دیہی زندگی کی مشکلات

دیہی زندگی کی مشکلات ⇐ دنیا میں کوئی بھی آبادی ایسی نہیں ہے جس کو مختلف مسائل در پیش نہ ہوں اگرچہ ان مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ دیہی علاقے میں لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہوتا ہے اور معاشی مسائل بہت سے دوسرے مسائل کی بنیاد بنتے ہیں اس لئے یہاں ہم زراعت کے متعلق مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔

دیہی زندگی کی مشکلات

نظام ملکیت 

زرعی پیداوار کم ہونے کی بڑی وجہ زرعی اراضی کی ملکیت کا نظام بھی ہے۔ اکثر ترقی پذیر ممالک میں جاگیر دارانہ نظام ہے جس کے تحت چند افراد بڑے بڑے قطعات اراضی کے مالک ہیں۔ ان کی ملکیت کئی کئی ہزارا ایکٹر پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ اپنی اراضی بہت سے لوگوں کو کاشت کرنے کیلئے دیتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ بہت بڑے قطعات اراضی کے مالک ہیں

کاشت

اس لئے انہیں بہت زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے لیکن جو کاشتکار اس اراضی کو کاشت کرتے ہیں انہیں کوئی زیادہ آمدنی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ مختلف رواجوں کے تحت کاشتکار کو کل پیداوار کا ایک چوتھائی ہی حاصل ہوتا ہے۔

پیداوار

یہ کاشتکار چونکہ اراضی کے مالک نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں پیداوار کا زیادہ حصہ ملتا ہے اس لئے وہ اپنی طرف سے کیمیائی کھاد یا اعلی بیچ، کرم کش ادویات اور زرعی مشینری استعمال نہیں کر سکتے جب تک کہ اراضی کا مالک انہیں یہ سہولیات مہیا نہ کر دے۔

قطعات اراضی

اس لئے پیداوار بڑھانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ بہت سے کاشتکار ایسے بھی ہیں جن کے اپنے قطعات اراضی ہیں اور وہ خودان پر کاشت کرتے ہیں لیکن ان میں بھی بہت زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے قطعات اراضی اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ ایک خاندان کے گزارے کیلئے قطعی نا کافی ہیں۔

استطاعت

یہ لوگ اپنی اراضی پر بہت محنت کرتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق کیمیائی کھاد وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کے قطعات اراضی بہت چھوٹے ہیں اس لئے ان کی آمدنی میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگ غربت کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

 فرسودہ جاگیردارانہ نظام

دیہی علاقوں میں اکثریت بے زمین اور کم زمین کاشتکاروں کی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے زمیندار اپنے علاقے کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں

 فرسودہ جاگیردارانہ نظام

سیاسی اقتدار

سیاسی اقتدار میں بھی شریک ہوتے ہیں اس لئے مختلف علاقائی رسم ورواج کے تحت کاشتکاروں سے طرح طرح کے غیر قانونی ٹیکس اور وصولیاں کرتے رہتے ہیں اور کاشتکاروں سے مختلف خدمات اور بیگاریں لیتے ہیں۔

وصول

اس طرح زمیندار کا شتکاروں سے 75 فیصد تک پیداوار وصول کر لیتے ہیں ایسے حالات میں کاشتکار پیداوار میں اضافے کیلئے کوئی تگ و دو نہیں کرتے اور ان کی غربت بدستور بڑھتی رہتی ہے۔

زمین کی تقسیم در تقسیم

چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ زرعی اراضی وراثت میں نسل در نسل تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ اراضی کی بار بار تقسیم سے ایسے کاشتکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے

تقسیم

جن کے پاس ایک الگ گھرانے کے گزارے سے بہت ہی کم اراضی ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی تقسیم سے یہ بھی ہوتا ہے کہ زمین کے قطعات چونکہ فاصلے پر ہوتے ہیں اس لئے کاشتکاروں کی اراضی بہت زیادہ منتشر ہوتی جارہی ہے۔

خاندان

ایک قطعہ اراضی ایک جگہ ہے تو دوسرا اس سے دور دوسری جگہ پر ہوتا ہے۔ اسلئے کاشتکار ان منتشر قطعات کو بہتر طور پر کاشت نہیں کر سکتے ۔ ایسے قطعات اراضی چونکہ ایک خاندان کو معاشی طور پر آسودہ نہیں کر سکتے اس لئے یہ لوگ کا شتکاری کے ساتھ ساتھ دوسرے کام بھی کرتے ہیں اور اپنی آمدنی میں اضافے کی تگ ودو کرتے رہتے ہیں

غربت و افلاس

ہوتا یہ ہے کہ یہ لوگ نہ تو کاشتکاری پر بھر پور توجہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا کام ڈھنگ سے کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے خاندان غربت و افلاس میں جکڑے رہتے ہیں۔

نظام آب پاشی

اچھی فصل کیلئے موزوں آبپاشی بہت ضروری ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں آبپاشی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں نہریں تو ہیں لیکن ان سے بہت کم اراضی سیراب ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ان شہروں کے کنارے پختہ نہیں ہیں نیز ان نہروں سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے نالے بھی کچے ہیں اور سطح زمین سے نیچے ہیں اس وجہ سے چالیس فیصد پانی ان نہروں اور کھالوں میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔

نظام آب پاشی

نہری نظام

پاکستان میں دنیا کا اعلیٰ اور بڑا نہری نظام ہے جس کی لمبائی چالیس ہزار میل ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بھی بہت زیادہ مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ نہروں کی صفائی کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہر سال مٹی کی تہ شہروں میں جم جاتی ہے

آبپاشی

نہریں اونچی ہوتی جارہی ہیں جس کے باعث پانی کی کم مقدار نہروں میں آتی ہے جس سے اراضی کی آبپاشی بہتر طور پر نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح نہریں اور کھال کچا ہونے کے باعث اکثر ٹوٹ جاتے ہیں جس سے نہ صرف بہت سا پانی ضائع ہوتا ہے بلکہ فصل پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتا ہے۔

بارانی علاقے

بہت سے علاقوں میں آبپاشی کا واحد ذریعہ بارش کا پانی ہے۔ ایسے علاقوں کو بارانی علاقے کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں بارش کے پانی کو بند بنا کر روک لیا جاتا ہے اور اس سے اراضی سیراب کی جاتی ہے۔

قحط کی صورتحال

اس کے علاوہ کاشت سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک زمین کو کسی اور ذریعے سے پانی نہیں ملتا۔ بارش ہوتی رہے تو فصل اچھی ہو جاتی ہے ورنہ فصل اچھی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات تو ان علاقوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فصل نہیں ہوتی جس سے قحط کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

ٹیوب ویل

بعض علاقوں میں ٹیوب ویل لگا دیئے گئے ہیں۔ ٹیوب ویل لگانے پر بھی بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے جو بہت سے کاشتکاروں کی مالی حیثیت سے زیادہ ہے۔ ٹیوب ویل چلانے کیلئے بجلی یا ڈیزل انجن لگائے جاتے ہیں۔

استطاعت

بجلی تو بہت ہی کم دیہی علاقوں میں ہے اس لئے زیادہ تر ڈیزل انجن ہی لگائے جاتے ہیں لیکن ڈیزل اتنا مہنگا ہے کہ عام کاشتکار اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتے اس لئے صرف چند بڑے کاشتکار ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

 سیم و تھور

دیہی علاقوں میں بہت سا قابل کاشت رقبہ سیم اور تھور کے باعث ناکارہ ہو چکا ہے جس پر اب کوئی فصل کاشت نہیں کی جاسکتی۔ زمین کی بار با سیرابی کے باعث زمین کے پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور زمین کے اندر کے نمکیات پانی میں حل ہو کر سطح زمین کے اوپر آجاتے ہیں جس کی وجہ سے زمین سیم وتھور کا شکار ہو جاتی ہے۔

 سیم و تھور

فصل

بعض اوقات اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسی اراضی پر ہمیشہ ایک ہی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ مثلا اگر کئی سال تک ایک ہی قطعہ اراضی پر چاول کاشت کئے جاتے رہیں تو وہ اراضی بھی کچھ عرصے بعد سیم وتھور کا شکار ہو جاتی ہے

پانی کی سطح

چاول کی فصل کو زیادہ مقدار پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور پیشہ زیادہ پانی دینے سے زمین میں پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے۔ اور اراضی سیم و تھور کاشکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اب تک لاکھوں ایکڑ زمین سیم و تھور سے ضائع ہو چکی ہے۔

قدرتی آفات اور حفاظتی تدابیر 

زراعت ایک ایسا عمل ہے جو کھلے آسمان کے نیچے ہوتا ہے اور مختلف قدرتی آفات سے اس کا تحفظ نا ممکن ہے۔ کاشتکار اپنی پوری کوشش کے باوجود قدرتی آفات سے فصل کو نہیں بچا سکتا۔ اگر بارش وقت پر ہو جائے تو فصل کیلئے بہت مفید ہے لیکن اگر بارش بے وقت اور زیادہ ہو تو فصل تباہ کر دیتی ہے۔

ژالہ باری

ربیع کی فصلوں کے پکنے کے موسم میں اگر ژالہ باری ہو جائے تو فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ اور کاشتکار کی سال بھر کی محنت بیج اور کھاد بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شدت کی سردی یا گرمی بعض اوقات سیلاب آجاتے ہیں جن سے فصلوں کے ساتھ فصلوں کو گرا دیتی ہیں۔

آبادیاں

زیادہ بارشوں کے ساتھ آبادیاں بھی تباہ ہو جاتی ہیں بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں سیلاب سے بچاؤ کا کوئی مؤثر نظام بھی موجود نہیں ہے جس سے کم از کم آبادیوں کو تو بچایا جاسکے۔ اسی طرح بارش نہ ہونے سے بھی بہت سے علاقے خشک سالی اور قحط کا شکار ہو جاتے ہیں

قدرتی آفات

بارش نہ ہونے یا کم ہونے کے باعث بارانی علاقے کی اراضی سیراب نہیں ہو سکتی۔ قدرتی آفات سے تحفظ بہت حد تک نا ممکن ہے اور ان آفات سے ایسے نقصانات ہوتے ہیں کہ کاشتکاروں کو اپنی طرف سے پوری کوشش کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

کیمیائی کھادیں

زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے کیمیائی کھاد کا استعمال لازمی ہے۔ کیمیائی کھاد کے استعمال کیلئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کون سی کھاد کتنی مقدار میں کس فصل کیلئے کسی وقت استعمال کی جائے۔

کیمیائی کھادیں

تجزیہ

زمین کا تجزیہ کر کے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ زمین میں کسی چیز کی کمی ہے تا کہ وہی کھاد استعمال کی جائے جو اس کیلئے موزوں ہو لیکن ہمارے کاشتکار جدید زرعی طریقوں سے ناواقف اور نا خواندہ ہیں۔ اس وجہ سے کیمیائی کھاد کے بہتر استعمال اور زمین کی صلاحیت جانچنے سے بے خبر ہیں۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ غریب کاشتکار جو اپنی بہت سی اہم ضروریات غربت کے باعث مکمل طور پر پوری نہیں کر سکتا۔

کیمیائی کھاد

کیمیائی کھاد خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے نہ تو موزوں کھاد مناسب مقدار میں استعمال ہوتی ہے اور نہ ہی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں عموما قدرتی کھاد کا استعمال عام ہے۔ کاشتکار جانوروں کا گوبر وغیرہ کسی گڑھے میں اکٹھا کرتے رہتے ہیں

گواس کھاد

فصل کیلئے زمین کی تیاری کے موقع پر اسے گڑھے سے نکال کر زمین میں ڈال دیتے ہیں۔ گواس کھاد سے بھی زمین کی صلاحیت کسی حد تک بہتر ہو جاتی ہے مگر اس کے استعمال سے فصلوں کو مختلف قسم کے کیڑے لگ جاتے ہیں۔

ادویات

ان کیڑوں سے بچاؤ کیڑے مار ادویات سے ممکن ہے لیکن کا شتکاروں کی اکثریت نہ تو یہ ادویہ خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور نہ ہی کیڑے مار ادویات کا استعمال جانتے ہیں۔

قرض

قرض ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے اکثر دیہات میں لوگوں کو در پیش ہے۔ کاشتکار فصل اگانے کے موقع پر اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اکثر قرض کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ قرض وہ مقامی باشندوں سے بھی حاصل کرتے ہیں اور حکومت کے اداروں سے بھی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ فصل کے موقع پر وہ یہ قرض اتار نہیں سکتے ۔

سرکاری قرضوں

سرکاری قرضوں کے بارے تو ہماری اکثر دیہاتی بھائی جانتے بھی نہیں اور اکثر یہ قرض لینا نہیں چاہتے کیونکہ یہ حاصل کرنے کی صورت میں ان کو اپنی زمین گروی رکھنا پڑتی ہے اور بہت پچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

قرضے کی ادائیگی

دوسری طرف زرعی قرضے دینے والے اداروں کیلئے ایسے کاشتکار جو وقت پر قرضے کی ادائیگی نہیں کر پاتے یا قرضے کی رقم بالکل واپس نہیں لوٹاتے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق قرضوں کی واپسی کا مسئلہ کولمبیا پاکستان سینگال تنزانیہ اور بھارت کی کچھ ریاستوں میں شدید ہے۔

قرضے کی ادائیگی

وجوہات

عالمی بنک نے قرضہ واپس نہ کرنے کی تین وجوہات بتائی ہیں۔ کاشتکار  قرض پر لی گئی رقم کو پیداواری مقاصد کیلئے خرچ نہیں کرتا ۔ قرض کی واپسی میں دیر اس لئے بھی ہو سکتی ہے کہ کاشتکار کو قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ گیا مارکیٹ کی حالت بگڑ گئی یا پھر قرض کی شرائط ہی غلط تھیں۔

قرض

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاشتکار پیسے ہونے کے باوجود وہ قرض لوٹانا نہیں چاہتا بلکہ اس رقم کو اپنی ادھر ادھر کی ضروریات کو پورا کرنے میں خرچ کر دیتا ہے۔

ناقص منڈی اور ذرائع آمد و رفت

ہمارے اکثر دیہات ایسے ہیں جہاں پکی سڑک نہیں ہے۔ کاشتکار کو اپنی فصل گاؤں کے اندر ہی آڑھتی کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کرنا پڑتی ہے۔ جہاں سڑک موجود ہے وہاں بھی اکثر لوگ شہروں میں آکر اپنا اناج فروخت کرنے کی بجائے گاؤں میں ہی فروخت کرنا مناسب سمجھتے ہیں

فصل کی صحیح قیمت

وہ شہر تک اجناس کو لے جانا مشکل سمجھتے ہیں اور دوسرا انہیں گاؤں سے شہر جانے کیلئے کرایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو وہ نہیں چاہتے ۔ صرف بڑے بڑے زمیندار ہی ایسا کر پاتے ہیں اس وجہ سے انہیں اپنی فصل کی صحیح قیمت وصول نہیں ہوتی

 حفظان صحت و طبی سہولتیں

دیہات میں صفائی اور حفظان صحت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ۔ لوگ صفائی کی اہمیت سے بالکل بے خبر ہیں۔ دیہات میں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کے باعث لوگ امراض کا شکار ہوتے رہتے ہیں

اموات کا باعث

انہیں علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال سے پیچش، اسہال، ٹائیفائیڈ ہیضہ وغیرہ کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد اموات کا باعث آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ بعض دیہی علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔

جدید طبی سہولتوں کا فقدان

کم پانی کے استعمال کے باعث نہ تو خود صاف ستھرے رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر برتن اور کپڑے صاف ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں جدید طبی سہولتوں کا فقدان ہے پاکستان میں اس وقت 78 فیصد لوگوں کو ہسپتال یاڈسپنسری جانے کیلئے 2 سے 5 میل تک کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے 22 فیصد دیہاتی آبادی کی کسی بھی مرکز تک رسائی نہیں ہے۔

بیماریوں کی صورت

اس لئے دیہی آبادی بیماریوں کی صورت میں اکثر علاج نہیں کراسکتی اور روایتی علاجوں یا دم درود برگزارہ کرتے ہیں۔ بڑے اور متوسط درجے کے زمیندار اور کاشتکار تو شہروں میں علاج کروالیتے ہیں مگر غریب لوگ اس سہولت سے محروم رہتے ہیں۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کودیہی زندگی کی مشکلات  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

…….دیہی زندگی کی مشکلات    …….

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *