قدرتی وسائل کی قلت ⇐ کسی بھی مک میں ترقی کے لیے قدرتی ذرائع کی موجودکی بہت اہمیت رھتی ہے۔ جس طرح ہم بس یا ہوائی جہاز کے بغیر سر کاتصورنہیں کر سکتے، اس طرح قدرتی وسائل کی عدم وجود میں ایک اور باری کا اتنا دشوار ہوا ہے قدرتی وسائل مں جنگلات معدنیات ،دریا موم کی کیفیت اور آب و کاران مال ہے۔ ان ترقی کےلئے کویتی پول و در کار نیز در نهایت ای اوری حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں ان وسائل کی کی پائی جاتی ہے تو اس کے لئے تیز رفتاری سے ترقی کرنا آسانی سے ممکن نہیں ہوا۔ ان وسائل کی بہت ترقی کی فار کےلیے مہیز کا کام انجا دیتی ہے۔ امریکہ روس برطانیہ مغربی جرمنی اور جاپان و غیرہ کے پاس قدرتی وسائل مختلف شکلوں میں فراوانی کے ساتھ پائے جاتے ہیں جبکہ یوگنڈا، تنزانیہ، زمبابوے اور کینیا میں قدرتی جغرافیہ ، اور قدرتی کے پاس دیا ہے کسی ملک میںخواہ سائل مقدار میں ہوں یاد وسائل کی عام قلت ہے۔ کسی ملک میں خواہ و سائل قلیل مقدار میں پائے جاتے ہوں یا وہ موجود تو ہوں مگر ان کا بھر پور علم نہ ہو یا ان ے مستفید ہونےکی ایک اور دستیاب نہ ہو لیے ملک پمادہ اور کمتری یافت رہتے ہیں۔ جن ممالک میں قدرتی وسائل کی تلاش اور ان سے استفادہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا ہے وہ ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔
پاکستان کے قدرتی وسائل
سوئی کے مقام سے نکلنے والی قدرتی ہیں اور میال سے حاصل کیا جانے والا تیل پاکستان میں ہمیشہ سے موجود تھے مگر ایک مدت تک ہمیں ان کی موجودگی کا علم ہی نہیں تھا۔ انجینئر نگ اور علم وفن کی ترقی کے ساتھ ہم نے وہ ٹیکنالوجی حاصل کرتی ہے کہ اب ہم قدرت کی ان خفیہ نواز شات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو گئے ہیں ۔ اگر کسی ملک میں قدرتی وسائل بکثرت پائے جاتے ہوں اور ان سے بھر پور استفادہ کرنے کے ذرائع یعنی ٹیکنالوجی بھی حاصل ہو تو وہ تیزی سے ترقی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
افراط آبادی
ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے بڑھنے کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی بنا پر ان ممالک میں عام غربت پائی جاتی ہے۔ نہ صرف ان ممالک میں پہلے سے موجود آبادی بہت زیادہ ہے بلکہ اس میں افزائش کی شرح اور بھی زیادہ ہے۔ ان دونوں اسباب کی بنا پر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی یہ ممالک غربت کے منحوس چکر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ آبادی کے بڑھنے کا دباؤ تین مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے: اول : کمانے والی آبادی پر نا کھانے والی آبادی کا بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے ۔ کمانے والے ہاتھ کم اور کھانے والے منہ زیادہ ہو جانے سے غربت کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ سوئم: آبادی زیادہ ہونے سے دیہاتی لوگوں میں پوشیدہ بیروزگاری کا مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں آبادی این قدر زیادہ ہیں ہے کہ وہ وسائل پر بوجھ بن جائے اور نہ ہی سالانہ شرح افزائش اتنی زیادہ ہے کہ آبادی میں ہوشربا اضافہ واقع ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہےکہ ان ممالک کے وسائل خوش اسلوبی کے ساتھ زیر استعمال آرہے ہیں اور آبادی کی مناسب تعداد کے سب وہاں ہر سال فی کس آمدنی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور سالانہ شرح افزائش بھی ان میں انڈونیشیا بنگلہ دیش مصر، پاکستان انڈیا، یوگنڈا، برازیل، سوڈان وغیرہ شامل ہیں۔ افراط دوتم : شرح ولادت زیادہ ہونے سے اور شرح اموات کم ہونے سے آبادی میں تیزی سے اضافہ رونما ہوتا ہے۔ آبادی کی ایک سے شرح اموات میں کی بھی ہے۔ سائنسی تحقیقت بھی ایجادات، علاج معالجہ کی ہوائوں میں وسعت کے سبب شرح اموات کم ہو گئی ہے ۔ شرح اموات کم ہو جانے کی وجہ سے بھی آبادی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
عمومی پسماندگی
پسماندہ ممالک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں عام طور پر کار کردگی کا معیار بہت پست ہے۔ افراد کی استعداد کا کسی طور قابل تحسین نہیں ہے۔ عمومی پسماندگی کی کئی وجوہات ہیں ۔
خوراک کی کمی
پسماند و ممالک میں ہر فرد کو حاصل ہونے والی اوسطا خوراک بہت کم ہے جبکہ ترقی یافتہ مالک میں فی کس خوراک کا معیار بلند ہے۔ پاکستان میں 2529 کیلوری خوراک فی کس حاصل ہوتی ہے اور اس میں 70 گرام پر روشن ہویے شامل ہوتی ہے۔ جبکہ ڈنمارک جیسے ملک میں ہر فرد کو 350 کیلوری خوراک مل جاتی ہے۔ پاکستان میں فی کس حاصل ہونے خوراک میں 70 گرام پروٹیشن یومی شام ہوتی ہے کہ امریکہ میں سفر کو 10 گرام سے زیادہ پروین روزانہ حاصل ہوتی ہے۔ خوراک کی کمی کار کردگی کو متاثر کرتی ہے۔
آب و ہوا
اکثرو بیشتر بماند و مالک کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے یعنی گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سرد۔ شدید مومی حالات کی بنا پر لوگوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکنالوجی کی بنا پر ایسے حالات اور پیدا کر لئے ہیں کہ وہ موسم کی بے رحمیوں کا با آسانی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان ممالک میں دفتروں اور گھروں کو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کے وسیع تر انتظامات موجود ہیں۔ اس طرح ان ممالک کے لوگوں کی کار کردگی بلند رہتی ہے۔
طبی سہولتیں
پسماندہ ممالک میں لوگ اکثر بیمار ہی رہتے ہیں۔ بیماری کے سبب لوگوں میں صلاحیت کا نہیں رہتی ۔ بیماری میں اور بیماری کے بعد کا کافی عرصہ کام سے غیر حاضری کی نذر ہو جاتا ہے۔ بیماری کے دوران جو طبی سہولتیں اور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہوتی ہیں وہ اس قدر کم ہیں کہ عام افراد سال کے زیادہ حصہ میں کمزور ، لاغر ، اپانچ اور بیمار رہتے ہیں ۔ یہ مجبوریاں کام کی رفتار کو متاثر کرتی ہیں۔
اوسط عمر
پسماندہ ممالک کے لوگوں کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی اوسط عمر بہت کم ہے۔ ایک فرد و سطا جتنے سال زندہ رہتا ہے وہ کم ہیں ۔ اوسط عمر جتنی لمبی ہوگی ، افراد اتنی دیر کام کرتے رہتے ہیں ، اپنے لئے اور دوسروں کے لئے اشیا پیدا کرتے ہیں اور قوم رو بہ ترقی رہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عمروں کا اوسط بلند ہے۔ امریکہ میں ایک فرد کم و بیش 77 سال زندہ رہتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ اوسط عمر 65 سال ہے۔ برطانیہ میں لوگوں کی اوسط عمر 7 سال ہے۔ سری لنکا میں 72 سال پسماندہ ممالک میں اوسط مر کم ہونے کی بناپر ہرفرد کم در کام کرتا ہے اور جلد مرجانے کے باعث قومی آمدنی میں زیادہ اضافہ کا موجب نہیں بنتا۔
بچوں کی بلند شرح اموات
پسماندہ ممالک میں نہ صرف شرح پیدائش آبادی زیادہ ہے بلکہ بچوں میں شرح اموات بھی زیادہ ہے۔ یہ شرح اموات نقصان دہ ہوتی ہے۔ بچوں کی پیدائش اور پر درش پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے اور ابھی وہ سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچتے کہ فوت ہو جاتے ہیں۔ سن بلوغت سے بہت پہلے اموات کے سبب ہمارے وسائل ان افراد یعنی بچوں پر خرچ ہو جاتے ہیں جن سے ان اخراجات کی وصولیات کی امید نہیں ہوتی ۔ وسائل ضائع ہو جانے سے پسماندگی بڑھ جاتی ہے۔
پوشیده بیروزگاری
پسماندہ ممالک میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی بنا پر اکثرلوگ اپنی اصل محنت سے کم محنت کرتے ہیں ۔ عام اندازہ یہ ہے کہ کھیتوں میں جتنے لوگوں کی ضرورت ہے ، اس سے کہیں زیادہ لوگ کھیتوں میں موجود ہیں ۔ اقوام متحدہ فیصدلوگ ایسے بظاہر ہیں کھیتوں کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 20 25 فید لوگ اسے ہیں جو باہر تو کام کرتے ہیں گرانیں کھتوں سے بنا لیے
کے باوجود زرعی پیداوار پر کئی ار نہیں پڑے گا۔ یہی لوگ پوشیدہ بیروزگاری میں شمر ہوتے ہیں یعنی جو بیکار ہیں مگر بیکار نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ بلا وجہ دوسروں کے اوقات میں کمی کر کے کچھ دیر کے لئے کھیتی بازی کا کام خود سنبھال لیتے ہیں اور اس خوش سحر معاشیات پاکستان بی اے می کا شکارہیں کہ ہم برسر روزگار ہیں یہ پوشیده دیروزگاری مجوعی کار کردگی کوکم کر رہی ہے۔ ایک فرد کو جتنے گھنے کام کرنا چاہیے وہ اتنے گھنے کام نہیں کرتا ۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں پوشیدہ بیروز گاری تو کجاء عام بیروزگاری بھی بہت کم پائی جاتی ہے۔
افرادی قوت کا ضیاع
پسماندہ ممالک میں آبادی زیادہ ہونے کے باعث کام ہونا تو زیادہ چاہیے اور ترقی کی رفتار بھی تیز تر ہوئی چاہیے مگر حالات اس کے برعکس ہیں ۔ افرادی قوت موجود ہے مگر روز گار کے محدود ذرائع کے پیش نظر اس قوت کا اکثر حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ عام انداز یہ ہے کہ 100 افراد میں سے کام کے قابل افراد کی تعداد 30 ہے۔ ان میں سے 10 افراد کام کے مواقع کی ھائی میں یں کرنی الا پیار میں 10 فیصد افراد کم کرہے ہیں۔ جنہیں 100 افرادکی کفالت کرنی پڑتی ہے۔ یہ صورت حال اکستان ک ہے۔ بہت ترقی پذیر ملک میں ہی صورت حال خلف نہیں۔ اس کےبرعکس ترقی یافت مالک میں برف دولت کے مقدر کا شارہ ہے۔ کوئی مولی پر دنگ رہ نہ پوشیدہ ہرفرد کل کام کرتا ہےاور پوری تندہی سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ وہاں کام کے قابل افراد کی تعداد 60 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اکثر پسماندہ ممالک میں یہ 20 تا30 فیصد ہے۔
حرکت پذیری کا فقدان
ترقی پذیر ممالک میں افرادی قوت دستیاب تو ہوتی ہے مگراس میں حرکت پذیری کا فقدان ہوتا ہے علاقے کی محبت ، ماں باپ سے لگاؤ ، برادری کے تعلقات ، زبان سے عقیدت کی بنا پر محنت کش افراد اپنے وطن صوبے یا ضلع کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ دوسرے علاقوں میں جا کر لیاسی ، زبان ، آب وہوا اور دوسری کئی متوقع مشکلات کی بنا پر یہ لوگ کنویں کے مینی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان ہی لاتے ہیں کہ خواہ یا خیر خواہ کے زندگی گزار دیے ہیں۔ ترقی یافتہ ملوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ لوگ ہر اچھے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ زیادہ تنخواہ، ترقی اور سہولتوں کی خاطر اپنی استعداد میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے سے بھی نہیں گھبراتے۔ یہ حرکت پذیری ان کے لئے اور دوسروں کے لئے ترقی کا زینہ بن جاتی ہے۔
عمومی رویہ
پسماندہ یاترقی پذیر ملک میں لوگو کا عمومی رویہ قدامت پرسی پہنی ہوتا ہے۔ تنے کا موں یا کاروبار میں ہاتھ ڈالنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کسی نئے شعبے کو اختیار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حقیقت پسندی کی بجائے تو ہم پرست ہوتے ہیں ، حالات کا مقابلہ کرنے کی جگہ راہ فرار تلاش کرنے میں زیادہ مستعد ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کا رویہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے ۔ ان میں واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ وہ ہر چیز کو جذبات کی کسوٹی پر پر کھنے کی بجائے عقل کے ترازو میں تولتے ہیں۔ یہی سائنٹیفک رویہ ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
روایت پرستی
ترقی پذیر ملکوں کے لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں ۔ جو کچھ ان کے باپ دادا کرتے آئے ہیں ، وہ اس سے انحراف کرنا پسند نہیں کرتے ۔ ماضی کے حسین تصور میں گم رہ کر دن گزارتے ہیں۔ مستقبل کی فکر سے فارغ رہنا پسند کرتے ہیں۔ روایت کو جوں کا توں آگے بڑھا دینا ہی ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ نئے تجربات کرتے ہیں ۔ نئی روایات خود قائم کرتے ہیں۔ پرانی روش کو ترک کر کے بہتری حاصل کرتے ہیں۔ روایات سے چھٹے رہنے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھ کر منی بر صداقت رویہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی طرز عمل ان ، کے لئے ترقی کے دروازے کھول دیتا ہے۔
ناظمانہ صلاحیتوں کا فقدان
پسماندہ ممالک میں افراد کی استعداد کار اس لئے بھی پست ہے کہ وہاں کے لوگوں میں ناظمیانہ صلاحیتوں کی کی پائی جاتی ہے۔ زرعی تجارتی اور صنعتی اداروں کے قیام اور ان کو کامیابی سے چلانے کے لئے مطلوبہ عملہ فنی ماہرین اعلی تعلیم یافت و در هنرمند مزدوروں کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ اس لئے زندگی کے نئے نئے شعبوں میں جدت اور اختراع کا عمل مسدود رہتا ہے ترقی یافتہ ملوں میں افراد اپی تعلیم اور ہنر مندیوں میں اضافہ کر کے نئے اداروں اور نئے شعبوں کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ ہر میدان میں با صلاحیت قیادت فراہم کرتے ہیں اور پورے ملک کی ترقی کا سبب بنتے ہیں ۔
سرکاری انتظامات کی خامیاں
پسماندہ ممالک میں کافی شعب سرکاری سرپرستی میں چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کے اداروں میں کئی طرح کی ابتدائی مشکلات رولا ہو جاتی ہیں۔ اعداد وشمار کی صحت مختلف شعبوں میں تعاون، پالیسیوں میں ہم آہنگی ، میں. روپے پیسے کے جائز مصرف اور اختیارات کے حج استعمال کی بھی نوبت نہیں آتی ۔ ان شعبوں میں دھاندلی ، اقرباپروری رشوت ستانی سانیت کا دو اور نظرآتا ہے جبہ ترقی یاہ ہوں میں سرکار انتظامات انصاف و کارکردی کی بنیاد پراستوار ہوتے ہیں۔ کوتی ادارے عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کواپنا شعر بنائے رکھتے ہیں۔ اس طرزعم میں ان کی فلاح اور کی ترقی کا مضمر ہے۔
سرمایہ کی قلت
معاشی ترقی میں سرمایہ کی وہی اہمیت ہے جو انسانی بدن کیلئے خون کی ہے۔ آیا ہے خون کی کمی انسانی جسم کو لاغر کر دیتی ہے ۔ اسی طرح سرمایہ کی قلت معاشی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں میں سرمایہ کی جس قدر ضرورت ہے یہ اس قدر قلیل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایہ بکثرت موجود ہے اور اس کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔
فی کس آمدنی کی پست سطح
ترقی پذیر ممالک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کل پیداوار کے اعتبار سے غریب اور آبادی کے لحاظ سے امیر واقع ہوئے ہیں۔ پیداوار کی کی اور آبادی کی کثرت کے سب لوگوں کافی کس معیار زندگی بہت پست نظر آتا ہے۔ فی کس آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ اس میں وہ بمشکل گزارہ کر سکتے ہیں ۔
ابتدائی اشیا کی پیدائش و برآمد
ترقی پذیر ممالک ترقی کی دوڑ میں اس قدر پسماندہ ہیں کہ ابھی ان کے ہاں صنعتوں، بھاری انجینئر نگ ، جہاز سازی، پرزے بنانے، کیمیاوی اشیا اور ادویات سازی جیسے بڑے پیمانے کے کارخانے قائم نہیں ہوئے ۔ یہ ممالک زیادہ تر زرعی ہیں یا پھر معاشی سرگرمیوں کے ابتدائی مرحلہ سے دوچار ہیں۔ گندم، چاول ، پٹ سن ، مچھلی ، جنگلاتی لکڑی ، تیل ، معدنیات ، چائے اور کپاس وغیرہ ہی ان ممالک کی سب سے بڑی پیداوار ہیں ۔ یہی اشیاز یادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں برآمد بھی کی جاتی ہیں۔ معیشت کا ایک واضح بڑا حصہ زرعی پیداوار اور ان کی برآمد پرمبنی ہے۔ ان ممالک میں خود ان کے اپنے خام مال کو مصنوعات کی شکل دینے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اس کام کے لئے جس مطلوبہ ہنر مندی اور صنعت سازی کی ضرورت ہے وہ یہاں موجود نہیں ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک مختلف اشیا خام مال کی شکل میں درآمد کرتے ہیں اور پھر انہیں مصنوعات کی شکل دے کر خود انہیں ترقی پذیر ملکوں کو فروخت کر دیتے ہیں جہاں سے خام مال منگوایا گیا تھا۔ اگر کسی پسماندہ ملک میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا بھی ہے تو اس کا تعلق خام مال کو نیم مصنوعات میں ڈھالنے والی صنعتوں سے ہے اور ان میں سرمایہ بھی مقامی نہیں، غیر ملکیوں کا ہے۔
توازن کی ادائیگی کی انتری
پسماندہ ممالک کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کا توازن ادائیگی اور توازن تجارت ہمیشہ ہی منفی رہتا ہے۔ ان ممالک کی درآمدات ان کی برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں در آمدات کی برتری توازن ادائیگی میں خسارہ کا باعث بنتی ہے۔ پسماندہ ممالک اپنی ترقی کے لئے ترقی یافتہ ملکوں سے کئی طرح کی اشیا منگوانے پر مجبور ہیں۔ جبکہ خود ان کی اپنی اشیا کا معیار اتنا بلند نہیں ہے کہ وہ بین الا قوامی منڈی میں ممتاز مقام حاصل کر سکیں ۔ چنانچہ ان کی درآمدات ان کی برآمدات سے بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح تو ازن ادائیگی میں جو خسارہ پیدا ہوتا ہے، اسے پورا کرنے کے لئے وہ سونے کے ذخائر استعمال کرتے ہیں یا پھر بیرونی ممالک سے قرض لے کر ادائیگیوں کا انتظام کرتے ہیں۔ پاکستان کا توازن اور نیکی بھی منفی ہی رہتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ یہ صورت حال نہیں ہے۔ ان کا توازن ادائیگی موافق رہتا ہے ۔ وہ بر آمدات سے بہت زرمبادلہ کماتے ہیں اور در آمدات تھوڑی ہونے کے باعث ان پر ان کا خرچ بھی کم ہوتا ہے۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم
ترقی پذیر ممالک میں دولت کی تقسیم کا مسئلہ شدت اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہاں دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ ایک طرف وہ دولت مند طبقہ ہے جو ملک کے بیشتر شعبوں پر عادی ہے اور دوسری طرف وہ لاکھوں غریب ہیں جو روکھی سوکھی روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں ۔ دونوں طبقات کے درمیان بعد بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ امیر طبقہ امیر اور غریب طبقہ غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ امیری اور غربی کی وہ انتہاؤں کی موجودگی میں ملکی ترقی کا امکان مسدور ہو جاتا ہے ۔ غریب لوگ غربت کے باعث بچت کرنے سے قاصر ہیں اور امیر طبقہ اپنی فاضل آمدنی کو گلچھروں میں از ادیتا ہے۔ اس طرح سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ فراہم نہیں ہوتا ۔
معاشرتی برائیاں
ترقی پذیر ممالک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں معاشی مسائل کی بھر مار کے ساتھ معاشرتی سل پر بھی کئی برائیاں موجود ہیں ۔ ان ممالک میں سے اکثر کے پاس آئین نہیں ہے، حکومتیں غیر حکم ہیں۔ سیاسی پارٹیاں برائے نام وجود رکھتی ہیں، جذب اختلاف کی اپنی کوئی قومی حیثیت نہیں ہے۔ انتظامی مشینری میں استعداد کار کا معیار بہت پست ہے ، رشوت ، اقربا پروری، سرکاری پالیسیوں کا افشا اور مختلف محکموں میں عدم تعاون کی عام شکایات پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ سمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی ، قیمتوں میں ناجائز اضافہ اور ٹیکسوں کی چوری وغیرہ جیسے معاشرتی مسائل معیشت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک نے ان مسائل پر قابو پالیا ہے۔ معاشی ترقی کے ابتدائی مرحلوں میں یہ ممالک بھی ایسے ہی پریشان کن مسائل سے دو چار رہے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کو حل کر لیا گیا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "قدرتی وسائل کی قلت" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ