نظر یہ مقدار زر

نظر یہ مقدار زر نظر یہ مقدار زر کا بنیادی تصور یہ ہے کہ جب معاشرے میں مقدار زر بڑھ جاتی ہے تو قیمتوں کی سطح بھی بلند ہو جاتی ہے اور ق جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب مقدار میں کی ہو جاتی ہے تو قیمتوں کی سطح بھی نیچے آجاتی ہے اور قدر زر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ گو اپنی کھدری کی شکل وصورت سے یہ نظر یاس سادہ بیان کا مظہر ہے کہ قیمتوں کی سطح کا تعین مقدار زر کے ذریعے ہوتا ہے۔

نظر یہ مقدار زر

نظریے کی عمل کاری

نظریہ مقدار متعدد مفروضات پر بنی ہے۔ فرض کریں کہ مقدار زر بڑھ جاتی ہے اور زر کی ہرا کائی اتنی بھی بار خرچ کی جاتی ہے جتنی بار کہ سابقہ ذخیرہ زر کی اوسط اکائی خرچ ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ تازہ کمایا ہوا رو پید اشیاء اور خدمات پر خرچ کریں گے۔ اس مرحلے پر ہمیں ایک اور مفروضہ قائم کرنا پڑے گا۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ اشیاء اور خدمات کے کل ذخیرے میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ اب اگر ذخیرہ اشیاء بدستور رہتا ہے لیکن لوگوں کے پاس خرچ کے لیے روپیہ کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو روپے کی کل اکائیاں بڑھ جائیں گی۔ دوسرے لفظوں میں اشیاء اور خدمات کی کل طلب بڑھ جائے گی۔ لیکن چونکہ اشیاء اور خدمات کی کل طلب کا ذخیرہ بدستور رہتا ہے، اس لیے قیمتوں کی سطح بلند ہو جائے گی۔ چنانچہ مقدار زر میں اضافے کے باعث سطح قیمت میں اضافہ ہو جائے گا اور سطح قیمت میں فیصد مقدار زر میں فیصد اضافے کے مطابق ہوگا۔

مقدار زر اور سطح قیمت کا باہمی تعلق

قدر زر میں تبدیلی کیوں ہوتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی وقت قیمتوں میں عام اضافہ ہونے لگتا ہوتا کہ قیمتوں میں ہے جبکہ کسی دوسرے موقع پر قیمتیں کم ہونے لگی ہیں۔ بعض ماہرین معیشت کی رائے میں قیتوں کی عام سطح میں تبدیلیوں اور مقدار میں تبدیلیوں میں قریبی تعلق پایا جاتاہے۔ یہ خیل فروغ پذیر ہوا اور نظریہ مقدار کے سانچے میں ڈھل گیا۔

زیادہ زر بلند تر طلب ترقیمتیں

نظر یہ مقدار زریہ ہے کہ قیمتوں کی عام مسلح کا زیادہ تر دارو مدار ملک میں موجود کل مقدار زر پر ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی ملک کی حکومت ایک دم عوام پر مہربان ہو جاتی ہے۔ ہر شہری کو ایک ایک روپے کا عطیہ دیتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس خرچ کرنے کو زیادہ روپیہ ہوگا اوروہ اشیاء اور خدمت خریدنی شروع کریں گے۔ لیکن مقدار زر میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی بنا پر اشیاء اور خدمات کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ جب اشیاء اور خدمات کی مقدار پر زیادہ روپیہ خرچ کیا جائے گا تو قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔ جتنا زیادہ روپیہ خرچ کیا جائے قیمتوں میں اتناہی اضافہ ہوگا۔

سطح قیمت اور قدر زر

سطح قیمت اور قدر زر کے درمیان کیا تعلق پایا جاتا ہے۔ سالم قیمت اور قدر زر کے درمیان معکوس متضاد  تعلق ہوتا ہے۔ جب صالح قیمت بلند ہوتی ہے تو ردو بدل ہوتا ہے۔

پروفیسر ٹارگ کا موقف

پروفیسر ٹارگ نے نظریہ مقدار زر یوں بیان کیا ہے۔ مقدار زر کو دگنا کر دیا جائے تو دیگر حالات بدستور رہنے کی صورت میں قیمتیں پہلے کی نسبت دگنی ہو جائیں گی اور قدرز آدھی رہ جائے گی ۔ مقدار زرکو آدھا کر دیا جائے تو قیمتیں پہلے کی نسبت آدھی رہ جائیں گی اور قدرز ردگنی ہو جائے گی۔

ہم زرکیوں استعمال کرتے ہیں

جب بھی ہم کوئی چیز خریدیں گے تو اس کے عوض ہمیں کچھ نہ کچھ رقم ضرور ادا کرنی پڑے گی۔ اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے تو آپ کوئی چیز نہیں خرید سکتے ۔ اس کے برعکس اگر ہمارے پاس پانچ دی روپے یا سوروپے کا نوٹ ہو تو ہم مختلف اشیاء خرید سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم بازار سے سب چیزیں خرید سکتے ہیں ۔ ہم اپنے پاس رقم کے حساب سے خریداری کر سکتے ہیں۔ ہیں یہ ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں تو ہم کو زر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جتنا روپیہ ہمارے پاس ہوگا اشیاء کی اتنی ہی زیادہ مقدار ہم خرید سکیں گے۔ اب دیکھیں کہ فروخت خریداری کی ضد ہے۔ جب آپ کوئی چیز خریدتے ہیں تو آپ کو اس کے بدلے میں زرادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ہم کوئی شے فروخت کرتے ہیں کوئی کاریا قطعہ زمین وغیرہ تو ہم زر وصول کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اشیاء اور خدمات کی خرید و فروخت میں زر استعمال ہوتا ہے۔ خدمت سے کیا مراد ہے؟ یہ اصطلاح اس محنت کے لیے رائج ہے جو صلے کی خاطر کی بھاتی ہے۔ جب ڈاکٹر آپ کے گلے کی خرابی کا علاج کرتا ہے یا حجام آپ کے بال تراشتا ہے تو یہ دونوں آپ کی خدمت بجالا رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر اپنا سامان اٹھوانے کے لیے آپ قلی کو بلاتے ہیں وہ قلی آپ کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔ اس نوعیت کی سب خدمات کا معاوضہ آپ کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ جس میں زر کا استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ خرید و فروخت کے عمل میں زر کے واسلے سے اشیاء اور خدمات کا مبادلہ بھی شامل ہے اس لیے زر کو آلہ مبادلہ  بھی کہتے ہیں۔

تبادلی نظام کے کہتے ہیں

تاریخ انسانی کے ابتداء ہی میں زر بحیثیت آلہ مبادلہ استعمال ہونے لگا تھا۔ ابتدائے زمانے میں لوگ زر کی عدم موجودگی کے باعث اپنی خواہشات متبادل ( اشیاء کا اشیاء سے مبادلہ ) کے ذریعے پوری کرتے تھے ۔ اشیاء کا اشیاء سے یہ مبادلہ تبادلی نظام کہلاتا ہے۔ آج بھی ملک کے نسبتا کم ترقی یافتہ دیہی علاقوں میں متبادل رائج ہے۔ زمیندار اپنی فصل کی جنس یعنی چاول، گندم وغیرہ کا ایک حصہ دکاندار کے حوالے کر کے اپنی ضروریات کی اشیاء یعنی کپڑا سبزیاں وغیرہ حاصل کرتا ہے۔

متبادل کی مشکلات

زمانہ قبل زر میں جب دکانداروں کا وجود نہ تھا تبادل حد درجہ خام شکل میں موجود تھا۔ ان دنوں تبادل نے کئی مشکلات کو جنم دیا۔ مثلاً تبادل کا تقاضا ہے کہ احتیاجات کی دو طرفہ مطابقتہو۔ مثلاً نور زمان ایک بیل خریدتا ہے جس کا گندم سے مبادلہ مقصود ہے۔ تو نور زمان کو کسی ایسے شخص سے معاملہ کرنا ہو گا جو نہ صرف گندم رکھتا ہے بلکہ بیل کی تلاش میں بھی ہے۔ اگر نور زمان کا معاملہ اقبال سے ہوتا ہے جو گندم رکھتا ہے لیکن مبادلے میں کپڑے کا طلب گار ہے تو اس صورت میں نور زمان اور اقبال کے درمیان معاملہ نہیں ہو سکتا۔  تبادلی نظام میں کوئی مشترکہ پیمانہ قدر نہیں ہوتا ۔ اگر ایسے دو شخص یکجا بھی ہو جائیں تو ایک دوسرے کے ساتھ اشیاء کا مبادلہ کرنے کے خواہشمند ہوں پھر بھی ان کی اشیاء کی موزوں شرح مبادلہ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ دو اشیاء مثلاً بیل اور گندم کا مبادلہ کسی شرح سے کیا جائے کہ گندم کی کتنی مقدار ہو کہ بیل کی مالیت کے برابر ہو جائے۔ اس نوعیت کی مشکلات زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ جب اشیاء مبادلہ تیل یا گھوڑے ایسی چیزیں ہو جن کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ مسئلہ تقسیم پذیری  کہلاتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "نظر یہ مقدار زر"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment