جرم کی تعریف ⇐ جرم سے مراد ہر وہ فعل یا کام ہے جو رائج الوقت قانون کی رو سے قابل سزا قرار دیا گیا ہو ۔ ایک فعل خواہ کتنا ہی ناشائستہ اور ناموزوں ہوں ۔وہ اس وقت تک جرم نہیں کہلا سکتا جب تک اس کیلئے کوئی سزا مقرر نہ کی گئی ہو۔ معاشرتی زندگی کے کتنے ہی معمولات ہیں جن کی انسان خلاف ورزی کرتا ہے لیکن چونکہ یہ کسی تعزیری دفعہ کی زد میں نہیں آتے ۔ اس لئے ان کو جرم نہیں کہا جا سکتا ۔
جرائم کی قسمیں
جرائم کی بے شمار قسمیں ہیں۔ طرح طرح کے جرائم کا روز مرہ زندگی میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ اخبارات در سائل میں ان کا ذکر پڑھتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر ان کے بارے میں سنتے ہیں ۔ کچھ جرائم معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے ٹریفک کے قواعد کی خلاف ورزی اور بعض سگین نوعیت کے جرائم میں قتل و غارت گری ڈکیتی اغواء سرقہ و غیرہ بعض جرائم اقتصادی زبوں حالی کی بنا پر سرزد ہوتے ہیں
جنسی محرکات
بعض کی نوعیت سراسر سیاسی ہوتی ہے۔ کچھ جرائم کی تہ میں جنسی محرکات ہوتے ہیں۔ جرائم کی تقسیم ہم مجرموں کی مختلف اقسام پر بھی کر سکتے ہیں مثلا کم سن یا نا بالغ محرم نو جوان محرم نئے مجرم اتفاقی مجرم عادی مجرم سابقہ سزا یافتہ مجرم خطر ناک مجرم سفید پوش مجرم فاتر العقل مجرم پیشه ور مجرم جرائم کی پہلی قسم میں وہ جرائم شامل ہیں
جرائم
جو انسانی جان کیخلاف ہوتے ہیں مثلا قتل اخواعورتوں اور بچوں کا زنا بالجبر قتل عمد سرقہ بالجبر اور ضرر رسانی وغیرہ ۔ یہ ایسے جرائم ہیں جن سے انسانی ذات متاثر ہوتی ہے۔ جرائم کی دوسری بڑی قسم میں ایسے جرائم شامل ہیں جو مال و جائیداد سے متعلق ہوتے ہیں ۔
معاشرتی زندگی
جرم کی تعریف جیسے نقب زنی چوری جیب تراشی وغیرہ۔ ضروری نہیں کہ جرائم کی ان دو بڑے حصوں میں تقسیم معاشرے میں موجود تمام جرائم کا احاطہ کرے۔ معاشرتی زندگی جتنی پیچیدہ اور متنوع ہے اتنی ہی جرائم کی مختلف اقسام ہیں
جرائم کی مختلف اقسام درج ذیل ہیں۔
- قتل
- ڈکیتی یا راہزنی
- اغوا ( اس میں عورتوں، بچوں اور مردوں کا اغوا شامل ہے )
- بچوں کی بے راہ روی
- زنا بالجبر
- چوری ( جس میں نقب زنی جیب تراشی وغیرہ ہر قسم کے مال کی چوری شامل ہے )
- شراب نوشی
- منشیات کا استعمال
- قمار بازی
- رشوت ستانی
- عصمت فروشی
- خود کشی و غیره
جرائم کے اسباب کوئی کام جرم کب بنتا ہے
جرم کی تعریف ذیل میں الگ الگ ہر جرم کے باعث بننے والے اسباب اور وجوہات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ جس سے معلوم ہوگا کہ ہر جرم کس طرح معاشرتی زندگی سے ابھر کر رونما ہوتا ہے اور کون سے معاشری عوامل اس کا باعث بنتے ہیں ۔
قتل اور اس کے اسباب ٹارگٹ کلنگ
ہر معاشرتی عمل خواہ وہ اچھا ہو یا برا معاشرے کا عکاس ہوتا ہے ۔ ہر معاشرے کی اقدار دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ لہذا جرائم اور جرائم پیدا کرنے والے اسباب مخصوص معاشرتی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم جرائم کے اسباب کا تجربہ کرنے لگے تو ہمیں اس معاشرے کے مختلف عوامل اور ماحول کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یعنی جرائم کے اسباب کو اس معاشرتی زندگی کے پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس میں ان کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ تحقیقات کے مطابق پاکستان کے دیہات اور شہروں میں انسانی جان سے متعلق جرائم کا بالترتیب تناسب 181 اور 19 فیصد ہے۔
شہروں کی نسبت
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہات میں قتل شہروں کی نسبت تقریبا 4 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ مزید بر آں جرائم کی نوعیت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانی ذات کیخلاف جرائم کا ارتکاب ہمارے ملک میں زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں قتل کی اہم وجوہات زرزن اور زمین کا ہے ہر قتل کے وقوع میں ان اسباب میں سے کوئی نہ کوئی سبب ضرور پایا جاتا ہے۔
وقتی اشتعال
بہت کم قتل کسی فوری جذبے یا وقتی اشتعال کے تحت ہوتے ہیں ورنہ زیادہ تر قتل کے جرائم میں پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی شامل ہوتی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں زمین کی حد بندی آبپاشی کے پانی کی تقسیم وغیرہ قتل اور شدید زخمی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
لامتناہی سلسلہ
جب ایک قتل ہو جائے تو پھر قتلوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ بدلہ لینا، کھوئی ہوئی عزت کی واپسی اور اس کا حصول باعث افتخار سمجھا جاتا ہے ۔ جو بدلہ نہ لے سکے وہ بے غیرت اور معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ بے شمار خاندان اس گھناؤ نے دائرے میں آکر بر باد فنا ہو جاتے ہیں۔
طعن و تشنیع
بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی طعن و تشنیع سے تنگ آکر سر خرو ہونے کیلئے قتل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اس کو عزت و وقار کی میں بحالی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ قتل کے فروغ میں ہمارا فرسودہ طویل عدالتی نظام معاشرے میں رشوت کا دور دورہ اور بد عنوان پولیس کا نظام بھی شامل ہے۔
تحقیق کے مطابق
پاکستان میں سیاسی وجوہ کی بناپر قتل ایک نیا عنصر ایک اور نئے باب کا آغاز ہے۔ قتل اور زخمی کرنے کی دوسری وجہ تحقیق کے مطابق عورت اور عورت پر مبنی پرانی عداوت ( 21 فیصد ) ہوتی ہے۔ زیادہ تر یہ جرائم خاوند کرتے ہیں
نا جائز تعلقات
جو اپنی بیوی کے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نا جائز تعلقات معلوم ہونے پر قتل کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات باپ اور بھائی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو غیر مردوں کے ساتھ تعلقات رکھنے پر قتل کر دیتے ہیں۔ اغوا یا زنا بالجبرک بالآخر انتقام قتل یا شدید زخمی کرنے پر ہوتا ہے۔
معاشرتی اقدار
ان عوامل کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو ان کی تہہ میں جہالت مخصوص معاشرتی اقدار کا دباؤ طویل فرسودہ عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عدم اطمینان جیسے عوامل شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل بھی قتل وغیرہ پر اکساتے ہیں
مخصوص مفاد کے حامل افراد
مخصوص مفاد کے حامل افراد اور پولیس کا کردار بھی بعض اوقات قتل کا مزید سبب بن جاتے ہیں۔ قتل کی یہ وارداتیں شکستہ گھروں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جن کے والدین میں کوئی ایک یا دونوں فوت ہو گئے ہوں زیادہ کرتے ہیں ۔ جن کی عمریں 30 سال سے کم ہوتی ہیں
خوشحال گھرانوں کے بچے
بری صحبت کرائے پر قتل، خوشحال گھرانوں کے بچے بھی انسانی ذات جرائم کیخلاف جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ عام طور پر قل زیادہ تر مرد کرتے ہیں لیکن کچھ قتل عورتیں بھی کرتی ہیں۔ عورتوں کا قتل میں ملوث ہونے کا باعث زیادہ تر سسرال والوں سے عدم مطابقت خاندانی دشمنی جائیداد عزت آبرو بچانے کی خاطر ذاتی دفاع اور ناجائز جنسی تعلقات جیسے اسباب شامل ہیں۔
زناکاری اور اس کے اسباب
جنسی تسکین انسانی ضرورت ہے مرد و عورت جوان ہونے پر ایک دوسرے کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ معاشرے میں جب مرد و عورت کی تعداد میں عدم مساوات دولت کی فراوانی مذہب سے بیگا نگی خدا سے بے خوفی مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول اچھی تعلیم وتربیت کا فقدان شکستہ گھر، مفلسی وغربت معاشرتی درجه بندی معاشرتی ناہمواری اور نکاح میں معاشرتی دشواریاں، گندہ لٹریچر لچر گانوں گندی فلموں کی فراوانی مادر پدر آزادی جیسے عوامل موجود ہوں تو معاشرے میں زنا کاری کو فروغ ملتا ہے۔
ازدواجی تعلقات
زنا میں مرد نسبتا زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض شادی شدہ مرد پرائی عورتوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔ عموماً ان لوگوں کے ازدواجی تعلقات غیر نارمل ہوتے ہیں۔ اکثر یہ لوگ فریق ثانی کی مرضی سے ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں
ذہنی و جنسی الجھنوں کا شکار
بعض صورتوں میں انہیں نا جائز ہیں طریقوں اور دھمکیوں سے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کبھی بھی کم سن بچیاں بھی ان کی حیوانی خواہشات شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض مرد شدید ذہنی و جنسی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کی اقتصادی حالت اتنی بہتر نہیں ہوتی کہ نکاح کریں۔ نتیجتا یہ اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے نا جائز جنسی تعلقات کا سہارا لیتے ہیں۔
تسکین
بہت کم شادی شدہ عورتیں جنسی تسکین کیلئے زنا کا سہارا لیتی ہیں اگر کسی وقت غلطی سے وہ ایسا کر بیٹھیں تو جلد ہیں تائب بھی ہو جاتی ہیں۔ لڑکیوں کی یہ عادت عموما شادی کے بعد جاتی رہتی ہے ۔
پیشہ
طوائفوں سے متعلق عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شدید جنسی خواہشات کے سبب یہ پیشہ اختیار کرتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس پیشے سے بالکل خوش نہیں ہوتیں اور صرف حالات اور ماحول کے دباؤ کے تحت یہ پیشہ جاری رکھتی ہیں ۔
ظلم و ستم
ایک تحقیق کے مطابق زنا کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں سسرال اور خاوند کے ظلم و ستم سے فرار ہو کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جانا۔ خاوند کے برے سلوک کی وجہ سے جوزنا پر آمادہ کرتا تھا۔ پڑوسی کے ساتھ بنا جائز تعلق۔ غیر اخلاقی اور ناشائستہ کردار وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی جرائم میں خاندانی عدم مطابقت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ محزب اخلاق ادب نو جوانوں کو جنسی جرائم کی طرف راغب کرتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “جرم کی تعریف“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……..جرم کی تعریف ……..