ترجیحات کا مفہوم
تینوں منصوبوں کا موازنہ بلحاظ ترجیحات اور حکمت عملی ⇐ ترجیحات کا مطلب یہ ہے کہ کسی معاشی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے دوران کسی بات کو اور کس شعبے کی ترقی کو زیادہ اہمی دی جاتی ہے اور کس کو کم یعنی زرعی شعبہ کو زیادہ اہمیت دی جائے گی یا سنتی شعبہ کو، اشیائے صرف کی پیداوار کو تریج حاصل ہوگی یا اشیائے سرمایہ کی پیداوار کو۔ ظاہر ہے کہ دہی مقصد اور بدی زیادہ ترجیح کا مستحق ہوگا جو ملک کی معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
حکمت عملی کا مفہوم
کسی معاشی منصوبہ کی حکمت عملی سے مراد وہ طریقہ یا اسلوب ہے جو منصوب کے مقاصد کو کا میابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ کسی مقصد کے حصول کے لئے عام طور پر ایک سے زیادہ طریقے ہو سکتے ہیں۔ ملک کے محدود ذرائع اور سماجی حالات کے پیش نظر ان میں سے بہترین طریقے کا اتخاب کرنا ہوتا ہے۔ در حقیقت کسی معالی منصوبہ کی ترجمات اور حکمت عملی آپس میں گہرے طور پر مربوط ہیں۔ ایل میں مختلف پہلوؤں سے تینوں پانچ سالہ منصوبوں کی حکمت عملی اور ترجیحات کا ذکر کیا گیا ہے۔
شرح افزائش کی حکمت عملی
پہلے پانچ سالہ منصوبہ میں قومی پیداوار میں 15 فیصد اضافہ کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ چونکہ اسی مدت کے دوران آبادی میں 75 فیصد اضافہ متوقع تھا لیدانی کس آمدنی میں 7 فی صد اضافہ ہونے کی امید کی گئ تھی۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبہ کی مدت کے دوران قومی پیداوار میں 24 فیصد اضافہ متوقع تھا اور اسی مدت میں آبادی میں 25 فیصد متوقع سالانہ اضافہ کے پیش نظر فی کس آمدنی میں 12 فیصد اضافہ کی امید کی گئی تھی۔ چونکہ دوسرے پانچ سالہ منصوبہ میں قومی پیداوار یں افزائش کی شرح توقع سے ھی ہو گی یعنی دید کی جائے 50 فیصد حاصل ہوئی اس لئے اس کا میابی کے پیش نظر تیسرے پانی سال منصوبہ میں قومی آمدنی میں اضافہ کا ہدف اور بھی بڑھا دیا گیا یعنی 37 فیصد۔
سرما کاری کی حکمت عملی
پہلے اچھا سا منصوب می سرمایہ کار کی حمت ملی تھی کہ معیت کے معاشی تھی انچ چینی اسماع حمل ونقل اور رسل و رسائل، پانی بجلی اور معدنی وسائل کو ترقی دی جائے کیونکہ انہی ذرائع کی ترقی بالآخر مک کی تیز تر زری اور صنعتی ترقی کے لئے مدگار ثابت ہوگی۔ دوسرے منصوبہ میں ہی معاشی تجارتی ڈھانچے کے شبہ میںسرمایہ کاری کوکافی اہمیت دی گئی۔ علاوہ ازیں دوسرے منصوبہ میں زرعی ترقی کو بھی بجا طور پر اہمیت ملی ۔ جہاں تک صنعتی شعبے کا تعلق ہے پہلے اور دوسرے پانچ سالہ منصوبوں میں اشیائے صرفی ی پیداوار کوی طور پر ہمیت دی گی کیونکہ ابتدائی دور میںملک میں اشیائے صرفی کی بہت قلت تھی اور یہ وافر مقدار میں باہر کے ملکوں سے درآمد کی جاتی تھیں۔ تیسرے پانچ سالہ منصوبہ میں اشیائے صرفی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اشیائے سرمایہ کی پیداوار کوگی اہمیت دی گئی کیونکہ اب ملک میں اشیا سرنی کی صنعت کافی ترقی کرچکی تھی اوراس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ اب ملک کو بھاری صنعت کی طرف بھی توجہ کرنا چاہیے لین منصوبے کی ابتداء میں ہی پاک بھارت جنگ کے نتیجہ میں وسائل کی قلت پیدا ہوگئی لہذا سائل کی شعبہ وار تقسیم میں ردو بدل کرنا پڑا۔ ملک کو خوراک کے معاملہ میں خود کفیل بنانے کا مقصد اس لئے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا نمایاں اضافہ ممکن نہیں۔ اس منصوبہ کی مدت کے دوران ملک میں بچت کی اوسط شرح قومی پیداوار کا 6 فیصد رہی۔ اس کی روشنی میں کی دوسرے منصوبہ میں بچت کی اوسط شرح کاہدف قومی پیداوار کا صد سالانہ مقر کردیا گیا۔ یہی صورت میں مکن تھا کہ اگر خمینہ سالانہ کہ 1966ء میں خشک سالی کے سبب ملک سخت غذائی بحران کی لپیٹ میں آگیا۔
بچت کی حکمت عملی
پہلے پانچ سالہ منصوبہ میں اس بات کو سلیم کیا گیا کہ لوگوں کی آمدنی بہت کم ہونے کی وجہ سے گھر یلو بچت میں بچت میں 15 فیصد کا اضافہ ہو۔ در حقیقت دوسرے پانچ سالہ منصوبہ میں قومی بچت میں ختم اضافہ اس سے بھی زیادہ ہوا یعنی 2 2 فیصد ۔ اس کے نتیجہ میں ملک کی اوسط قومی بچت کی شرح قومی پیداوار کا 10 فیصد ہوگئی۔ اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے تیسرے پانچ سالہ منصوبہ کی 15فیصد مدت مدت میں میں بھی بھی ختم بچت بچت میں میں اضافہ کی کی شرح فیصد 2 فید اور اوسط بچت میں اضافہ کی شرح % 13.6 2 اوسط ہیں حاصل ہونے کی توقع تھی۔
ادائیگیوں کے توازن کی حکمت عملی
ملک میں اندرونی وسائل کی کی کو بیرونی وسائل کی مدد سے پورا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن غیر ملکی قرضوں کی واپسی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے تینوں منصوبوں میں برآمدات میں معتد بہ اضافہ کے مقصد کو بہت اہمیت حاصل رہی ۔ ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کی حکمت عملی یہ رہی ہے
علاقائی حکمت عملی
قیم پاکستان کے وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے معیار زندگی میں نمایاں فرق تھا۔ ملک کے مشرقی حصہ کے لوگوں کی فی کس آمدنی مغربی حصہ کے لوگوں کی نسبت تقریبا 25 فیصد کم تھی۔ لہذا نوں پانچ سالہ منصوبوں میں اس کی حصہ کے کی میں اس معاشی تفاوت کو دور کرتا ایک اہم مقصد رہا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مشرقی پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے مغربی پاکستان کی نسبت زیادہ تھیں مختص کی جاتی رہیں۔
روز گاری حکمت عملی
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی افرادی قوت کو روزگار کے مواقع مہیا کرنا، ملک کے تینوں پارٹی سالہ منصوبوں کی حمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں حکمت عملی یہ ہی ہے کہ دیہی علاقوں میں گھر یلو اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کا قیام مل میں لایا جائے اور ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں کیونکہ اسی صورت میں روزگار کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ کے مواقع اضافہ ہوسکتا ہے۔
ترجیحات
معاشی منصوبہ بندی کی حکمت عملی اور اس کی ترجیحات کا آپس میں بہت قریبی تعلق ہے۔ تینوں پانچ سالہ منصوبوں کی ترجیحات درج ذیل ہیں۔
زرعی ترقی بمقابلہ صنعتی ترقی
اگر چہ پاکستان کے تینوں پانچ سالہ منصوبوں میں زراعت اور صنعت دونوں شعبوں کو اہمیت دی گئی لیکن بنیادی طور پر ملک کی زرعی معیشت کا تقاضا ہی تھا کہ زراعت کی ترقی پر زیادہ توجہ دی جائے تا کہ ملک جلد سے جلد خوراک کے معاملہ میں خود کی ہو جائے۔ صنعتوں کے لئے زیادہ سے زیادہ خام مال میر ہو اور پر آمدات کے لئے وافر مقدار میں مال بنا سکے، چنانچہ یوں پانچ سال منصوبوں میں زراعت کو خاص اہمیت دی گئی۔
اشیائے صرفی کی صنعت بمقابلہ اشیائے سرمایہ کی صنعت با بھاری صنعت
تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان کو بہت کم صنعتی در نکلا۔ شروع میں ہی اشیائے صرفی کی سخت قلت کا سامنا کرنا پڑا، لہذا ابتدائی منصوبوں میں اشیائے صرفی کی صنعت کو ترقی دے کر خود کفالتی حاصل کرنے کا مقصد اولین اہمیت کا حامل رہا۔ دوسرے منصوبے کی تکمیل کے بعد ملک بڑی حد تک اس معاملہ میں خود کفیل ہو چکا تھا بلکہ بعض اشیاء کی برآمد بھی ہونے گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تیسرے منصوبہ میں ملک میں بھاری صنعت کے قیام کے مقصد کو بھی ہوا کے نتیجہ قلت ترجیحی سلوک حاصل ہوا لیکن پاک بھارت جنگ کے نتیجہ میں وسائل کی قلت نے اس مقصد کو پھر پس پشت ڈال دیا۔
برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی
معاشی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت بڑی مقدار میں اشیائے سرمایہ اور صنعتی خام مال کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ پاکستان میں نہیں بنتا تھا۔ اس لئے بیرونی ممالک سے درآمد کرنا پڑتا تھا جس کے لئے بھاری مقدار میں زرمبادلہ کی ضرورت تھی ، جسے حاصل کرنے کے لئے تینوں منصوبوں میں برآمدات کے اضافہ کی کے لئے مقدار ، لئے کے کی طرف خاصی توجہ دی گئی۔ شروع میں پاکستان زیادہ تر زرعی خام مال خام پٹ سن ، خام کپاس و غیره برآمد کرتا تھا لیکن عالمی منڈی میں زرعی اجناس کی قیمتیں بہت کم تھیں جس کے نتیجہ میں نسبت درآمد و برآمد پاکستان کے خلاف تھی ، لہذا اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ زرعی خام مال کی بجائے زیادہ سے زیادہ مصنوعات تیار کر کے برآمد کی جائیں اور ایسی صنعتوں کو زیادہ اہمیت دی جائے جو برآمد کے لئے مال تیار کریں اور درآمدات کا بدل تیار کر کے زر مبادلہ کو بچائیں۔ اس لئے تینوں پانچ سالہ منصوبوں میں برآمدات میں اضافہ کے مقصد کو ترجیح حاصل رہی۔
آبادی کی منصوبہ بندی
دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبوں میں آبادی کی منصوبہ بندی کے ذریعے شرح ولادت کو گھٹانے کے مقصد کو بھی ترجیح دی گئی، کیونکہ ماہرین کی رائے میں قومی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آبادی کو کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "تینوں منصوبوں کا موازنہ بلحاظ ترجیحات اور حکمت عملی" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ