ذرائع مواصلات اور آمدو رفت ⇐ رانسپورٹ اور مواصلات کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور ملکی پیداواری اساس کو بڑھانے کے سلسلہ میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی ملک کے ذرائع مواصلات کی ترقی اور ذرائع آمد و رفت میں بہتری کے نتیجے میں نہ صرف اس ملک میں پیداواری مصارف میں کمی آتی ہے بلکہ وہ ملک کے مختلف حصوں میں پیدا ہونے والی اشیا کی ملک کے مختلف حصوں میں ترسیل بھی آسان ہو جاتی ہے۔ آجرین کو اپنی پیداوار کی بہترقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں مواصلات اور ذرائع آمدورفت نظام کی ابتری نہ صرف معاشی لحاظ سے بلکہ معاشرتی لحاظ سے ملک کو پسماندہ رکھتی ہے۔
اہمیت
ان ذرائع کی اہمیت درج ذیل حقائق سے ظاہر ہے۔
مصارف پیداوار میں کی
ذرائع مواصلات اور نقل و حمل جتنے زیادہ بہتر ہوں گے ملک کے مختلف حصوں کے درمیان آمد ورفت اتنی ہی آسان ہوگی۔ تاجر دل اور صنعت کاروں میں رابطہ جتنا آسان ہو گا اتنے ہی مصارف پیدائش کم ہوں گے۔ اشیا کا معیار ملک کے مختلف حصوں میں یکساں ہوگا اور پورے ملک میں اشیا کی قیمتوں میں یکسانیت ہوگی۔
اندرونی و بیرونی تجارت میں اضافہ
ذرائع نقل جمل اور مواصلات کی بہتری کے نتیجے میں اندرون ملک اور بیرون ملک تاجروں میں رابطہ آسان ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تجارتی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔
ملک کے دور دراز علاقوں سے رابطہ
ان ذرائع کی بہتری کے نتیجے میں ملک کے دُور دراز علاقوں تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور ان علاقوں کی پیداوار کی رسائی بڑی منڈیوں تک ہو جاتی ہے۔ اس طرح ان علاقوں کے تاجر کسان اور آجر معاشی لحاظ سے مضبوط ہو جاتے ہیں۔ لیندا بڑے شہروں سے اشیا ان علاقوں تک پہنچ جاتی ہیں۔
پیداوار میں اضافہ
بڑی منڈیوں تک رسائی کے نتیجے میں نہ صرف دور دراز علاقوں کی پیداوار کی بہتر قیمت ملنے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے بلکہ انیا کا معیار بھی بہتر ہو جاتا ہے اور ملک میں مجموعی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔
عاملین پیدائش کی حرکت پذیری
ذرائع القل حمل و مواصلات کے بہتر ہونے اور ان سہولیات میں اضافہ کے نتیجے میں مختلف عاملین پیدائش خصوصاً مزدوروں کی ملک کے مختلف حصوں تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مزدور بہتر روزگار حاصل کر پاتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کے معاوضے بہتر ہو جاتے لکھا ۔
انسانی ذرائع کی ترقی
مزدوروں کے لیے کام کے بہتر مواقع ، طالب علموں کے لئے تعلیم کی بہتر سہولتوں تک رسائی ، ہنر مندوں کے لئے بہتر اداروں تک رسائی تعلیم صحت کی بہتر اور اضافی سہولتوں کا حصول انسانی ذرائع کی ترقی کا موجب بنتے ہیں۔
متوازن ترقی
ذرائع مواصلات اور نقل وحمل کی ترقی کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں رابطہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم وصحت کے یکساں مواقع کی فراہمی آسان ہو جاتی ہے۔ خام مال کی ترسیل اور اشیا و خدمات کی نقل وحمل کے نتیجے و میں ملک کے تمام حصوں میں یکساں ترقی کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
سیاسی فوائد
ملک کے مختلف حصوں میں آنے جانے کے نتیجے میں یکساں عادات رسم ورواج کے علاوہ قومی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اپنے آپ کو اپنے وطن سے وابس سمجھتے ہیں۔ قومی سیاست کی حامل سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ صوبائی اور علاقائی تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے۔
ملکی دفاع اور امن و امان کی بہتری
ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بھی ذرائع مواصلات کی ترقی اہم ہے۔ ملک دشمنوں پر توجہ رکھنا اور سرحدوں پر دخل اندازی کو روکنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح امن وامان قائم رکھنے کے لیے بھی تیز رفتاری سے اقدامات کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
سماجی و معاشرتی فوائد
ماجی سطح پر یکساں سماج یکساں قومی سوچ اور یکساں رسوم و رواج کے فروغ ، ملکی وقومی یکجہتی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ علاقائی سوچی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں کے باشندے ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ روز گار حاصل کرتے ہیں باہمی نفرتیں اور کدورتیں ختم ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو سجنے کا موقع ملتا ہے یوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
ذرائع آمدورفت
مواصلات اور نقل و حمل کے روایتی ذرائع میں سڑکیں ، بڑی شاہراہیں ریلوے ، ہوائی جہاز ، بندرگاہیں اور جہاز رانی شامل ہیں۔ ان ذرائع کی تفصیل درج ذیل ہے:
سڑکوں کا جال
سڑکیں کسی بھی ملک کے مختلف حصوں اور دوسرے ممالک کے ساتھ روابط میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں سفر کرنے والے افراد کا فی صد سڑکوں اور شاہراہوں کے ذریعے سفر کرتا ہے جبکہ تقریبا 5 فی صدا شیا کی نقل وحمل اسی ذریعے سے ہوتی ہے۔ سڑکوں پر مسافروں اور سامان لائے جانے کے لئے ہیں، ٹرک کاریں رکتنے موٹر سائیکل ٹرالر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں ۔ گذشتہ چند سالوں میں سڑکوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔ (الف) سڑکوں کے ذریعے سفرنسبتا ستا پڑتا ہے اور زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ گذشتہ سالوں میں سڑکوں کی حالت بہتر ہونے اور اچھی گاڑیوں کے آنے سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ بہت سے علاقوں تک رسائی کے لئے سڑکیں ایک واحد ذریعہ ہیں۔ معاشی ترقی میں اضافہ کے نتیجے میں سفری اخراجات میں کمی آجاتی ہے۔ پاکستان میں سڑکوں کی لمبائی دولاکھ انسٹھ ہزار چار سوتریسٹھ کلومیٹر ( ہے۔ ان میں سے تقریبا کلومیٹر کمتر درجے کی سڑکیں ہیں اور بقیہ اچھی سڑکیں اور شاہراہیں ہیں۔ سے لے کر اب تک نئی سڑکوں کی تعمیر میں پچاس فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کم تر درجہ کی سڑکوں کو بہتر درجہ کی سڑکوں میں تبدیلی کا عمل بھی جاری ہے۔ پاکستان میں سڑکوں کی تعمیر و بحالی کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سپر د ہے ۔کے تحت سترہ قومی شاہراہیں ہیں۔ ان کے علاوہ موٹر وے اور دفاعی اہمیت کی حامل سڑکوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر ہے۔ قومی سطح کی یہ شاہرا ہیں کل سڑکوں کا ساڑھے تین فی صد ہیں اور ان کی لمبائی کلومیٹر ہے۔ بڑی شاہراہوں میں کراچی – لاہور – پشاور – طور خم شاہراہ مکران کوسٹل روڈ کاغان ویلی روڈ کراچی ۔ خضدار۔ کوئٹہ چمن ہائی وے حسن ابدال ۔ گلگت خنجراب روڈ لک پاس۔ دالبندین ۔ نوکندی تاختان روڈ (vii) نوشہرہ۔ دیر۔ چترال ہائی دے کوئید ( کچلاک) مسلم باغ ۔ ژوب ۔ ڈی۔ آئی۔ خان ہائی وے۔ انڈس ہائی وے سکھر ۔ تھی۔ کوئٹہ ہائی وے۔ اسلام آباد ۔ مظفر آباد ہائی وے۔ ان کے علاوہ موٹر وے پراجیکٹس میں درج ذیل موٹر وے شامل ہیں۔ اسلام آباد۔ پشاور موٹر وےکلومیٹر) لاہور ۔ اسلام آباد موٹر وے کلومیٹر پنڈی بھٹیاں ۔ فیصل آباد موٹر وےکلومیٹر دیگر شاہراہوں میں درج ذیل شامل ہیں۔ کراچی ناورن بائی پاس لیاری ایکسپریس وے کراچی بند روڈ لاہور سکھر بائی پاس کو بات مثل لنک روڈ مل پارہ چنار خضدار سے کھوڑی رتوڈیرو۔ شہدادکوٹ۔ قبر سعید خان ابیٹ آباد۔ نتھیا گلی۔ باڑیاں۔ مری روڈ راولپنڈی اربن ایر یا پراجیکٹ
پاکستان ریلوے
بر صغیر میں ریلوے کا نظام انگریزوں کے دور حکومت میں عمل میں لایا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں مسافروں اور سامان کی نقل حمل کا یہ سب سے بڑا ذریعہ تھا اور تقریباً 70 فی صد مسافر ریلوے کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں ریلوے کا محکمہ زبوں حالی کا شکار ہوتا گیا اور وقت کی ضرورت کے تحت ترقی نہ کر سکا۔ اس کے مقابلہ میں روڈ ٹرانسپورٹ نے خوب ترقی کی ۔ مسافروں کی تعداد جو کہ پاکستان ریلوے کے ذریعے سفر کرتی تھی کم ہو کر صرف 9.0 فی صد ہوگئی۔ جبکہ دو ٹرانسپورٹ کے ذریعے تقریبا 92 فی صد مسافر سفر کرنے لگے ۔ اس طرح کل سامان کا 45 فی صد جو کہ ریلوے کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں پہنچایا جاتا تھا۔ اس کا حصہ کم ہو کر صرف 2.4 فیصد رہ گیا۔ پاکستان ریلوے ملک میں 7791 روٹ کلو میٹر ہے۔ محکمہ ریلوے کے پاس 577 گاڑیاں 1901 مسافر ڈبے (کوچ) اور 23939 سامان کے ڈبے ہیں۔ پاکستان ریلوے 72-1971 تک ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ اس کے بعد یہ ادارہ مسلسل خسارہ کا شکار ہے۔ 91-1990 میں پاکستان ریلوے کے ذریعے 84.9 ملین لوگوں نے سفر کیا۔ 02-2001 میں یہ تعداد کم ہو کر 69.0 ملین رہ گئی ۔ جبکہ 13-2012 کے پہلے لماء میں یہ تعداد صرف 31.42 ملین رہو گئی جبکہ 13-2012 میں گاڑیوں کی تعداد 753 سے کم ہو کر 515 اور سامان لے جانے والے ڈبوں کی تعداد 34851 سے کم ہو کر 17543 رہ گئی۔ پاکستان ریلوے کو سہارا دینے کے لئے محکمہ نے کچھ انقلابی اقدامات اٹھائے ۔ اس ضمن میں نان سٹاپ گاڑیوں کا جرا کیا گیا مثلاً کراچی اور لاہور کے درمیان مسافروں کی نقل و حمل کے لئے قراقرم ایکسپریس کراچی ایکسپریس اور شالیمار ایکسپریس کا اجرا کیا گیا۔ اس طرح را ولپنڈی ۔ کوئٹہ روٹ پر جعفر جمالی ایکسپریس کا اجرا کیا گیا۔ اس طرح چین سے نئی ٹکنالوجی کی درآمد کے ذریعے ریلوے کو بہتر انچہ بر مواصلاتی نظم کی فراہی کا پروگرام شروع کی گیا اس شعبہ میں سال میں 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا مقصد بھی بنایا گیا۔
پاکستان ریلوے کے مسائل
پاکستان ریلوے بہت سے مسائل کا شکار ہے ۔ اسی وجہ سے یہ ادارہ مسلسل الحطاط کا شکار ہے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں پاکستان ریلوے کا حصہ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے جو کہ اس ادارے پر لوگوں کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ آج بھی یہ ادارہ اگر خرابی کی وجوہات پر قابو پالے تو مسافروں اور تاجروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان ریلوے کے اہم مسائل درج ذیل ہیں.
کرپشن
مواصلات از رائع آمد و رفت اور انسانی زرائع کی ترقی پاکستان ریلوے کے بڑے مسائل میں سے ایک ادارہ میں پائی جانے والی کرپشن ہے۔ ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت۔ سامان میں خرد برد و غیر ہو جیسے مسائل کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد مسلسل مجروح ہوتا رہا ہے ۔ گذشتہ چند سالوں سے اس سلسلہ میں اقدامات کئے گئے۔ ٹکٹ ریزرویشن کا نظام کمپیوٹر ائر ڈکیا گیا ہے۔
غیر منافع بخش روٹ
سیاسی اور معاشی وجوہات کی بنا پر کئی ایسے روٹس پر گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں جو کہ مسلسل خسارے کا باعث ہیں۔
دیگر وجوہات
ماضی میں غیر صحت مند ٹریڈ یونین سرگرمیاں حکومتوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت غیر ضروری بھرتیاں کاروباری انداز میں معاملات کو نہ چلانے اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ ادارہ تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا اس سلسلہ میں کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں یہ سلسلہ کم ہو رہا ہے۔
خشک گودیاں اور بندرگا ہیں
ائر پورٹس اور بندر گاہوں کے علاوہ پاکستان میں آٹھ خشک گودیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان کے قیام کا بنیادی مقصد بندرگاہوں اور سرحدی علاقوں کے دور دراز کے علاقوں میں مال کی ترسیل کو آسان کرنا اور در آمد و بر آمد کے سلسلہ میں تاجروں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔ ڈرائی پورٹس کی تجویز سب سے پہلے 1967 میں صنعتوں کی وزارت نے پیش کی تھی۔ اس تجویز میں کہا گیا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں خشک گوریاں قائم کی جائیں ۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطالبہ پر سب سے پہلی خشک گودی 1973 میں لاہور میں قائم کی گئی۔ اسی (80) کی دہائی میں نیشنل لاجسٹک سیل کے قیام سے لاہور کی خشک گودی کو کافی تقویت حاصل ہوئی اور اس نے کافی بہتر سہولتیں فراہم کرنا شروع کر دیں۔ لاہور ڈرائی پورٹ کی کامیابی کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے تاجروں کی طرف سے نئی خشک گودیاںقائم کرنے کا مطالبہ بڑھتا رہا۔ جس کے نتیجے میں درج ذیل مقامات پر خشک گودیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حیدر آبادڈرائی پورٹ 1984 میں قائم کی گئی۔ سیالکوٹ ڈرائی پورٹ کا قیام نمی شعبہ کے اخراجات کے نتیجہ میں 1985 میں سمبر پال میں مل میں لایا گیا۔ بیڈرائی پورٹ گوجرانوالہ گجرات اور سیالکوٹ کے تاجروں کو درآمد و بر آمد کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان ریلوے نے 1986 میں ملتان اور پشاور میں خشک گودیاں قائم کیں ۔ اسی طرح 1987 میں کوئے 1990 میں راولپنڈی میں چکلالہ کے مقام پر اور 1994 میں نجی شعبے نے فیصل آباد میں خشک گودی قائم کی۔
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔