قانون تقلیل آفادہ مختتم کے مفروضات
قانون تقلیل آفادہ مختتم کے مفروضات⇐ قانون تقلیل افادہ مختم تمام حالات میں درست ثابت نہیں ہوتا بلکہ مکھ حالات میں قانون کو درست ثابت کرنے کے لیے معروضات یا کچھ باتیں فرض کر لی جاتی ہیں۔ ورنہ قانون صیح ا کو نہیں ہوتا ۔ قانون تقلیل المادہ مختم کے درج ذیل مفروضات ہیں۔
شے کا مسلسل استعمال
قانون کو کیا ثابت کرنے کیلئے فرض کیا گیا ہے کہ استعمال کی جانے والی شے یا اکائی کے استعمال کے درمیان کوئی واقعہ نہیں آئے گا اور استعمال مسلسل ہوگا۔ کیونکہ زیر استعمال اکائیوں کے درمیان وقلقہ افادہ مخاتم کو بڑھانے کا موجب بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم گرمیوں میں پانی کا ایک گلاس صبح کے وقت نہیں اور دوسرا گلاس دو پیر کو و یقینا دوسرے گلاس کا افادہ پہلے گلاس کی نسبت کیک زیادہ ہوگا کیونکہ دو پیر کو زیادہ پیاس محسوس ہوتی ہے اور قانون غلط ثابت ہو جائے گا۔ اس لیے پانی کے گلاس لیکے بعد دیگرے بغیر کسی وقفے کے پینے ہوگئے۔
شے کی مناسب مقدار
صرف کی جانے والی شے کی مقدار مناسب اور معقول ہونی چاہیے اگر شے کی اکائیوں کی مقدار انتہائی قلیل یا بہت زیادہ ہو تو انون کی بات نہیں ہوگا۔ کیونکہ پانی پیتے وقت اگر کلاس کی بجائے قطرے ہوتے جائیں تو ہر دوسرا قطرہ زیادہ افادہ کا مالک ہے ا اور اگر پانی کا پر جب منہ کو نکالیا جائے تو دوسرا جگ پینے کی بہت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے قانون کی دیگی کے لیے پانی کے ایک گلاں کو مناسب اکائی تصور کیا گیا ہے۔
شے کی نوعیت
صرف کی جانے والی تمام اشیا وزن، حجم، کو ائی اور خصوصیت کے اعتبار سے بالکل ایک جیسی ہوئی جا سکیں ورنہ قانون غلط فوت ہو جائے گا۔ مثلا پانی پیتے وقت پہلا گلاس سادہ پانی کا ہو اور دوسرا اہلی قسم کا مشروب ہو تو یقینا دوسرے گلاس کا افادہ پہلے کلاس کی نسبت زیادہ ہوگا اور مخاتم افتادہ گرنے کی بجائے پڑھ سکتا ہے۔
صارف کی ذہنی کیفیت
قانون کو لاگو کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے کہ شے کے استعمال کے دوران صارف کی جانی کیفیت تبدیل نہیں ہوئی چاہیے۔ مثال کے طور پر آم کھاتے وقت اگر آم کی دوسری اکائی پر آپ کو بتایا جائے کہ آم تو آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں تو دوسرے آم کا افادہ یک دم ختم ہو جائے گا اور قانون کا اطلاق رک جائے گا۔
صارف کی آمدنی
صارف کی آمدنی میں کمی یا بیشی صارف کے ن منصوبے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ صارف کی آمدنی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر آمدنی میں اضافے کی صورت میں صارف کا عام اشیا دودھ ، ال بہتری کے لیے تو افادہ ختم گر جاتا ہے لیکن اس کے برعکس ہو یا اشیا کے لیے افادہ گفتم بڑھ جاتا ہے۔
مستثنیات یا حدو
مستثنیات قانون کی وہ حد بندیاں ہوتی ہیں جن پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یعنی ان صورتوں کو قانون کے دائرے سے منتقلی سمجھا جاتا ہے۔ یہ درج ذیل ہیں۔
علم ومطالعہ
عظم اور مطالعہ حاصل کرنے کی انسانی خواہش کبھی بھی کم نہیں ہوتی بلکہ علم کے درجات بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر تر و هم حاصل کرنے کی جو پڑھتی چلی جاتی ہے اور انسان مختلف علوم کے مطالعہ سے استفادہ کرتا ہے۔ اس لیے علم حاصل کرنے جستجو – کیا حل ہے جو کی صورت میں قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
مال وزر
ا مائع کی کمیابی کی وجہ سے مال و زر کا حصول ہر انسان کے لیے اپنے اندر یہ وصف رکھتا ہے کہ جیسے جیسے انسان کے پاس دوات بڑھتی چلی جاتی ہے اس کی دولت کے لیے اور اس حرید بیچتی چلی جاتی ہے اور دولت کے حرید حصول میں اس کا نظارہ ہوتاجاتا ہے۔
تاریخی نوادرات
کچھ لوگ تاریخی تو اور رات اکٹھا کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ لہذا تاریخی نوادرات کی تعداد میں اضافے سے ان کو مزید حاصل کرنے کی خواہش کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مثلا قدیم سکے پرانی تکنیں وغیرہ۔
مودود نمائش
انسان کے اندر فطری طور پر خود نمائی اور نمائش کا جذ بہ موجود ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے حسن و جمال کی جانب زیادہ توجہ دیتا ہے خصوصاً فیشن کے دلدادہ افراد کے اندر نمود و نمائش کا جذبہ جدید فیشن کے اختراع کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح قانون کا اطلاق ممکن نہیں رہتا۔
منشیات
کچھ لوگ نشہ آور اشیا مثلا تمہا کو، ایون اور دیگر معفر اشیا استعمال کرنے کے بڑے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جتنا ان اشیا استعمال کرتے ہیں اتنا زیادہ اس میں وہ تسکین محسوس کرتے ہیں۔ لہذا ایسی اشیا کے استعمال کے لیے ان کی خواجل بڑھتی چاتی جاتی ہے۔
فنون لطیفہ
ہر فنکار اپنے فن کو منوانے اور شہرت حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے اس لیے وہ جتنا من حاصل کرنے میں کمال حاصل کرتا ہے اس کی خواہش بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لہذا اس قانون کا ان حاصل کرنے کی صورت میں بھی اطلاق نہیں ہوتا۔
عملی اہمیت
کانون تحلیل افاده مختم کیونکہ انسانی زندگی کا عملی مشاہدہ ہے اس لیے اس کا ہماری معاشی زندگی میں بہت اہم کردار ہے جس کی اہمیت درج ذیل نکات سے واضح ہو جاتی ہے۔ ( 1) ثمانون طلب کی بنیاد تقلیل افادہ ختم کے اصول پر رکھی گئی ہے کیونکہ زائد اکائیوں کا افادہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے پہلی اکائی کے مقابلے میں صارف اگلی اکائی کی کم قیمت دینے پر رضامند ہوتا ہے۔ گویا صارف کسی شے کی مزید اکائیاں صرف اسی صورت میں خریدتا ہے جب اس کی قیمت کم کر دی جائے اندا تقلیل افادہ خاتم کا اصول قانون طلب کی بنیاد ہے۔ روز مرہ زندگی میں جب کوئی صارف کوئی شے خریدتا ہے تو قیمت ادا کرتے وقت اس کے مخاتم الفادہ پر نظر رکھتا ہے۔ اگر اس نے کا افادہ اس کی قیمت سے گر جائے تو وہ اس شے کی خرید ترک کر دیتا ہے اور وہ چیز خریدتا ہے جس کا افادہ اس کی قیمت کے ہمراہ ہو جائے۔ ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں قانون تقلیل افادہ مختم کے اصول کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت اس اصول کے تحت امیروں پر ٹیکس کی زیادہ شرح اور غریبوں پر کم شرح عائد کرتی ہے کیونکہ امیروں کے نزدیک زر کا افادہ ختم کم ہوتا ہے۔ کی قانون مساوی لاوہ ختم کی بنیاد بھی اس اصول پر رکھی گئی ہے جس کے مطابق ہر صارف اپنے محدود وسائل کو اپنے لامحدود اصد کے حصول کے لیے اس طرح تقسیم کرتا ہے کہ اسے ہر شے سے مساوی الحاد ختم حاصل ہو۔ دولت کی مساوی تقسیم بھی اسی اصول کے تحت ممکن ہے کیونکہ اس قانون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹیکسوں کے نظام میں اس قسم کی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں کہ دولت کی مساوی تقسیم ممکن ہو سکے، معاشرہ خوشحال ہو جائے اور اشیا ضرورت سب کو میسر ہوں۔
قانون مساوی افادہ مختتم
قانون مساوی افاده مختم صرف دولت کا ایک اہم اصول اور خاص ملی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ یہ قانون اپنی تھوں اور بالشکر حقیقت پر مبنی ہے جو معاشرے میں بسنے والے ہر انسان کے ساتھ شعوری یا لاشعوری طور پر پیش آتی ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کی انسان کے مقاصد بے شمار میں لیکن ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ذرائع محدود ہیں۔ اس لیے ایک صارف کی خواہال ہوتی ہے کہ وہ کم از رائع استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کرنے۔ اس مقصد کے لیے صارف جو طریقہ کار اختیار کرنا چاہتا ہے ہو اسی قانون میں پوشیدہ ہے۔ قانون مساوی افادہ مختم صارف کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ کس طرح محدود وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک بار صارف اشیا کی خریداری کے وقت اشیا کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ ان سے حاصل ہونے والا افادہ بھی ذہن میں رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ زیادہ فائدہ مند چیز کو کم ائدہ مند چیز پر ترجیح دیتے ہوئے کوشش کرتا ہے کہ خریدی جانے والی تمام اشیا کے مختم افادے آپس میں برابر ہو جائیں۔ الفرڈ مارشل نے قانون مساوی افادہ مختم کی تعریف یوں کی ہے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی ایسی شے ہو جسے ایک سے زائد کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہو تو اس شے کو ان کاموں میں اسی طرح استعمال کیا جائے گا کہ ہر کام میں حاصل شدہ افادہ مختمر مساوی ہو۔
اس قانون کو قانونِ انتہائی تسکین بھی کہتے ہیں کیونکہ صارف اپنے محدود وسائل کو مجھداری سے استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ تسکین یا افادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قانون مساوی افاده پختر کا دوسرا نام قانون استبدالبھی ہے کیونکہ صارف زیادہ سے زیادہ ومن شر کو کم فائدہ مند شے کا نیا دیتے ہوئے خریداری کرتے ہیں۔ قانون مساوی امار و خستم کی وضاحت درج ایل گوشوارہ ہوا لیکرام سے بھی کی جاسکتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک صارف کے پاس 1000 روپے ہیں جن کو وہ اشیا کوئی اور چاول کی خریداری پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ فرض کیے کہ اینی کی فی انکائی قیمت 100 روپے ہے۔ اسی طرح چاول کی بھی کی اکائی قیمت 100 روپے ہے ۔ صارف کتنی رقم کوئی پر اور کتنی رقم چاول پر خرچ کرے گا کہ اسے زیادہ سے زیادہ افادہ حاصل ہوسکے۔ اس کا فیصلہ افتادہ مختم کے اصول پر ہوگا۔ گوشوارہ میں پہلے دوسرے اور تیسرے کالم میں بالترتیب زر کی مقدار چینی کا مختم افادہ اور چاول کا خاتم افادہ دکھایا گیا۔ ہے۔ دونوں ایشیا کا اتحادہ ختم زر کی اکائیوں کو خرچ کرنے سے کم ہوتا جاتا ہے۔ گوشوارہ سے ظاہر ہے کہ اگر صارف قانون مساوی افادہ مختم کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے 500 روپے تھیلی پر خرچ کر دے تو صارف کو کل افادہ 10 کے برابر حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ چاول کی خریداری سے 100 کے برابر کل افادہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اگر صارف مساوی افادہ ختم کے اصول کے مطابق اشیا کی خریداری کرے تو اس کو پہلی دونوں صورتوں سے زیادہ کل افادہ حاصل ہوگا۔ یعنی 300 روپے کے خرچ سے چینی کا مجموعی افاده – 24 – 20 – 16 – 60 200 روپے کے خرچ سے چاول کا مجموعی افادہ – 20 + 16 = 36 500 روپے کے خرچ کرنے سے حاصل ہونے والا کل افادو – 96 500 روپے قانون مساوی افادہ ختم کے اصول کے مطابق خرچ کرنے سے مجموعی افادہ 96 حاصل ہوتا ہے جو زیادہ سے یادہ افادہ ہے۔ چینی کا مادہ ختم 15 چاول کا خار ختم 1 چینی کی قیمت چاول کی قیمت اجات کی کسی اور ترتیب سے صارف کا کل افادہ 90 سے زیادہ نہیں ہوسکتا بلکہ اخراجات کی ترتیب بدلنے پر کل افادہ میں کی سے ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ درج اہل ترتیب سے واضح ہے۔ مین الزامات کی ترتیب بدلنے سے کل افادہ میں 4 کی کی واقع ہوگئی ہے۔ اس اصول کے مطابق 500 رو پے چینی پر اور 200 روپے چاول کی خریداری پر فرق کرنا ہوں گے۔ لیدا ایک صارت زیادہ سے زیادہ افادہ صرف اس طریقہ کار سے حاصل کر سکتا ہے جب وہ قانون مساوی الفادہ ختم کے زر کی اکائیاں دونوں اشیا پر خرچ کرے۔
قانون مساوی افادہ مختتم کے مطابق زر کی اکائیوں کا استعمال
ارتا بالا بحث سے صاف ظاہر ہے کہ کل افادہ صرف اس وقت زیادہ سے زیادہ ہوگا جب تمام خریدی جانے والی اشیا کا مختم کا وہ آپس میں برابر ہو جائے۔ اس صورت حال کو صارف کا توازن بھی کہتے ہیں جس کو درج ذیل مساوات سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ الترام سے وضاحت ائیگرام میں OX محور پر زر کی اکائیاں اور محور پر ختم افتادہ دکھایا گیا ہے۔ ڈا لیکرام سے ظاہر ہے کہ صارف زر کی تمین اکائیاں لینی پر خرچ کر کے نقطہ B اور دو اکائیاں چاول پر خرچ کر کے نقطہ ۸ حاصل کرتا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صارف تو ان میں ہے یعنی دونوں اشیا کا افادہ ختم آپس میں برابر ہے۔ جبکہ زر کی چار اکائیاں پانی پر خرچ کرنے سے نقطہ اور ایک اکائی چاول پر خرچ کرنے سے نقطہ () حاصل ہوتا ہے جو آپس میں برابر نہیں یعنی دونوں اشیا کا افادہ ختم آپس میں برابر نہیں ۔ اور نقاط ظاہر کرتے ہیں اور شکل میں صاف ظاہر ہے کہ افادہ میں کمی والا رقبہ افادہ میں اضافہ والے رقبہ سے زیادہ ہے۔ انڈائی ترتیب ٹھیک نہیں ہے۔ میات اری ایل صورتوں میں قانون مساوی افادہ خاتم کا اطلاق نہیں ہوتا۔
رسم و رواج اور فیشن
بسا اوقات لوگ رسم و رواج اور فیشن کی تبدیلی کی بنا پر اشیا خرید نے وقت اشیا سے حاصل ہونے والے افادے کو ذہن میں نہیں رکھتے یا اگر وہ محمد اشیا کی خریداری کے وقت افادہ کے عنصر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محمد ود ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مثلا پوشاک ، پیر سائل، زیورات پر کیا جانے والا طرح محض رسم و رواج اور فیشن کی تبدیلی کی جہ سے افادے کو مد نظر رکھے بغیر کیا جاتا ہے اس لیے ان حالات میں قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
دقت کا حصر
بعض اشیا پر اخراجات فوری افادہ پانچاتے ہیں مگر بعض اشیا طویل عرصہ تک فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر پھل سہری، واہ وغیرہ پر خرق فوری فائدہ پہنچاتا ہے۔ لیکن گھر، کار، ٹیلی ویژن پر اٹھنے والے اخراجات دیر تک فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں قانون کے مطابق اشیا میں یکسانیت قائم کرنا مشکل کام ہے۔
افادہ کی پیائش ممکن نہیں
افادہ ایک ولی کیفیت کا نام ہے جو مقام ، وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے اشیا سے حاصل ہونے والے افادے کی صحیح پیدائش ممکن نہیں۔
منڈی سے ناواقعیت
بعض اوقات صارف کو اشیا کے سے نعم البدل کا علم نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی اہلمی کی وجہ سے محدود ا رائع سے زیادہ سے زیادہ افادہ حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
اشیا کی تا کاملی تقسیم پذیری
بعض اشیا نا قابل تقسیم ہوتی ہیں اور ان کو حصوں میں فرید انہیں جاسکتا مثلا مشین، کار، سائیکل وغیرہ ۔ اس لیے ایسی صورت حال میں صارف کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپن محدود و سال کو بدل بدل کر خرچ کر سکے۔ اس لیے نا قابل تقسیم پریا شیا پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
نشرواشاعت
منافع کے محرک کے پیش نظر اشیا کے بیچنے والے نشرو اشاعت کے جوتے نے طریقے استعمال کرتے ہیں ان سے متاثر ہو کر اکثر صارفین مساوی افادہ خاتم کے اصول کو نظر انداز کر کے اشیا خرید لیتے ہیں اور اشیا کی کوائی اور افادیت کا خیال نہیں رکھتے۔ کمل اہمیتے کانون مساوی المادہ خاتم کی عملی اجیت درج ایل ہے۔
صارفین کی رہنمائی
صارف اپنے محدود وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ قانون صارف کی زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل کرنے کی عوام کو پہا کرتا ہے۔ اس اصول کے مطابق صارف اس وقت زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل کرتا ہے جب وہ الف اشیانم اپنے ذرائع کو اس طرح خرچ کرے کہ تمام اشیا سے حاصل ہونے والا افادہ خاتم آپس میں برابر ہو جائے۔
پیادار کے شعبے کی رہنمائی
اشیائے صارفین پیدا کرنے والے آمد کے وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک سمجھدار آجر اپنے محدود وسائل کو اصول استقلال کے تحت بدل بدل کر خرچ کرتا ہے تا کہ ہر عامل پیدائش کی مخاتم پیداوار آئیں میں برابر ہو جائے ۔ اس طرح کل پیداوار کی زیادہ سے زیادہ ہوگی۔
اشیا کے چاولہ میں رہنمائی
یہ اصول اشیا کے تبادلے میں بھی آجر اور صارف کی مدد کرتا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل کرنے کیلئے کم فا ئدہ مند نے کو زیادہ فائدہ مند شے سے بدل لیا جاتا ہے۔ اور یہ تالہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک تمام اشیا کا افادہ مختم آپس میں باہر نہ ہو جائے۔ بین الاقوامی تجارت میں اشیا کا تبادلہ بھی اسی اصول پر کیا جاتا ہے۔
سرکاری اخراجات میں رہنمائی
لکھی عائد کرنے اور سرکاری اخراجات کے ضمن میں اس اصول سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ کیونکہ کا گاتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے زیادہ سے زیادہ سماجی فلاح و بہرور حاصل کی جاسکے اور اخراجات کرتے وقت خرچ کی جانے والی رقم کا مختم افادہ ایک دوسرے کے برابر ہو۔ انا با بحث سے یہ نتجہ اللہ کیا جاسکتا ہے کہ قانون مساوی افادو خاتم کا اطلاق معاشی تحقیق کے ہر شعبہ پر ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق صرف دولت سے جو پاپی ال دولت ہے، دنیا کے تبادلے سے ہو یا حکومت کے محصولات اور اخراجات ہے۔ اس نے قانون مساوی انواده ختم معاشیات کا اہم اور میں گیر اصول ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “قانون تقلیل آفادہ مختتم کے مفروضات“کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ