علاقائی اور بین الاقوامی اقتصادی تنظیمیں اور پاکستان کے حوالے سے ان کا کردار ⇐اقتصادی تعاون کی تنظیم ، سارک ، ڈبلیوئی او۔ پاکستان ہمیشہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے ۔ خصوصا اسلامی ممالک ساتھ پاکستان نے ہر دور میں اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے کوششیں کی ہیں۔ ہر – او آئی سی کا قیام ہو یا آرسی ڈی یا ای سی او یا سارک ، پاکستان نے ہمی ا علاقائی تنظیموں کا رکن ہے۔ ان اداروں کی چند ایک تفصیلات حسب ذیل ہیں: کے قیام اور ان کی مضبوطی کے لیے اقدامات کئے ہیں۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قیام کے وقت سے ہی پاکستان اس ایران اور ترکی ہمارے بر اور اسلامی ممالک ہیں۔ ان ممالک نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان بھی ہمیشہ ان کے ساتھ اپنے تعلقات کی مضبوطی کا خواہاں رہا ہے
اقتصادی تعاون کی تعظیم
ایران نے بڑھ چڑھ کر ریلیف اور بحالی کے کام میں تعاون کیا۔ 1964 میں صدر پاکستان ایوب خان نے ایران اور ترکی کو تجویز پیش کی کہ تینوں ممالک مل کر ترقی کے لیے پروگرام بنائیں اور اقدامات کریں۔ ایران اور ترکی نے اس تجویز کو قبول کیا اور یوں علاقائی تعاون برائے ترقی یا کی بنیاد رکھی گئی اور تینوں ممالک نے باہم مل کر ترقی کے کئی منصوبوں پر عمل درآمد کا آغاز کیا۔ جنوری 1985 میں کا نام تبدیل کر کے یعنی اقتصادی تعاون کی تنظیم رکھا گیا۔ اس وقت اس کے ارکان میں پاکستان ایران اور ترکی شامل تھے۔ بعد ازاں اس تنظیم میں سنٹرل ایشیا کے چھ ممالک قازقستان از بکستان ترکمانستان، کرغیزستان، تاجکستان اور آذربائیجان کے علاوہ افغانستان کو شامل کر لیا گیا اور یوں اس کے ممبر ممالک کی تعداد بڑھ کر دس ہوگئی۔ توقع ہے کہ ان ممالک کی شمولیت کے بعد یہ نظم مزید بہتر نتائج کی حامل ثابت ہوگی ۔
اس تنظیم کے قیام کے تین بنیادی مقاصد ہیں
ممبر ممالک کے وسائل کو باہمی طور پر استعمال میں لاکر فائدہ اٹھانا۔ با ہمی تجارت کا فروغ۔ مشترکہ سرمایہ سے نئی صنعتوں کا قیام۔ ان ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ ایک شاہراہ سے جوڑا گیا ہے جو کہ شاہراہ آرسی ڈی کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی مقاصد کے لیے مشترکہ ہوائیاور بحری کمپنیوں کے قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
سارک
جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون کا قیام 1983 میں عمل میں لایا گیا لیکن 1985 تک یہ تنظیم پورے طور پر رو بہ عمل نہ آسکی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینا قرار پایا۔ اس تنظیم میں درج ذیل ممالک شامل ہیں ۔ پاکستان بنگلہ دیشبھوٹان بیمپال مالدیپ سری لنکا بھارت اس تنظیم کے قیام کا خیال بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم جناب ضیاء الرحمن نے 1980 میں پیش کیا ۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں سارک ممالک کی کوئی بھی کا نفرنس منعقد نہ کروا سکے۔ تاہم ساتوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کو 1981 میں کولمبو میں جمع کیا گیا۔ 1981 1985 کے دوران ان ممالک کے چار اجلاس منعقد ہوئے ۔ ڈھاکہ میں 8.7 نمبر 1985 کو سارک ممالک کے سربراہان کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس نے تنظیم کو عمل میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اجلاس میں سارک تنظیم کے درج ذیل مقاصد متعین کئے گئے۔ -1 جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان اجتماعی خود انحصاری کو بڑھانا اور مضبوط کرنا۔ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا اور باہمی اعتماد سازی کے لیے اقدامات کرنا۔ رکن ممالک کے درمیان معاشی، ثقافتی، ٹیکنالوجی اور سائنسی میدانوں میں باہمی تعاون اور مددکوفروغ دینا۔ باہمی دلچسپی کے موضوعات پر بین الاقوامی فورمز پرمل جل کر یکساں مقاصد ر کھنے والا موقف اختیار کرنا۔ بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنا ۔
تنظیم نے باہمی تعاون کے فروغ کے لیے گیارہ شعبوں کا تعین کیا جن میں ٹیلی کمیونیکیشن، میٹرولوجی ٹرانسپورٹ جہاز رانی سیاحت زرعی تحقیق مشتر کہ باہمی منصوبوں کے فروغ سائنسی تکنیکی اور تعلیمی میدان میں تعاون کو فروغ دیا۔ تنظیم کی دوسری سربراہی کا نفرنس کا انعقاد 17,16 نومبر 1986 کو بنگلور بھارت میں اور تیسری سربراہ کا نفرنس کا انعقاد نومبر 1987 کھٹمنڈو نیپال میں ہوا۔ چوتھی سر براہی کا نفرنس 31,30,29 نومبر 1988 کو منعقد ہوئی۔ اسی طرح سارک ممالک کے در میان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف سارک ممالک میں سربراہی کا نفرنسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 2005 کی سارک سربراہ کا نفرنس کا اہتمام پاکستان میں کیا گیا۔ سارک ممالک کے درمیان کئی طرح کے سمجھوتے کئے گئے اور علاقائی بنیادوں پر بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ جن میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے۔ سارک کے قیام سے مختلف ممالک کے درمیان اور خصوصاً پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کوکم کرنے اور باہم مل جل کر چلنے کے جذبے کا اظہار ہوا۔ اس کے نتیجے میں۔ (الف) نیوکلیائی تنصیبات کا معاہدہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں ہر سال کی جولائی کو دونوں ممالک اپنی نیوکلیائی تنصیبات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ فضائی سروس کا معاہدہ ثقافت معاہدہ: اس معاہدہ کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ فائن آرش شفاف آمادہ د یرہ تعلیم اور اس میڈیا میں تعاون کریں گے۔ سارک ممالک کے درمیانکا معاہدہ کیا گیا۔ معلومات کے تبادلہ کے لیے کے نام سے معاہدہ کیا گیا جس کے تحت سارک ممالک ایک دوسرے کے ساتھ آڈیو، ویڈیو پروگراموں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جس سے ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ سارک ممالک نے باہمی طور پر غربت دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کئے ہیں۔ اور تعمیر و ترقی کے لیے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ان معاہدوں کے ذریعے بھی ان ممالک کی تعمیر وترقی اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ سارک کھیلوں کا انعقاد تو اب ایک مستقل سرگرمی کے طور پر جاری وساری ہے ۔ جس کے نتیجے میں ساتوں ممالک کے کھلاڑی ہر سال ان کھیلوں میں شرکت کرکے باہمی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن
آٹھ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اپریل 1994 کو رباط مراکش میں ہونے والی کانفرنس میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ 1944 میں برین وڈ کا نفرنس کے نتیجے میں یعنی وجود میں آیا ۔ جس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی تجارت پر عائد محصولات کو کم کرنا تھا ۔ پاکستان 1948ء میں کا رکن بنا۔ اس معاہدہ کے پیش نظر بین الاقوامی تجارت کو آزاد بنانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اسی لیے 1986 سے لے کر کے قیام کے لیے کوششیں ہوتی رہیں۔ بہت سے اختلافات کی وجہ سے یہ سلسلہ 1994 تک جاری رہا۔ 1994 میں یہ معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدہ میں 124 رکن ممالک شامل تھے۔ اس وقت اس کے ارکان کی تعداد 150 ہے۔ میں دیگر ممالک رکن بننے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ کے 150 ممالک دنیا کی 97 فی صد تجارت پر حاوی ہیں۔ ڈبلیوٹی او کے قوانین کا اطلاق جنوری 2005 سے ہو چکا ہے۔ کا فیصلہ ساز ادارہ وزارتی کا نفرنس ہے۔ جس کا ہر سال کم از کم ایک اجلاس ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک جنرل کونسل ہے۔ جنیوا میں ممبر ممالک کے سفیر اور آئے ہوئے وفود اس کونسل کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اور پراپرٹی کونسل ہیں۔ یہ تمام ادارے اپنی رپورٹیں جنرل کونسل کو دیتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف حوالوں سے سپیشلائزڈ کمیٹیاں اور ورکنگ گروپ ہیں۔ یہ گروپ مختلف ممالک کے انفرادی معاہدوں اور رکنیت وغیرہ کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
ڈبلیوٹی
درج ذیل مقاصد ہیں۔ بین الاقوامی تجارت کو آزاد کرنا۔ کو یہ ٹیرف اعانوں کو ختم کرنا۔ بین الاقوامی تجارت کو کاروباری چکروں اور اُتار چڑھاؤ سے بچانا۔WTO صارفین کو بہتر سہولتوں کی فراہمی۔ آجرین کو بہتر فوائد کی فراہمی۔ تجارتی رکاوٹوں سیاسی سماجی قانونی ثقافتی اور دیگر رکاوٹوں کو دور کرنا۔ عالمگیریت اور لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا۔
معاہدات
کے تحت تین بڑے معاہدے کئے گئے ہیں۔ جن کے نتیجے میں رکن ممالک کو بہت سے حقوق حاصل ہو گئے ہیں ۔ تمام رکن ممالک کے لیے ان معاہدوں کی پاسداری کرنالازم ہے۔ معاہدے درج ذیل ہیں۔ معاہدہ برائے زراعت اس معاہدے کے مطابق رکن ممالک کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ زراعت کے شعبے میں دیئے جانے والے امانوں کو کم کر کے 1986 کی سطح پر لے آئیں۔ اس معاہدہ کے مطابق : کوئی ملک اپنے کسانوں کو اعانہ نہیں دے گا۔ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی پیداوار پر اپنے ملک میں پابندی نہیں لگائے گا۔ کوئی ملک زرعی برآمدات پر اعانہ نہیں دے گا۔ لیکن ان شرائط پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ امریکہ یورپی یونین جاپان اور کوریا وغیرہ اس کی مخالفت کر رہے ؟ مالک چاہتے ہیں کہ ایسا کیا جائے۔ امریکہ میں دی جانے والی سبسڈی 30 فی صد ہے جبکہ پاکستان کو صرف 10 فی صد کی اجازت دی گئی ہے۔
تجارت سے متعلق انٹلیکچو ول پراپرٹی رائٹس
ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکہ جیسے ممالک کا مطالبہ ہے کہ چونکہ زیادہ تحقیق ان ممالک میں ہو رہی ہے جبکہ اس سے فوائد دوسرے بھی اٹھاتے ہیں۔ اس لیے ان ممالک پر لازم قرار دیا جائے کہ جو ادارہ کوئی سافٹ وئیرٹیکنالوجی وغیرہ استعمال کرے وہ اس ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے والے فرد یا ادارے کو اس پر رائلٹی ادا کرے اور اس ادارے کو اس کی فروخت کے مکمل اختیارات ہونے چاہئیں۔ اس معاہدہ کے تحت کے ممبر ممالک ایک دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کر سکیں گے اور ان پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
تجارت سے متعلق سرمایہ کاری کا معاہدہ
معاہدہ برائے زراعت کی رو سے پاکستان کے لیے لازم ہوگا کہ زرعی مداخل یعنی بیج کھاد اور زرعی ادویات پر سے امانے کو کم کیا جائے۔ اس کا اثر پاکستان کے زرعی شعبہ میں زرعی پیداوار کے مصارف میں اضافہ کی صورت میں نکلے گا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی زرعی پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ آزادانہ تجارت کی وجہ سے بیرونی زری اشیا کی کم قیمت پر فراہمی پاکستان پر کے اثرات مرتب کرے گی اور زرعی در آمدات میں اضافہ ہوگا، کپاس اور کپاس سے تار کردہ اشیا کی برآمد میں کی ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم اچھی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے مصارف پیداوار میں کمی کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ نئی منڈیاں تلاش کریں۔ اچھے بیچ اور کھادوں کے استعمال اور زرعی مشینری کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور پاکستان اس معاہدے کے برے اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
صنعتوں پراثرات
صنعتی شعبہ میں پاکستان کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے ۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ پہلے بھی بہت زیادہ تسلی بخش انداز میں ترقی کی منازل طے نہیں کر رہا تھا اور اب چین، بھارت، فلپائن اور تھائی لینڈ وغیرہ کی سستی اشیا کے ساتھ سخت مقابلہ در پیش ہے۔ درآمدی اشیا کا ایک سیلاب ہے جو چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے آجر اور تاجر اندرون ملک اشیا پیدا کرنے کے بجائے چائنا وغیرہ سے مال تیار کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سے ملکی صنعت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ٹیکہ ٹائل کی صنعت اس وقت بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے ۔ کوٹہ کی پابندیوں کے خاتمہ کے بعد ہمیں کئی ملکوں کے ساتھ مقابلہ در پیش ہوگا۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں مزید محنت کرنی ہوگی ۔ صنعتی شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں اور دیگر افراد کی بہتر ٹریننگ پر توجہ دینا ہوگی ۔ ٹیکسٹائل مشینری کو جدید بنانا ہوگا ۔ خام اشیا کی برآمد کی بجائے تیار شدہ اشیا کی پیداوار پر توجہ دینا ہوگی۔ اسی طرح دیگر صنعتوں کی بہتری پر توجہ دے کر ہم ان حالات کا مقابلہ کر سکیں گے۔
توازن ادائیگیوں پراثرات
اعانوں میں کمی کرنے سے ہماری صنعتی اشیا کی پیداواری لاگت بڑھے گی۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری صنعتی اشیا کا معیار بھی کم درجہ کا ہے۔ پاکستان جو اشیا دیگر ممالک کو برآمد کرتا ہے ان کی تعداد بھی کر۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر ہماری برآمدات پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمیں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان دوسرے ممالک سے بہت سی اشیا در آمد کرتا ہے۔ کے نتیجے میں پاکستان کی درآمدات کی قیمت کم ہونے کی توقع ہے لیکن دوسری طرف درآمدات کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے ہمارا اور آمدی بل مسلسل بڑھ رہا ہے۔ درج بالا وجوہ کی بنا پر پاکستان کے توازن ادائیگی کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ البتہ تو ازن تجارت کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان بھی برآمدات کو بڑھانے اور برآمدات کا معیار بہتر بنا کر بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کرنے کی صورت میں کے قوانین سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
کے سماجی وثقافتی اثرات
بین الاقوامی منڈی میں آزادانہ تجارت کے بڑھنے سے ہر طرح کی اشیا کی درآمد بڑھنے سے بہت کی سماجی ثقافتی تبدیلیاں آنے کے امکانات ہیں۔ معاشرتی تبدیلیاں مذہبی روایات کے کمزور ہونے کی صورت اختیار کریں گی۔ مادیت بڑھے گی ۔ معاشرتی روایات اور باہمی رشتے کمزور ہوں گے۔ اطلاق کی صورت میں امیر ممالک زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ بڑے ادارے کی اجارہ داریاں قائم ہونے کے ان قوانین کے امکانات ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف تو غریب ممالک میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری بڑھے گی۔ روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے۔ درآمدی اشیا کے متبادل اندرون ملک پیدا ہو نگے ۔ دوسری طرف یہ کمپنیاں اپنا منافع پنے ہیڈکوارٹرز اور متعلقہ مالک کوبھیجیں گی جس سے ان کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو بہت سوچ سمجھ کر اپنی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “قانون “علاقائی اور بین الاقوامی اقتصادی تنظیمیں اور پاکستان کے حوالے سے ان کا کردار” کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ