فقر الدم انیمیا

فقر الدم انیمیاایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 36 فیصد دیہی آبادی اور 56 فیصد شہری آبادی انیمیا کا شکار ہے جبکہ پاکستان کی حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں میں یہ نقص 70 سے 80 فیصد تک دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح نو جوان لڑکیوں  سکول جانے والے بچوں میں بھی یہ مرض عام دیکھا گیا ہے ۔ مختلف افراد میں اس مرض کی نوعیت بھی فرق ہوتی ہے اور وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں۔

فقر الدم  انیمیا

 

انیمیا کی تین بنیادی اقسام

  • قلت خون
  • خون کا ضیاع
  • سرخ خلیوں میں خرابی

قلت خون

قلت خون کا نقص اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی وجہ سے جسم میں خون کافی مقدار میں نہیں بن سکتا۔ خون نہ بنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کھانے میں آئرن کی کم مقدار آئرن کا مکمل طور پر جسم میں جذب نہ ہونا سرخ خلیوں کو بنانے والے دوسرے عناصر کی کمی ۔ مثلاً کوبالٹ ۔ 

خون کا ضیاع

بعض اوقات جسم سے خون کے بہہ جانے سے بھی انیمیا ہو جاتا ہے یہ صورت عموماً خواتین میں عام ہوتی ہے۔ جو ماہواری کے دوران زیادہ خون ضائع ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مردوں میں یہ مرض عموماً بواسیر کے مریضوں میں عام ہوتا ہے اسی طرح السر کے مریضوں میں بھی بعض اوقات زیادہ خون ضائع ہو جاتا ہے اور مریض انیمیا کا شکار ہو جاتا ہے۔ پیٹ کے کیڑے بھی دیہی علاقوں میں رہنے والے بچوں میں انیمیا پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔

سرخ خلیوں میں خرابی

بعض اوقات خون کی نالیوں میں بھی سرخ خون کے خلیے مرنے شروع ہو جاتے ہیں یا تو ان سرخ خلیوں میں خود اپنے میں کوئی خرابی ہوتی ہے یا پھر خون میں کوئی ایسا مادہ موجود ہوتا ہے جوان خلیوں کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ اس قسم کے انیمیا میں خون کی کمی کا سبب غذائی اجزاء کی جسم میں کمی نہیں ہوتا بلکہ خون کے سرخ خلیوں میں خرابی ہی اس قسم کے انیمیا کا سبب بنتی ہے۔

انیمیا سے متاثر ہونے والے افراد

ایک چھوٹے بچے کو انیمیا عموماً چار یا چھ ماہ کی عمر کے بعد لاحق ہوا ہے کیونکہ اس وقت تک جسم میں آئرن کا ذخیرہ ختم ہو جاتا ہے اور ایسی مائیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہوں لیکن ان کی اپنی غذا میں لو ہے یا فولاد کی کمی ہوتی ہو تو ان کے بچوں کو انیمیا کا مرض ہو جاتا ہے۔ اگر ایسی نائیں اپنے بچوں کو چار ماہ کی عمر سے ٹھوس غذا میں بھی نہ دیں تو نیچے کا یہ مرض ہو جاتا ہے لیکن اگر چار ماہ کے بعد ٹھوس غذا میں دینی شروع کر دی جاتیں تو ماں کے دودھ میں فولاد کی یہ کمی غذا پورا کر دیتی ہیں اور بچہ انیمیا کا شکار نہیں ہوتا۔ سکول جانے والے بچوں میں انیمیا عموماً پیٹ کے کیڑوں کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ اس زمانے میں بچے بغیر دھلے اور بگیر ڈھکی اشیاء بازار سے خرید کر کھاتے ہیں جس سے مختلف قسم کے کیڑوں کے اللہ سے ان کے پیٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ کیڑے بچوں کی خوراک کو ہضم کر جاتے ہیں جس سے جسم میں خون صحیح طور پر نہیں بن پاتا اور بچے مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں میں یہ مرض ہر ماہ خون کے ضائع ہونے سے عمل میں آتا ہے۔ لہذا مزید خون پیدا کرنے کیلئے خوراک میں زیادہ سے زیادہ فولا دیا آئرن شامل کر لینا مفید ہوتا ہے۔ حاملہ عورتوں کی خوراک میں فولاد کی کمی انیمیا کو جنم دیتی ہے اس دوران ماں کی آئرن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ تاکہ بچے اور ماں دونوں کو مناسب مقدار میں فولاد ملتا ر ہے تا کہ مناسب مقدار میں کون بفتار ہے۔ خیال رہے کہ عام حالات میں انسانی خوراک میں موجود آئرن کا صرف دس فیصد حصہ جذب ہو جاتا ہے لہذا ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ آئرن کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بوڑھے افراد اور ڈھلتی عمر کے افراد میں اگر کہیں خاص قسم کا مرض یعنی بواسیر یا سینے کا السر ہو جائے تو یہ انیمیا کا مرض بن جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ انیمیا سے بچنے کیلئے ایسے تمام امراض سے بچیں جن کے دوران جسم سے خون ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔

انیمیا کی علامات

انیمیا کے شکار افراد عموماً کمزوری مسلسل تھکن اور سانس کے پھولنے کی شکایت کرتے ہیں ان کا رنگ عموماً زردی مائل ہو جاتا ہے۔ ناخنوں میں سفید چناخ پڑ جاتے ہیں ۔ ایسے مریض جو کمزوری اور مسلسل تھکن کی شکایت کرتے ہیں اگر ان کے خون کا کیمیاوی معائنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرخ خلیے جس سے میں چھوٹے اور تعداد میں کم بھی ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خوان کے سرخ خلیوں والے مادے کی مقدار بھی معمول سے کم ہو جاتی ہے۔ انیمیا کے مریض بچوں اور عورتوں کے خون میں ہیموگلوبن ( سرخ خلیوں والا مادہ ) 11 سے 12 گرام سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ یہ مقدار ایک سو مکتب سینٹی میٹر خون میں موجود ہوتی ہے جبکہ عام حالات اور صحت مند خواتین اور بچوں کے خون میں یہ مقدار 12 گرام سے اوپر ہوتی ہے۔

انیمیا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

قلت خون کی بنیادی وجہ معلوم کی جائے اور ایسے مریضوں کو وہ ادویات دی جائیں جن میں فولاد اور حیاتین ب مخلوط خصو صا حیا تین ب 12 اور فولک ایسڈ موجود ہو۔ 2۔ ننھے بچوں کو مکمل اور متوازن خوراک دی جائے اور وقت پر ٹھوس غذاؤں کا استعمال شروع کیا جائے۔ غذا میں لوہے کی مقدار مناسب ہو کیونکہ لوہا بہت کم مقدار میں جذب ہوتا ہے۔ اس کے جذب ہونے کا تناسب 1:10 ہے۔ اگر غذا میں 10 ملی گرام لوہا ہو گا تب جسم کو ایک ملی گرام لوہا ملے گا اس لئے ایسی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں جن میں لوہا وافر مقدار میں موجود ہو۔  غذا متوازن ہو۔ غذائی ضروریات کا خیال رکھا جائے خصوصاً بڑھتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو جو حاملہ ہوں یا چھوٹے بچوں کو دودھ پلاتی ہوں۔ پیٹ میں اگر کیڑے ہوں تو ان کا علاج کروایا جائے کیونکہ کیڑوں کی وجہ سے بھی قلت خون کی شکایت ہو جاتی ہے۔  علاج اور انسداد ایسی صورت میں زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو غذا کے اصول ذہن نشین ہوں جس کے واسطے غذائی تعلیم بہت ضروری ہے۔

فولاد کا جسم میں معمول سے زیادہ اضافہ

اگر چہ معنی نمکیات جب جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جلد ہضم ہو کر جسم میں جذب ہو جاتی ہیں اور جذب شدہ نمکیات جلد ہی ضرورت کے مطابق استعمال ہو جاتی ہیں جبکہ باقی ماندہ نمکیات بشم شدہ اجزاء کے ساتھ جسم سے خارج ہو جاتی ہیں لیکن لوہے کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ دوسری نمکیات کی طرح جسم سے جلد خارج نہیں ہوتا ۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ جب انجکشن کے ذریعے آئرن خون میں داخل کیا جاتا ہے یا پھر ضرورت کے وقت انسان کو خون دیا جاتا ہے جس سے جذب ہونے کا وقت خرچ ہونے سے بچ جاتا ہے اور آئرن ایک دم خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں خون میں موجود کچھ آئرن تو نور ضرورت کے مطابق استعمال ہوتا ہے اور جو ہائی ضرورت سے زیادہ آئرن فورا جسم سے خارج ہونے کی بجائے جسم میں سٹور ہو جاتا ہے۔ یہ سٹور شدہ مقدار اگر مزید زیادہ ہوتو یہ فولا جسم کے کسی حصے میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے جسم میں فولاد کی زیادتی کو مختلف نام دیئے جاتے ہیں جن میں سے دواہم نام یہ ہیں

سیڈ روسینز

سیڈ رومز کا مطلب ہے آئرن ، یعنی فولاد کی جسم میں زیادتی ، غیر معمولی طور پر آئرن کا ذخیرہ ایک جگہ ہوتا ہے جو کہ بنیادی طور پر آئرن کے زیادہ مقدار میں خون میں جذب ہونے یا پھر آئرن کے انجکشن لگانے سے عمل میں آتے ہیں۔ آئرن کی جذب ہونے کی رفتار خوراک میں موجود فاسفورس کی مقدار پر محصر ہوتی ہے۔ اگر آئرن اور فاسفورس صحیح تناسب میں موجود ہوں تو آئرن زیادہ مقدار میں تیزی کے ساتھ جذب ہوتا رہتا ہے جبکہ فاسفورس کی زیادہ مقدار آئرن کو جذب ہونے سے روکتی ہے۔ فاسفورس آئرن کے ساتھ مل کر فاسفیٹ بناتا ہے جو کہ ناحل پذیر ہونے کے باعث جذب نہیں ہو پاتا۔ جذب شدہ آئرن جگر میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔

ہیموسیڈ روسینز

یہ اس آئرن کو ظاہر کرتا ہے جو ہیمو گلو بن میں تبدیل ہو گیا ہے اور جب ہیمو گلوبن کی مقدار زیادہ ہو جائے تو یہ دوبارہ آئرن بن کر جسم میں سلور ہو جاتا ہے۔

سدباب

ہمارے ملک میں آئرن کی جسم میں زیادہ مقدار میں اکٹھا ہونے کا مرض بہت کم ہے لہذا اس کیلئے پاکستان میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی اور اگر کوئی شکایت ہو بھی تو وہ کسی خاص بیماری کے دوران علاج کے وقت ہسپتال میں ہوتی ہے جس کا علاج خود ڈاکٹر صیح طریقے سے کر لیتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اگر کبھی ایسی شکایت ہو جائے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور خاص طور پر ہر پرہیزی غذا کھانا نہایت ضروری ہے۔ ایسی غذائیں جن میں کم سے کم آئرن کی سے اور کر مقدار موجودہ استعمال کرنی چاہئیں اور اس دوران ڈاکٹر سے رابطہ رکھنا اور مشورہ کرنا نہایت ضروری ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "فقر الدم انیمیا"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment