غیر ملکی تاجروں سے شناسائی کا فقدان ⇐ تاجروں کو ایک دوسرے سے فاصلہ پر ہونے کی وجہ سے باہمی مفاہمت کے مواقع کم میسر آتے ہیں۔ جس سے عہد پیمان میں شامل ہوتے وقت، ایک یا دونوں فریق ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
بیرونی منڈیوں کے قوانین سے عدم واقفیت
غیر ملکی منڈیوں کے دور دراز ہونے کی وجہ سے بروقت اور پوری واقفیت نہیں مل سکتی۔ یہی عدم واقفیت ، غیر ملکی تجارت کے لیے سدراہ بن جاتی ہیں۔ کاروبار آزادانہ طور پر نہیں ہو سکتا۔
محصولات درآمد و برآمد
غیر ملکی اشیاء کو منگوانے پر بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اشیاء اپنی اصل قیمت سے مہنگی پڑتی ہیں۔ اس طرح غیر ملکی تجارت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
زبانوں میں اختلاف
زبانوں کا اختلاف دو ملکوں کے درمیان تجارت کے راستے میں ضروری خط و کتابت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ زبان کے اختلاف کی وجہ سے اعلیٰ سطح پر شیر اور لیبل وغیرہ لگانے کا کام تسلی بخش نہیں ہو سکتا۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے تجارتی اداروں کو مختلف زبانوں کے ماہرین رکھنے پڑتے ہیں۔ یا یہ کام چیمبر آف کامرس کی مدد سے آسمان کیا جا سکتا ہے۔ تاجروں پر اسی طرح زائد مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔
ادائیگی میں دشواریاں
ہر قوم ایک مخصوص قسم کا زر بطور قد نما استعمال کرتی ہے۔ مثلا پاکستان میں روپیہ، کینیڈا میں ڈالر جاپان میں بین ، یونان میں درا چماہ میکسیکو میں پیو، ہالینڈ میں گلڈر، اور اٹلی میں لیرا زرگردش میں ہے۔ یہ حالات ایک ایسی میکانیت کا تقاضا کرتے ہیں جس سے کرنسی اس کی اپنی شکل میں ادا کی جائے ۔ یا ایک دوسری شکل میں تبدیل ہو سکے۔ کسی وقت سونا” مشترک قدر نما کے طور پر فراوانی سے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب ہونے کی کمیابی نے تجارت میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ہر ملک کی متعلقہ زر کی قدروں میں امکانی کمی پیشی اسی شکل میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ جن ممالک کو جنگ کا سامان کرنا پڑتا ہے ان کا مختص ہونا کم ہو جاتا ہے۔ جس سے غیر ملکی تجارت کے دوران نہ تو ڈالروں میں قیمت ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی برآمدات کے ذریعہ کسی ملک کی کرنسی حاصل کر سکتے ہیں۔
تجارتی اشیاء پر پابندی
بعض دفعہ مخصوص حالات کے تحت غیر ملکی تجارت کے راستے بالکل مسدود ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ رکاوٹیں بنتی ہیں جو کہ نرخ ناموں، حصہ رسد، زرمبادلہ کی پابندیوں، براہ راست مبادلہ یا بعض اشیاء کے مکمل امتناع پر مشتمل ہوتی ہیں۔
ذرائع آمد و رفت میں دشواریاں
ذرائع آمد ورفت کا عصر غیرملکی تجارت سے مشخص کرتا ہے۔ وقت پر ان ذرائع کا انتظام وانصرام نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار کی ساکھہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ذرائع آمد و رفت کا معاوضہ اشیاء کی اپنی قیمتوں سے زیادہ ہو۔
اشیاء کی منتقلی میں نقصان کا امکان
غیر ممالک سے اشیاء کو اندرون ملک لانا بہت بڑے نقصان کو دعوت دیتا ہے۔ اس نقصان سے انا بچنے کے لیے مال کا بیمہ کروانا پڑتا ہے کئی ایک کمپنیوں سے معاہدہ کرنا پڑتا ہے جس سے کئی قسم کی مشکلات سامنے آتی ہیں۔
متفرق دشواریاں
بعض ممالک کے رسم و رواج ، عادات، قانونی پابندیاں، حکومت کے نظریات اور سیاسی قسم کے نظام تجارت میں سدراہ بنتے ہیں۔ یہ بات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ تاجر کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جن ممالک کے ساتھ وہ غیر ملکی تجارت میں اپنا عہد و پیمان استوار کرنا چاہتا ہے۔ اس کی عائد کردہ پابندیاں اور رسم و رواج کیا ہیں ۔
برآمدات سے متعلقہ مسائل کا حل
برآمدات سے متعلقہ مسائل کے حل اور دیگر امور میں راہنمائی کا درج ذیل طریق کار اپنایا جائے۔ بیرون ملک خریداروں سے رابطہ استوار رکھا جائے ۔ غیر ملکوں سے آنے والے ٹنڈر، اطلاعات اور کاروباری دریافتوں کا ریکارڈ رکھا جائے۔ دفتر کے افسران غیر مکی درآمد کندگان سے بالمشافہ گفتگو کے مواقع فراہم کریں۔ غیر ملکی تاجر کی ساکھ اور کاروبار سے متعلق اس کا لوگوں پر اعتماد معلوم کرنے کے ذرائع تلاش کیے جائیں ۔ جہازی ترسیل عمل میں لاتے وقت جہاز میں جگہ کا کما حقہ انتظام قبل از وقت کر لیا جائے۔ – بیرونی منڈیوں میں روشن امکانات ہونے کا جائزہ اس نہج پر لیا جائے کہ کس شعبہ کی پیداوار کی مانگ کسی جگہ پر زیادہ ہے۔ برآمدات کے دوران پیدا ہونے والے جھگڑوں کی ثالثی کا انتظام کیسے ہوگا۔ بیرونی منڈیوں میں مال کی فروخت کاری میں جاذبیت پیدا کرنے کے لیے اپنے مال کی نمائش کا موزوں جگہوں پر انصرام کیا جائے۔ و بیرون ممالک تجارتی دورہ پر گئے ہوئے ماہرین سے ان کی واپسی پر رپورٹیں حاصل کر کے اپنی کار کردگی میں تبدیلی پیدا کرنا۔ غیر ملکی برآمد کنندگان سے ان کے پاکستان آنے پر اپنی مصنوعات سے متعلق تاثرات معلوم کرنا۔ بیرون ملک پاکستانی مصنوعات کو مشتہر کرنا۔ برآمدات کی ترقی کے لیے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر زیادہ سہولتیں بہم پہنچانا۔ مر زیادہ – مصنوعات کے نمونہ جات میں مسابقت کے پیش نظر تبدیلی کرنا۔ – اپنے دفتر کی بیرون ملک شاخیں قائم کرنا، تا کہ تازہ ترین حالات سے آگاہی رہے اور ضرورت پڑے تو مصنوعات کو خریداروں تک پہنچانے میں آسانی رہے۔ برآمدات کے فروغ کے لیے بیرون ملک جانے کیلئے ویزا حاصل کرنا۔ دفتر کے عملہ کو بر آمدی طریقہ کار کی تربیت کی سہولت بہم پہنچانا۔ کو بر آیا بیرون ملک قائم شدہ پاکستانی تجارتی وفات ہرقسم کی اطلاعات وصول کرتے رہنا۔
بیرونی تجارت کی اقسام
بیرونی تجارت کو دو شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو کہ برآمدی اور درآمدی تجارت کے نام سے موسوم ہیں۔
برآمدی تجارت
برآمدی تجارت سے مراد ایسی تجارت ہے جس میں اندرون ملک کی پیداوار دیگر ممالک کو بھیجی جاتی ہے۔ اپنے ملک کے اندر پیدا کیا ہوا مال جب ضرورت سے زیادہ ہو یا دوسرے ممالک کی نسبت اس کی پیدائش میں کم لاگت آتی ہو تو یہی مال دوسرے ممالک کے ہاتھ فروخت کرنا بر آمدی تجارت کہلاتا ہے۔ اس سے ملک کے لوگوں کو روز گار بھی مہیا ہو جاتا ہے۔ نیز زرمبادلہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں برآمدی تجارت
انتظام و انصرام مختلف قسم کی بھی اور سرکاری تنظیمیں سرانجام دے رہی ہیں۔ ان تنظیموں سے متعلقہ صنعت کار یا مالکان اپنی خود ساختہ اشیاء یا دیگر ذرائع سے ساخت شده مال حاصل کر کے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ اس مال کی ترسیل کی ذمہ داری براہ راست قبول کر لیتے ہیں۔ یا بذریعہ ترسیلی کارندہ مال برآمد کیا جاتا ہے۔ ترسیلی کارندے مال کی برآمد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہر قسم کی عائد کردہ پابندیوں کو پورا کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ ترسیلی کارندے سے ضرورت پیش آنے پر مال کی درست طریق سے پیکنگ وغیرہ میں بھی محمد ہوتے ہیں اور جہازی ترسیل کا خاطر خواہ انتظام کرتے ہیں۔
برآمدی بونس سکیم
برآمدی بونس سکیم کے تعارف سے بہت سے صنعت کار اور برآمد کنندگان بڑی کامیابی سے اشیاء کی برآمد کر رہے ہیں۔ بعض صنعت کار صرف انہی اشیاء کی پیدائش پر زور دیتے ہیں جن کو برآمد کرنے میں فائدہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی کی ایک فرم جوار شرٹ فرم اپنی سو فیصد ملبوسات بیرون ملک بھیجتی ہے۔ ترسیلی نمائندے عموماً ایسے صنعت کاروں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی مصنوعات کے متوازی کوئی مسابقت نہیں ہوتی، وہ اپنی ذمہ داری پر مال برآمد کرتے ہیں یا بر آمدی تاجر کی طرف سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ سرکاری تنظیمیں جن میں سے ایک ٹریڈنگ کارپوریشن بھی ہے۔ بیرون ملک سے خریداروں سے مال مہیا کرنے کے لیے حکم نامے وصول کرتی ہے۔ برآمدی تاجر ایسے کاروباری ادارے ہوتے ہیں جن کا مقصد مقامی منڈیوں سے مال خرید کر بیرونی منڈیوں میں گاہکوں کو مال فروخت کرنا ہوتا ہے۔ برآمدی تاجر یا زرعی پیداوار میں تخصیص حاصل کرتے ہیں یا مصنوعات میں برآمدی تاجر بہت بڑے سرمائے کے مالک ہوتے ہیں اور وسیع پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تاجر یا تو گاہکوں سے حکم نا سے وصول کرنے کے بعد مال خریدتے ہیں پا پیش گوئی کر کے مال کا ذخیرہ کر لیتے ہیں۔
بیرون ملک برآمدی تجارت کو فروغ دینے کے ذرائع
برآمدی تجارت کا سب سے مشکل اور اہم پہلو غیر ملکی خریداروں سے حکم نامے وصول کرنا ہے۔ مختلف تنظیمیں اپنے کاروبار کی نوعیت کے مطابق مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ذیل میں چند ذرائع کا ذکر کیا گیا ہے جو برآمدی تجارت کے فروغ کے لیے ہر قسم کے کاروبار میں مشترک سمجھے جاتے ہیں۔
ادارہ فروغ برآمدات
اوائل میں ہمارے ملک کے اندر محکمہ ترقی برآمدات ، محکمہ تجارتی اطلاعات اور محکمہ نمائش برآمدات وغیرہ قائم تھے۔ ان تمام محکموں کا ادغام 1963ء میں ایک نئے ادارہ ادارہ فروغ برآمدات میں کر دیا گیا ہے۔ یونٹ میں اس ادارہ کا تذکرہ تفصیل سے موجود ہے۔
برآمدی منڈیوں کا ترقیاتی فنڈ
برآمدات بڑھانے کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ بیرونی ممالک میں ان کی تشہیر کا انتظام ہو اور مسابقت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا پورا پورا علم ہو، برآمدی ادارے اس بات سے آگاہ ہوں کہ کسی قسم کی اشیاء کی بیرونی منڈیوں میں مانگ ہے۔
برآمدی منڈیوں کا ترقیاتی فنڈ
برآمدات بڑھانے کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ بیرونی ممالک میں ان کی تشہیر کا انتظام ہو، اور مسابقت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا پورا پورا علم ہو۔ برآمدی ادارے اس بات سے آگاہ ہوں کہ کس قسم کی اشیاء کی زیادہ طلب ہے۔ ان عنوانات سے متعلقہ ہر قسم کا مشورہ دینے کے لیے بیرونی منڈیوں کا سروے کرنے والی پارٹی کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔ مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ادارہ فروغ برآمدات نے ایک مخصوص فنڈ قائم کیا ہوا ہے۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان
1967ء میں اس کار پوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ملک کی درآمدی پالیسی کے تحت معنی خام مال اور مال صرف درآمد کرتی ہے۔ اس کا ادا شدہ سرمایہ پانچ کروڑ روپیہ ہے۔ یہ در آیات اور برآمدات میں حصہ لیتی ہے۔ یہ کارپوریشن چھوٹے اور درمیانے درجے کے برآمد کنندگان کے لیے بڑی محمد و معاون ثابت ہوئی ہے۔
برآمدی بونس حکیم
حکومت پاکستان نے برآمدات کو فروغ دینے کے لیے یہ حکم جاری کی تھی۔ اس حکیم کے تحت زر مبادلہ کی کمائی کا ایک خاص مناسب بر آمد کنند حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس حصہ کو بونس کا نام دیا گیا ہے۔ زرمبادلہ کی شکل میں ملی ہوئی رقم انہیں دستاویز کی شکل میں دی جاتی ہے جسے بونس واؤچر کہتے ہیں۔ برآمدکنندگان اس واؤچر کو 50 یا 200 فیصد مالیت پر فروخت کر سکتے ہیں۔ بونس کی حصولی کی توقع نے برآمد کنندگان کو برآمدات بڑھانے میں ترغیب دی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ذکر کرنے کے قابل ہے کہ 1972ء میں پاکستان میں روپے کی قدر کم ہو جانے سے برآمد کنندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
چاول کی برآمدی کارپوریشن
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پیداوار کے سلسلہ میں یہ خود کفیل ہی نہیں ہو چکا بلکہ چاول کو اپنی ضرورت سے بہت زیادہ پیدا کر رہا ہے۔ 1974ء میں چاول کی فاضل پیداوار کو برآمد کرنے کے لیے رائس ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان قائم کی گئی ۔ اس کا منظور شدہ سرمایہ 5 کروڑ روپیہ ہے۔ منڈیوں کی تلاش کے لیے وفود بھیجنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کارپوریشن کا سالانہ منافع 12 کروڑ روپیہ ہے۔ اندرون اور بیرون ملک تشہیر کرنے کا انتظام و انصرام کرتی ہے۔
برآمدی قرضوں کی ضمانتی سکیم
اس سکیم کے تحت برآمدکنندگان کو رقوم کی عدم ادائیگی کے خلاف تحفظ مل جاتا ہے۔ برآمد کنندگان پاکستان انشورنس کارپوریشن سے بیمہ کروا لیتے ہیں۔ اس کے عوض انہیں معمولی کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس سکیم سے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بیرون ملک سے وصول ہونے والی رقوم پر سیاسی تجارتی خطرات اثر انداز نہیں ہوتے ۔ نیز عدم ادائیگی کی صورت میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کارپوریشن ہی قبول کرتی ہے۔ یہ حکیم 1962ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس کارپوریشن کی یقین دہانی پر برآمد کنندگان ثبت ماحول میں برآمدات بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کمانا ہے۔
کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان
ی یہ کارپوریشن 1973ء میں قائم ہوئی۔ اس کا آغاز پانچ کروڑ کے منظور شدہ سرمایہ سے کیا گیا۔ ی طور پر کارپوریشن کپاس کی فروخت کے سلسلہ میں خریداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور معاہدوں کے مطابق کپاس کی ترسیل کرتی ہے۔ جھگڑے کی صورت میں فریقین کے درمیان مصالحت کی فا پیدا کرتی ہے۔ کپاس کی ریل کرتی ہے۔ کپاس ھے باندھنے اور انھیں بنانے کے کام کو میری بڑی بنانے میں بہت بڑی دیپسی کا اظہار پیدا کرتی ہے۔
ایکسپورٹ فنانس سکیم
پیکیم 1978 ء بر آمدات کو فروغ دینے کے سلسلہ میں جاری کی گئی۔ اس سکیم کے تحت سٹیٹ بنک آف پاکستان ، تجارتی بنکوں کو صفر فیصدی شرح سود پر قرضہ فراہم کرتا ہے جس کو تجارتی بنک %39 شرح پر برآمد کنندگان کو قرضہ فراہم کرتے ہیں۔ اس حکیم سے برآمد کنندگان کو بر وقت امدادل جاتی ہے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ایکسپورٹ ریپیٹ سکیم
سلے ہوئے کپڑے، ہوزری کی اشیاء، قالین ، کھیلوں کا سامان، رومال، تو لیے اور سوت سے تیار کرده اشیاء بیرون ملک مقبول بنانے کے لیے حکومت نے برآمد کنندگان کو کٹم کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ تا کہ بیرون ملک اپنی مصنوعات کو مقبول بنایا جائے۔
ایکسپورٹ پروسیسنگ زون
برآمدات کے شعبہ کو ترقی دینے کے لیے لاہور اور کراچی دو مخصوص شہروں میں صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تمام کا تمام مال برآمد کیا جائے گا۔ اس صنعتوں کے قیام میں مقامی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ فراہم کیا ہے۔ کراچی کا زون کم و بیش مکمل ہو گیا ہے۔ ان علاقوں میں صنعتیں قائم کرنے والوں کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ وہ جو نیم خام مال یا مشینری منگوانا چاہیں اس پر درآمدی ٹیکس نہیں لگے گا۔ اس طرح جب ان کا تیار شدہ مال بر آمد کیا جائے گا تو برآمدی ٹیکس بھی معاف ہوگا۔
درآمدی تجارت
کسی دوسرے ملک سے اشیاء اندرون ملک منگوانے کو درآمدی تجارت کہتے ہیں۔ یہ اشیاء بیرونی ممالک سے براہ راست بھی اور کسی انڈنٹ فرم کے توسط سے بھی منگوائی جاسکتی ہے۔
درآمدی تجارت کی تنظیم
چونکہ یہ تجارت دو ملکوں کے درمیان ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تنظیم کے شعبے دونوں متعلقہ ملکوں میں پھیلے ہوتے ہیں۔ درآمدی تجارت کی تنظیم کو مندرجہ ذیل تین شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
- مال کی فراہمی
- متوسل عاملین
- مال کی تقسیم
مال کی فراہمی
در آمد تجارت میں یہ شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جو برآمدی ملک میں کام کرتا ہے۔ یہ شعبہ برآمد کرنے والی اشیاء کو مختلف جگہوں سے حاصل کر کے ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے۔ اور پھر مال کو اقسام کے لحاظ سے الگ کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ مال و درجوں کے اتار ے برآمد کندگان کو ہنچا دیتا ہے۔ تجارت کے مذکورہ شعبے میں دو قسم کے لوگ کام کرتے ہیں۔ ایک چھوٹے پیمانے پر مال فراہم کرنے والے اکثر و بیشتر اپنے نمائندوں کے ذریعے مختلف منڈیوں سے مال حاصل کرتے ہیں۔
متوسل عاملین
درآمدی تجارت میں اس شعبے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ شعبہ بھی دونوں ملکوں میں کام کرتا ہے۔ یہ شعبہ دوا ہم کام انجام دیتا ہے۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔ (الف) فروشندہ ملک کے برآمد کنندگان کے لیے۔ خریدار ملک کے درآمد کنندگان کے لیے۔ فروشندہ ملک کے برآمد کنندگان کے فراہم کاروں سے مال خرید کر ملک کے درآمد کنندگان کے پاس بھیج دیتے ہیں، پھر ان درآمد کنندگان سے مال تھوک فروش خود خرید لیتے ہیں۔ اس کے بعد مال بالترتیب خوردہ فروشوں اور عام گاہکوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ فروشندہ ملک کے برآمد کنندگان اور خریدار ملک کے درآمد کا بیرونی تجارت میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس سرمائے کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ لوگ دوسرے ملکوں کی منڈیوں سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں اور عام طور پر دوسرے ملکوں کے تاجروں سے بھی ان کے تعلقات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مال کی درآمد برآمد میں کوئی خاص وقت نہیں ہوتی۔
مال کی تقسیم
اس شعبہ کا تعلق صرف خریدار ملک سے ہوتا ہے۔ اس شعبہ میں ملک کے عام تھوک فروش اور خوردہ فروش حصہ لیتے ہیں۔ تھوک فروش کافی مقدار میں مال درآمد کنندگان سے خرید لیتے ہیں۔ ان سے پھر خورده فروش حسب ضرورت مال خرید لیتے ہیں اور تھوڑا تھوڑ ا عام گاہکوں کو فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ڑا کو مال کی درآمد میں کمیشن ایجنٹ بھی بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کمیشن ایجنٹ دوسرے کے لیے مال در آمد کرتا ہے اور پھر اپنی خدمات کا معاوضہ کمیشن کی صورت میں وصول کرتا ہے۔ لیکن یورپین ممالک در آمد تجارت اس طریقہ پر بھی کرتے ہیں کہ جو ممالک ان کے لیے مال خریدتے ہیں ان ملکوں کے بڑے بڑے تاجر دوسرے ممالک میں اپنے ذیلی دفاتر قائم کر دیتے ہیں۔ تو یوں انہیں مال ستا اور اعلیٰ کوالٹی کا مہیا ہو جاتا ہے۔
انڈنٹ فرم
یہ نمائندہ فرم ہے جو کہ ان تاجروں کے لیے مال درآمد کرتی ہے جو خود درآمدی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا چاہتے ہوں۔ یہ فرم اپنے لیے مال درآمد نہیں کرتی بلکہ خواہش مند تاجروں سے آرڈر وصول کر کے فرمانے مند کر ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کا مطلوبہ مال درآمد کرتی ہے۔ تاجر انڈنٹ فارم پر کر کے اس فرم کو اپنا نمائندہ تسلیم کر لیتا ہے اور درآمدگی کے حقوق اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ انڈنٹ فارم تمام کارروائی کے مکمل ہو جانے کے بعد متعلقہ ملک میں اپنی شاخ سے رابطہ قائم کرتی ہے اور وہ مال براہ راست تاجر کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یہ فرم تاجر سے کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتی بلکہ تاجر سے اپنی خدمات کے عوض کمیشن وصول کرتی ہے۔ اس طریق کار سے
- تاجر بہت کی پیچیدگیوں سے بچ جاتے ہیں
- تاجر کو مخصوص قسم کا لائسنس حاصل نہیں کرنا پڑتا
- تاجر کو مطلوبہ مقدار میں مال منگوا کر دیا جا سکتا ہے
درآمدی معاملات سے لاعلم ہونے والے تاجر سہولت سے مال حاصل کر لیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک اور نو آزاد ممالک میں انڈنٹ فرموں کا جال پھیلا ہوا ہے یہ فر میں نفع کا بہت سا حصہ بطور کمیشن وصول کر لیتی ہیں۔ یہ فرمیں ملک کے بڑے بڑے شہروں اور ساحلی شہروں میں بہتات سے واقع ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "غیر ملکی تاجروں سے شناسائی کا فقدان" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ