توازن ادائیگی کا مفہوم

توازن ادائیگی کا مفہوم ایک سال کے دوران کسی ملک کے باشندوں کے باقی دنیا کے ساتھ کئے گئے کاروبار کا مکمل حساب توازن ادائیگی کہلاتا ہے۔ تو ازن ادائیگی کسی دوسرے تخمینہ واصل باقی کی طرح متوازن ہونا چاہیئے ۔ ایسی تمام اشیاء جس کی وجہ سے کسی ملک کو زرمبادلہ حاصل ہوگا انہیں آمدنی کے کھاتے میں درج کیا جائے گا ایسی تجارتی اشیاء جس کی وجہ سے کسی ملک کو اپنا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے ان کا اندراج اخراجات کے کھاتے میں ہوگا۔ سال کے بعد دونوں اطراف کا فرق معلوم کر لیا جاتا ہے۔ جو کہ نفع یا نقصان کی شکل میں ظاہر ہوگا ۔ اصول تجارت کے ہر طالب علم کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ادائیگیوں کے حسابات دو حصوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ رواں حسابات اور سرمایہ کے حسابات ان کو تفصیل درج کیا جاتا ہے۔

توازن ادائیگی کا مفہوم

رواں حسابات

یہ حسابات مرئی یعنی مادی اشیاء سے متعلق ہوتے ہیں ۔ ان حسابات میں اخراجات تعقیل ، سفر خرچ ، بیمہ کی فیس اور نمیشن وغیرہ کی مدت بھی شامل ہیں۔ چند ایسی نا قابل واپسی ادائیگیاں جو کہ چندہ اور پیشن سے متعلقہ ہوں بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان کو غیر مرئی ادائیگیوں کے تحت شمار کیا جاتا ہے۔ مرئی ( مادی ) اور غیر مرئی اشیاء سے حاصل ہونے والی کل آمدنی اگر مادی اور غیر مرئی اشیاء کی خدمات سے زیادہ ہو تو تو ازن ادائیگی ملک کے حق میں ہوگا اور اسے توازن ادائیگی کا منافع کہتے ہیں۔ بصورت دیگر تو ازن ادائیگی کا توازن خسارہ کہلائے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ نتائج موافق توازن ادائیگی یا نا موافق ادائیگی کہلاتے ہیں۔ خسارہ کو ملک کے سونے سے باز رمبادلہ کے ذخیرے سے قرض لے کر بٹوارا کیا جاتا ہے۔

سرمایہ کے حسابات

یہ حسابات ایک مقررہ مدت کے دوران جو کہ ایک سال کی ہوتی ہے ایک ملک کے دنیا کے . دوسرے ممالک کے درمیان ہونے والی سرمایہ کی نقل و حرکت کے حسابات ہوتے ہیں۔ سرمایہ کی اس اقل و حرکت سے مراد قلیل مدت یا طویل مدت کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے۔ قرضوں کا یہ معاہدہ حکومتوں، صنعتی اداروں اور افراد کے درمیان طے ہو سکتا ہے۔

توازن ادائیگی کے اہم مشمولات

اشیاء

فہرست میں وہ اشیاء شامل کی جاتی ہیں جو ہم درآمد یا بر آمد کرتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں۔ (ب) اشیائے سرمایہ  اشیائے صارفین اشیائے صارفین میں کپڑا، ریفریجریٹر، کاریں اور اشیائے سرمایہ میں ٹریکٹر ، معدنیات اور مشینیں وغیرہ شامل ہیں۔

غیر ملکی کمپنیوں کی خدمات کا معاوضہ

ہر ملک بیرونی تجارت کیلئے دوسرے ممالک کے جہازوں ، بینکوں اور بیمہ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ ان خدمات کا معاوضہ ادا کرتا ہے اور اگر یہ خود دوسرے ملکوں کو ایسی ہی خدمات مہیا کریگا تو ان کا معاوضہ وصول کرتا ہے ۔ اور غیر ملکی ادارے یہ خدمات سر انجام دیگر معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

تعلیم

می اور تحصیل فن کے لئے طلباء ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے ہیں۔ اور وہاں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح ایک ملک بیرونی تعلیم پر روپیہ خرچ کرتا ہے اور دوسرے ملکوں کے طالب علموں کے ذریعے سے آمدنی بھی حاصل کرتے ہیں ۔ توازن کی ادائیگی میں اس کے خرچ اور آمدنی کی مدیں بھی درج ہوتی ہیں۔ مثلاً پاکستان سے بہت سے لوگ ہر سال مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں جو کہ خرچ کی مد ہو گی۔

سیر و سیاحت

سیر و سیاحت کے شائق حضرات ایک دوسرے ملک میں سیر و تفریح کے لئے آتے جاتے ہیں۔ وہاں روپیہ خرچ کرتے ہیں یہ سیاح جو روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہماری آمدنی ہوتی ہے اس کو ہم وصولیات میں درج کرتے ہیں اور جو ہمارے سیاح دوسرے ممالک میں روپیہ خرچ کرتے ہیں وہ ہم واجبات میں لکھ لیتے ہیں۔

سفارتی خدمات

ہر ملک کے دوسرے ملکوں سے سفارتی تعلقات ہوتے ہیں جو سفیر دوسرے ملک میں مقرر کئے جاتے ہیں ان کے اخراجات بھی ہمارے ذمہ ہوں گے ۔ ہمارے ہاں جو سفیر نامزد ہو کر آتے ہیں۔ ان کے ممالک نہیں تنخواہ وغیرہ بھجتے ہیں۔ جس کو ہم وصولیات میں درج کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں ہم اپنے سفیروں کو جو تخوا ہیں وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ ان کو ہم واجبات میں اندراج کریں گے۔

غیر ملکی قرضے پر سود

ملکی ترقی کے لئے کسی ملک کی حکومت نہ صرف ملک کے اندر سے قرضہ حاصل کرتی ہے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی قرض حاصل کرتی ہے۔ جس پر وہ سود ادا کرتی ہے۔ سود کی ادائیگی واجبات میں شمار کریں گے ان کی وصولی وصولیات میں شامل کریں گے۔

مالی امداد

سیلاب، جنگ، زلزلوں اور دوسرے ہنگامی حالات میں ممالک ایک دوسرے کی جو مدد کرتے ہیں اس کو واپس کرنا پڑتا ہے یہ سرکاری سطح پر بھی دیئے جاتے ہیں۔ اور نجی سطح پر بھی جب کوئی امداد ملے گی تو کسی : اس کو وصولیات ، اور جب کسی دوسرے ملک کو امداد دیں گے تو اس کو واجبات میں شامل کریں گے۔

سرمایہ کاری کا منافع

ممالک اور نجی افراد ایک دوسرے کے ہاں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ اور منافع کماتے ہیں۔ منافع وصول ہو تو اس کو وصولیات میں شمار کریں گے اور اگر دوسرے ممالک ہمارے ہاں سے اسے باہر لے جائیں تو اسے واجبات میں لکھیں گے۔

پاکستان کا توازن ادائیگی

ہر ملک کی غیر ملکی تجارت کے استحکام کا دارو مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی دار آمدات اس کی بر آمدات سے بڑھنے نہ پائیں کیونکہ اگر اس کی درآمدات بڑھ جائیں تو وہ ملک دوسروں کا مقروض ہو جاتا ہے۔ ادائیگی کے لئے اسے سونا بھیجنا پڑتا ہے۔ سونا برآمد ہو جانے سے ملکی کرنسی کا استحکام بھی باقی نہیں رہتا اس لئے کاروبار کے مالی اور صنعتی حالات مخدوش ہو جاتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ترقی پذیر ملک ہے اسے غیر ممالک سے گاڑیاں مشینیں صنعتی خام مال ، فاضل پرزہ جات اور ترقیاتی ساز و سامان بہت زیادہ مقدار میں منگوانا پڑتا ہے۔ اس لیئے اس کی درآمدات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان زرعی اور پسماندہ ملک ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خام مال ہی بر آمد کر سکتا ہے۔ جس کی بہت کم قیمت وصول ہوتی ہے۔ لہذا اس کا توازن ادائیگی عموماً غیر موافق ہی رہا ہے۔ اس لئے اس چیز کی شدید ضرورت ہے کہ اسے بہتر بنانے کے لئے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

پہلے منصوبے کے دوران تو ازن ادائیگی

منصوبہ بندی کمیشن نے جب پہلا پانچ سالہ منصوبہ پیش کیا تو مختلف مقاصد کے ساتھ ایک ضروری منصوبہ تھا کہ تجارت خارجہ کا توازن ادا ئیکی درست کیا کیا جائے اس اقدام کے لئے مندرجہ ذیل جا سفارشات بھی کی نہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔ برآمدات کو بڑھایا جائے۔ جو اشیاء هم برآمد کرتے ہیں ان کا بدل ملک میں پیدا کیا جا امات کو اعمال میں کا بول پیدا جائے۔  پہلے منصوبے کے مطابق دس ارب اور پچاس کروڑ روپے ام کے مطابق دو ارب اور کے ڈ روپے کے برابر زرمبادلہ کمانے کا پروگرام بنایا کیالیکن ان سالوں میں صرف گیارہ ارب پچیس کروڑ روپے کا زرمبادلہ کمایاگیا۔ اس کمی کا سب سے غیر ترقیاتی درآمدات کو کم کیا جائے ۔ گیا پانچ لیکن بڑی وجہ یہ کی کہ: برآمد شدہ اشیاء کی پیداوار کم ہوگئی۔  عالمی تجارت میں کمی رونما ہو گئی۔ برآمد کی جانے والی ملک میں غذائی پیداوار کم ہوگئی اور اس کی درآمد پر کافی رقم خرچ کرنا پڑی۔ اشیاء کی طلب ملک میں بڑھ گئی ۔۔ درآمد و بر آمد کی نسبت ہمارے موافق نہ رہی۔

دوسرے منصوبے کے دوران توازن ادائیگی

دوسرے منصوبے کے دوران توازن ادائیگی پہلے منصوبے کے مقابلہ میں بہتر حالت میں رہا۔ دوسرے منصوبے میں یہ طے پایا کہ پانچ سال کی مدت میں کل گیارہ ارب پچیس کروڑ روپے کے برابر زر مبادلہ کمایا جائے گا ۔ اور بائیس ارب میں کروڑ روپے کے برابر خرچ کیا جائے گا۔ گویا دس ارب پچانوے کروڑ روپے کا زرمبادلہ خارجی ذرائع سے حاصل کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔ دوسرے منصوبے میں درآمدات اور برآمدات میں سال بہ سال اضافہ ہوتا گیا لیکن درآمدات میں نسبتاً زیادہ اضافہ ہوا۔ کروڑ روپے کا زرمبادلہ خارجی ذرائع سے کرنے کا ارادہ کیا کیا بات اور اضافہ ہواہے اس لئے توازن کی ادائیگی میں خسارے کی رقم بڑھ گئی ۔ درآمدات اس لئے زیادہ ہوتی ہیں کہ دوسرے ے توازن کی روانی میں خسارے کی بڑھ گئی۔ آمدات لئے کہ دوسرے منصوبے کی رو سے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کثیر مقدار میں مشینیں، گاڑیاں، ترقیاتی ساز و سامان اور خام مال در آمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ چیز میں نہ منگوائی جائیں تو صنعتی اور معاشی ترقی نہیں ہو سکتی ۔ برآمدات میں سالانہ تین فیصد اضافہ ہوتا تھا لیکن اس کی بجائے یہ اضافہ ہوا۔ سات فیصد ہوا اس کی وجوہات حسب ذیل ہیں۔ ایسی چیزیں زیادہ پیدا ہوئیں جن کی برآمدات کے امکانات زیادہ تھے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار میں توقع سے زیادہ اضافہ برآمدی بونس سیکم کے باعث بھی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے برآمد کوفروغ دینے کے لئے بعض مخصوص ادارے قائم کئے۔ ٹیکسوں کی ایسی پالیسی اختیارکی گئی جس کہ وجہ سے ملک کے اندر اشیاء کا مصرف کم ہو گیا۔

تیسرے منصوبے کے دوران توازن ادائیگی

تیسرے منصوبے کے دوران ہماری کل درآمدات کی مالیت بتیس ارب پچاس کروڑ ہوگئی اور برآمدات کی مالیت میں ارب روپے ۔ اسی طرح فرق پندرہ ارب پچاس کروڑ ہوگا جو خارجی ذرائع سے پورا فرق پندرہ ارب پچاس کیا جائے گا۔ ان میں پروجیکٹ امداد، غیر پروجیکٹ امداد فنی امداد، غیر ملکی نجی سرمایہ کاری مسائل شامل ہیں۔

تیرے منصوبے میں توازن ادائیگی کی حکمت عملی

تیسرے منصوبے میں توازن ادائیگی کی حکمت عملی کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔  ملک کی معاشی ترقی کے لئے زیادہ دار و مدار ملکی ذرائع پر کرنا۔ در آمدات کے سلسلے میں ایسا انداز اختیار کرنا جس سے پس اندازی ، سرمایہ کاری اور حوصلہ افزائی ہو اور باہر سے آنے والی اشیاء کا نعم البدل ملک کے اندر ہی تیار ہو سکے۔ اس مدت میں قومی پیداوار جس رفتار سے بڑھے اس سے برآمدات میں اضافہ کرنا۔  ایسی زرعی اور صنعتی اشیاء کی پیداوار بڑھانا جو برآمد ہوسکیں۔ جہاں تک درآمدات کا تعلق ہے ان میں صرف وہ اشیاء در آمد کرنا جو خام مال یا نیم تیار شدہ شکل میں ہوں تا کہ ان سے صنعتی پیداوار میں مزید اضافہ ہو چنانچہ اشیائے سرمایہ کی درآمد میں سالانہ ساڑھے چار فیصد اضافہ ہوگا اور خام مال کی درآمد میں سالانہ گیارہ فیصد۔ سرکاری مانی پالیسی اور دیگر ترغیبات کے ذریعے زرعی و صنعتی پیداوار کے موجودہ طریقوں پر بھی اشیاء کی پیداوار میں جو اضافہ ہو اس کا بیشتر حصہ برآمد کرنا اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ تیسرے منصوبے کے دوران صنعتی پیداوار میں جس قدر اضافہ ہو گا اس کا دس فیصد برآمد کر دیا جائے گا جبکہ دوسرے منصوبے میں صرف تین فیصد برآمد ہو سکا تھا۔ 7 درآمدات کے نعم البدل کی حکمت عملی کا اہم خاصہ یہ ہے کہ اشیاء صارفین کی بڑھتی ہوئی طلب کا بیشتر حصہ ملکی پیداوار سے پوارا کیا جائے اور ایسی اشیاء درآمد کی جائیں جن سے اشیائے سرمایہ کی صنعت مضبوط و مستحکم ہو۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو توازن ادائیگی کا مفہوم  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

رسد

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment