسلام نے سود کو بہت سختی کے ساتھ حرام قرار دیا ہے۔ قرآن پاک اور احادیث میں سودی لین دین کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور سود کے لین دین میں مصروف لوگوں کو باز آجانے کے لئے کہا گیا ہے اور باز نہ آنے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول صل تم کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سودی لین دین ظلم پر مبنی نظام ہے۔ سود کی خرابیوں اور مفاسد کی وجہ سے دنیا کے ہر مذہب نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ قربانی و ایثار، اور اعلیٰ ظرفی کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ معاشرتی اعتبار سے خود غرضی اور بغل کے نتیجے کے طور پر معاشرہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور باہمی ربط و تعاون میں کمی آتی ہے۔ معاشی اعتبار سے سود سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ سود کی بجائے منافع میں شرکت سے سرمایہ کاری کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ روزگار کی سطح بلند ہوتی ہے۔ سود عمل پیدائش اور پیداواری عمل کے ہر مرحلہ پر مصارف پیدائش میں شامل ہو کر مہنگائی اور افراط زر کا سبب بنتا ہے اور صارفین کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ سودی نظام کے نتیجے میں تقسیم دولت کا نظام خراب ہوتا ہے۔ سرمایہ مزید سرمایہ کوکھینچتا ہے اور دولت مندوں کی دولت بڑھتی جاتی ہے اور غریب وامیر کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ اسی طرح تجارتی چکروں کے پیدا ہونے کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ سود ہے۔ جس سے تجارتی اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتا ہے اور معیشت بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ سود کی وجہ سے معیشت میں وسائل کی تخصیص عوام و صارفین کی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ سود کی شرح کے مطابق طے ہوتی ہے اور بین الاقوامی اورقومی قرضوں پر سو کی ادائیگی کی وجہ سے پوری قوم مشکل کا شکار ہوتی ہے۔ بجٹ ، مصارف قرضہ سود اور قرضہ کی واپسی کی وجہ سے غیر متوازن ہو جاتا ہے۔ وسائل ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے کی بجائے سودی قرضوں کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتے چلے جاتے ہیں اور پوری معیشت نا مساعد معاشی حالات کا شکار ہو جاتی ہے۔
اقدامات
سودی بنکاری کو غیر سودی بنکاری میں تبدیل کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ سود کے معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی نقصانات کی وجہ سے ضرورت ہے کہ پورے نظام معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔ خاص طور پر نظام بنکاری کو غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مومن اپنے دین و ایمان اور مال کی حفاظت اچھے طریقے پر کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مال میں جائز طریقے سے اضافہ کر سکیں۔ اس ضمن میں اسلام سود کے متبادل کے طور پر نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد فراہم کرتا ہے جو بھی جمع شدہ رقوم ہوں ان کو کاروبار میں لگایا جائے جو بھی اصل نفع ہو وہ کاروباری فریقوں میں طے شدہ نسبتوں سے تقسیم کر دیا جائے ۔ یہ کام دو افراد کے درمیان بھی سرانجام پاسکتا ہے، یا سرمایہ کاری کی کمپنیوں کے ذریعے، یا بنکوں وغیرہ کے ذریعے۔ موجودہ صورت میں بنگ صرف مالیاتی ادارہ ہوتا ہے جو اپنے کھاتے داروں کی رقوم کو جمع کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو قرض دیتا ہے۔ گو یا بنک قرضوں کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی بنکاری میں بنک ایک مالیاتی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک سرمایہ کار بھی ہے اور یوں بنک معیشت کی ترقی میں عملی کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ صورت شراکت کہلاتی ہے۔ جس میں دونوں فریق اپنے سرمایہ اور محنت کے ذریعے باہم شریک ہو جاتے ہیں اور نفع ونقصان میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ اس کی دوسری صورت مضاربت کی ہے جس میں ایک فریق سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا فریق محنت کرتا ہے۔ نفع میں دونوں فریق طے شدہ نسبتوں سے شریک ہوتے ہیں اور نقصان کی صورت میں صاحب سرمایہ کو یہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ شراکت و مضاربت کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے متبادلات بھی ہیں جنہیں محدود طور پر سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں مرابحہ، اجارہ مسلم، بیع ، استضاع وغیرہ شامل ہیں۔
بنک کا کاروبار
بنگ کا کاروبار درج ذیل صورتوں میں ہوگا۔
بالمعاوضه خدمات
معاوضہ کی ادائیگی پر خدمت کی فراہمی مثلاً یوٹیلیٹی ہلوں کا جمع کرنا ، رقم کی منتقلی لاکرز کی سہولت وغیرہ ۔
شراکت و مضاربت کے اصول پر سرمایہ کاری
کھاتے داروں سے حاصل کردہ رقوم کو سرمایہ کاری کے لیے کاروباری لوگوں کو شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر فراہم کیا جاتا ہے۔ شراکت میں نفع ونقصان میں شرکت ہوتی ہے اور مضاربت میں فریقین منافع میں شریک ہوتے ہیں
عملی پیش رفت
غیر سودی بنکاری کا آغاز مصر میں ایک ادارے کے قیام سے ہوا جس کا نام ”مت عمر سوشل بنک رکھا گیا۔ یہ بنک زرعی مقاصد کے لیے کام کرتا تھا۔ اس سال ملائشیا میں ” جونگ حاجی کے نام سے ایک بنک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس کے کھاتے داروں کی تعداد 40 لاکھ سے زائد ہے ۔ 1975 میں دینی اسلامک بنک قائم کیا گیا۔ اس سال اسلامی ترقیاتی بینک کا قیام OIC کے تحت عمل میں لایا گیا جو کہ سلم ممالک کو ان کی ضروریات کے پیش نظر قرضے فراہم کرتا ہے۔ دو بڑے گروپ اسلامی بنکاری کے میدان میں سرگرم عمل ہیں ان میں سے ایک کا نام ” دار لمال الاسلامی ” اور ” البرکہ ہے ۔ بیلٹی نیشنل ادارے ہیں اور ان دونوں گروپوں نے مختلف ممالک میں اسلامی بنک قائم کئے ہیں۔ غیر سودی بنکوں میں ایک بڑا نام اسلامی بنگ بنگلہ دیش کا ہے۔ اس کی ملک بھر میں ایک سو چالیس سے زائد برانچیں ہیں۔ یہ بنک اپنے کھاتہ داروں کو بنگلہ دیش کے عام بنکوں سے زیادہ شرح سے منافع دے رہا ہے۔ اور بنگلہ دیش کی تجارت کا 10 فی صد اس بنک کے ذریعے ہو رہا ہے۔ غیر سودی بنیادوں پر اس وقت دنیا بھر میں 250 سے زائد بنگ دنیا کے پچاس ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ غیر سودی بنکاری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پھیلاؤ کی وجہ سے دنیا کے بڑے بڑے ادارے مثلاً آئی ایم ایف (IMF)، ورلڈ بنک (WB) اور آئی ایف کیا (IFC)، غیر سودی بنکوں سے معاملات کے حوالے سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اسی سلسلہ میں نہیں سے زائد جائزے تیار کروا چکا ہے۔
پاکستان میں غیر سودی بیکاری
قومی سرمایه کاری ٹرسٹ (NIT) پاکستان میں بلاسود بنیادوں پر سب سے پہلے جولائی 1979ء کو تین اداروں میں کام شروع ہوا۔ ادارے درج ذیل ہیں: پاکستان سرمایه کاری کارپوریشن (ICP) تعمیر مکانات کی مالی کارپوریشن یہ تینوں ادارے مضاربہ کمپنیوں کے طور پر رجسٹر ڈ کئے گئے اور انہوں نے شرعی بنیادوں پر کام شروع کیا۔ کیم جولائی 1981 پاکستان کے بنکاری نظام میں نفع و نقصان میں شراکتکی بنیاد پر کھاتے کھولنے کا آغاز ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ بنکوں سے جاری کئے گئے قرضے بھی سود سے پاک ہوں گے اور سود کی بجائے شراکتی مدتی سرٹیفکیٹ اجرا کیا گیا۔ کیم جولائی 1984 سے تجارتی بنکوں کو غیر سودی بنیادوں پر قرضے جاری کرنے کاحکم دیا گیا۔ کیم جولائی 1985 سے تمام ملکی بیک حکومت بنکاری شعبہ کارپوریشنوں اور مشتر کہ سرمایہ کی کمپنیوں کو غیر سودی بنیادوں پر کام کرنے کا حکم جاری کیا گیا اور سودی کھاتوں کے بجائے بچت اور معیادی امانتوں کو نفع و نقصان میں شراکت (PLS) میں تبدیل کرنے کو کہا گیا۔ اسی طرح نظام بنکاری کو اسلام اور غیرسودی بنیادوں پر کام کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی لیکن بعد کے حالات میں کئی وجوہات کی بنا پر اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا گیا۔ نومبر 1991 کو وفاقی شرعی عدالت نے کئی سال کی مالیاتی قوانین اور لین دین کے طریقوں کو خلاف شریعت قرار دے کر 3 جون 1992 تیک اسلامی اصولوں کے مطابق بدلنے کا حکم دیا۔ بعد میں حکومت نے سپریم کورٹ کے شرعی بیچ میں اس حکم کو چیلنج کر دیا۔ 23 دسمبر 1999 کو شریعت بنچ نے موجودہ نظام بنکاری کو سودی قرار دے دیا اور حکومت کو مارچ 2001 تک مہلت دے دی اور سٹیٹ بنک کو اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کی ہدایت کی تاکہ وہ عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں اقدامات کرے، تاہم بعد میں حکومت ایک دفعہ پھر عدالت میں گئی اور اس معاملہ پر حکم امتناعی لے لیا اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “بلاسود بینکاری” کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ