پاکستان میں آبپاشی کی ضروریات

زیر کاشت رقبہ کی تفصیلات

پاکستان میں آبپاشی کی ضروریات پاکستان میں زیر کاشت رقبے میں سے 78 فیصد رقبے کو آبپاشی کی سہولتیں میسر ہیں اور 22 فیصد رقبے کا انحصار ابھی تک بارش پر ہے اور فی ہیکٹر پیداوار کو پست رکھنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ آبپاشی کے پانی کی محدود مقدار کے سبب کسان اپنے کھیتوں میں فصل کاشت کرنے کے بعد دوسری فصل میں خالی چھوڑتا ہے تا کہ وہ زمین قدرتی طور پر اپنی غذائیت کے کا ہو حاصل کر کے دوبارہ کا شتکاری کے لئے بحال ہو سکے۔

پاکستان میں آبپاشی کی ضروریات

آب پاشی کی ضرورت

پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اس طرح کا وجود رکھتا ہے کہ اس کے تمام علاقے پر یکساں بارش نہیں ہوتی کسی جگہ اوسطا سالانہ دو انچ بارش ہوتی ہے اور کسی جگہ اوسطاً سالانہ 40 انچ بھی بارش ہوتی ہے غالبا ملک کا 67 فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں بمشکل 10 انچ بھی بارش ہوتی ہے اگر ہمارے ملک میں آبپاشی کا متبادل انتظام نہ ہو تو اندازہ ہے کہ ہمارا تقریبا نوے فیصد علاقہ بے آب و گیاہ اور نجر ہوتا یا اگر اس پر زراعت بھی ہوتی تو بڑی معمولی قسم کی زراعت کی توقع کی جاسکتی تھی لہذا اس ضرورت کے تحت ہمارے ملک میں آبپاشی کا نظام قائم کیا گیا تا کہ ہم اپنی کھیتی باڑی کا کام بہ طریقہ احسن کر سکیں۔

بلند معیار زندگی

زراعت کے لئے پانی کی اہمیت بعینہ ہے جیسے انسانی جسم میں گردش خون کی ضرورت ہمارے کسان کو جب پانی کی سہولت پوری طرح میسر آجاتی ہے تو انکی پیداوار میں قدرتی طور پر کم از کم میں فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے ہمارے ان علاقوں میں جہاں موسمی بارشیں اپنے ٹھیک وقت پر ہو جاتی ہیں اور کسان ان بارشوں سے مستفید ہو جاتا ہے وہاں فی ایکڑ پیداوار خود بخود بڑھ جاتی ہے ہمارے کسان کی آمدنی میں اضافہ روہ اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔

بہتر سرمایہ کاری کے مواقع

مانی ایکڑ پیداوار میں اضافے سے اس کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے اپنے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے بعد وہ کچھ نہ کچھ بچا بھی سکتا ہے اس بچت کو وہ اپنی زراعت میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کر سکتا ہے اپنی بچت سے وہ کنوئیں کھدوا سکتا ہے۔ ٹیوب ہے اور ٹریکٹ خرید سکتا ہے غرضیکہ وہ اسی قسم کے کئی ایسے کام کر سکتا ہے جو معاشی اصلاح میں سرمایہ کاری کہلاتے ہیں اور جن سے پیداوار مزید بڑھائی جاسکتی ہے۔

جدید طریق کاشت پر عمل

ہمارے کسان کی آمدنی بڑھ جانے سے وہ اپنی زندگی میں انقلاب محسوس کرتا ہے اس کے بچے شہروں میں تعلیم کے لئے جاتے ہیں اور انجینئر نگ اور ڈاکٹری جیسی اہم تعلیمات حاصل کر کے ملک کے بہترین شہری بنتے ہیں وہ خود بھی اپنے گھر میں زندگی کی نئی آسائشات خرید کر لاتا ہے ریڈیو، ٹی وی کمپیوٹر، فرج موٹر کار وغیرہ جیسی سہولیات زندگی اس کے گھر میں آنے سے طرز فکر بدلتا ہے وہ دقیانوی اور روایتی طرز زندگی کو چھوڑ کر زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سفر میں وہ ایسے طریقے بھی سکھ لیتا ہے جس سے اس کی زراعت جدید خطوط پر استوار ہوتی ہے اور اس طرح پورے ملک کی زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا ہے۔

روزگار کی بلند سطح

زرعی شعبہ میں خوشحالی آنے سے دیہی علاقے میں ثانوی مشاغل میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کسان صرف کھیتی باڑی کے کام میں مشغول نہیں رہتا بلکہ اپنے فاضل وقت اور سرمایہ کو زراعت کے ثانوی مشاغل مثلا مرضیانی ، ماہی گیری اور ڈیری فارمنگ اور لائیوسٹاک کی بریڈنگ میں صرف کرتا ہے اس طرح ملک میں پیدائش دولت کی نئی راہیں کھلتی ہیں ان کاموں میں دوسرے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جس سے روز گار کی سطح بلند ہوتی ہے۔

مکی در آمدات میں کمی اور برآمدات کو فروغ

زرعی اجناس کے زیادہ ہونے سے ملک میں اجناس کی رسد میں کفالت آجاتی ہے جنہیں قلت پیداوار کے باعث پہلے درآمد کیا جاتا تھا در آمدات میں کمی سے ملک پر زر مبادلہ خرچ کرنے کا بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے خود کفالت حاصل کر لینے کے بعد اگر زرعی پیداوار میں مزید اضافہ ہو تو اسے بیرون ملک بر آمد کر کے زرمبادلہ کمایا بھی جاسکتا ہے اس طرح زرمبادلہ کی مسلسل آمدنی کو صنعتی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ملک میں ایسی مشینیں درآمد کی جاسکتی ہیں جن سے بھاری کارخانے قائم کئے جاسکتے ہیں۔

جذبہ ملی کو فروغ

وہ قومیں جو خوشحال ہوتی ہیں اور ان کا کاروبار زندگی مطمئن طریقے سے جاری رہتا ہے وہاں کے عوام اپنے اور وہ ملک کی ہر شے سے پیار کرتے ہیں انہیں اپنے ملک کے چپہ چپہ سے والہانہ محبت ہوتی ہے اور وہ لوگ اپنی ملک کی تیار کردہ مصنوعات کو فخر سے استعمال کرتے ہیں اپنی قوم کی ترقی کے لئے ہر وقت محنت کرتے رہتے ہیں ایسی قوموں کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا وہ اپنے ملک کے مسائل کو ثبت انداز میں دیکھتے ہیں اور اپنے ملک کی فلاح و بقا کے لئے بڑی سے بڑی قربانی لئے ایسی دینے میں پس و پیش نہیں کرتے ایسا ملک اندرونی خلفشار اور بیرونی دباؤ سے آزاد رہ کر اپنی ترقیاتی منازل طے کرتا جاتا ہے۔

نہریں

ہمارے ملک میں آب پاشی کے مختلف ذرائع میں ملک کے شمالی علاقہ جات میں برف پوش پہاڑوں کی بدولت ہمارے ملک میں پانچ دریاؤں سے ہم نے نہریں نکالی ہوئی ہیں اور انہی نہروں میں سے کچھ نہریں  یعنی دوائی اور کچھ نہریں یعنی غیر دوائی ہیں دوائی شہروں سے ہماری دونوں فصلیں یعنی ربیع اور حریف سیراب ہوتی ہیں کیونکہ ان میں سارا سال پانی بہتا رہتا ہے جبکہ غیر دوالی نہریں صرف مخصوص مدت میں چالو کی جاتی ہیں ان میں پانی اس لئے چھوڑا جاتا ہے کہ کسی خاص علاقے میں کسی فصل کو سیراب کرنا مقصود ہو یا ایسی نہروں میں اس وقت پانی چھوڑا جاتا ہے جب دریاؤں پر سیلاب کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور آبادی والے علاقے سنگین خطرات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں پاکستان میں کل زیر کاشت رقبے کا 54.42 فیصد رقبہ انہی نہروں سے سیراب ہوتا ہے۔

ٹیوب ویل

نہروں کے بعد آب پاشی کا دوسرا بڑا ذریعہ ٹیوب ویل ہیں پاکستان میں سرکاری اور بھی دونوں قسموں کے ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں یہ ٹیوب ویل بھلی اور ڈیزل دونوں سے چلائے جاتے ہیں۔ یعنی یہ ٹیوب ویل فصل ریچ اور فصل خریف دونوں میں کام کرتے رہتے ہیں کار کردگی کے اعتبار سے ٹیوب ویلوں سے زیادہ رقبہ سیراب ہوتا ہے۔ 

کنویں

کنوؤں سے پانی کی مقدار ہماری فصلوں کو اتنی زیادہ نہیں ملی جتنا کہ نہروں اور ٹیوب ویلوں سے پانی مہیا کیا جاتا ہے غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ کنوؤں میں پانی کی مقدار اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ اسے بڑے پیمانے پر آب پاشی کے لیئے استعمال ر ی ہی ہوتا ہے کہ کہ کتوں سے پانی ملنے کے لئے   استعمال ہوتی ہے اس لئے ان کنوؤں کو مجبوراً کچھ وقفہ کے بعد رو کنا پڑتا ہے کیونکہ جانوروں کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے آب پاشی کے نظام میں کنوؤں سے زیادہ ایسی فصلیں سیراب ہوتی ہیں جو عموما علاقائی منڈی میں فروخت ہوتی ہیں جیسے تمام قسموں کی سبزیاں یادائیں وغیر ہ فصلیں زیا دہریے میں کاشت نہیں ہوتیں نہیں جو کی بناپر کوؤں سے تھوڑا سارقبہ سیراب ہوتا ہے یہ ہی دیکھتے میں آیا ہے کہ کل میراب شد در تجے میں اضافہ ہونے کے باوجود کوؤں سے سیراب ہونے والے رقبہ میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔

تالاب

تالاب سے آب پاشی کا رواج ہمارے ملک میں بہت کم ہے غالبا ہمارے کا شکاروں میں تالاب کھودنے اور پانی جمع کرنے کا رواج نہیں شاید وہ لوگ اس سے واقف نہیں کہ تالاب میں جو پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے وہ نہ صرف آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں مال مویش بھی پای بنتے ہی انہیں بھی پالی جاتی ہیں اور پھلیوں کی پرورش بھی ہوسکتی ہے چونکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں گرمی شدت کی پڑتی ہے اس لئے ان علاقوں میں تالاب نہ ہونے کا سب یہ بھی ہے کہ پانی آبی بارات میں جلد قلیل ہوکر تالاب کو شک کرتا ہے اس مس کی متعدد وجوہات ہیں جن کی بناپ تالاب کے ذریعہ سیراب ہونے والا رق به نهایت معمولی بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے یہ قبر شروع میں الا کا پیکر تھا جوآہستہ آہت کم ہوتا گیا اور اب بہت معمولی رہ گیا۔

کاریز و دیگر ذرائع

کاریز کا ستعمال صرف صوبہ بلوچستان میںہے کاریز اور دیگر ذرائع سے آب پاشی ہونے والا رقبہ بھی بڑا معمولی ہے اور یہ ھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس رقبے میں کی بھی آتی جارہی ہے۔

مالیات کی فراہمی میں مشکلات

ہمارا ملک غریب ملک ہے اور ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ملک میں تیزی کے ساتھ نہریں بنائیں ان شہروں کی کھدائی پر کثیر تم صرف ہوتی ہے زیادہ تعداد میں نہریں بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں زیادہ تعداد میں ہم بھی تمیز کر یں ہماری حکومت کو بے شمارتر قیاتی اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور یہ سارے کے سارے اخراجات ہماری محدود آمدنی سے کئے جاتے ہیں لہذا جب تک ہماری ملکی آمدنی میں بھر پور اضافہ نہ ہو ہماری قوم اتنے بھاری اخراجات کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

درآمدی اشیاء کی گرانی

نہریں اور ڈیم تعمیر کرنے کے لئے ہمیں ایسی مشینری درآمد کرنا پڑتی ہے جن کی قیمت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے مجموعی اخراجات جو آج سے کئی سال قبل جتنے تھے آج ان سے 10، 20 گنا بڑھ گئے ہیں اگر ہم یالا ت کے برداشت سے باہر ہوجاتا ہے۔

ڈیزل اور بجلی کی ہوش ربا گرانی

ٹیوب ویل بجلی سے بھی چلتے ہیں اور ڈیزل سے بھی یہ دونوں چیزیں دن بدن مہنگی ہوتی جا کا و یا ایل ای کی میں ملے ہیں اور میں ہی سے اس کا براہ راست اور رہی ہیں ۔ ڈیزل کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے آج کل تیل کا بحران اتنا سیمین ہو گیا ہے کہ اس کا براہ راست اثر ڈیزل کی رسد پر پڑا ہے جس کے نتیجے میں اس کا مہیا ہونا مشکل طلب مسئلہ بنا رہتا ہے۔ دن بدن بجلی کی پیداوار میں کمی اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ بجلی کے گاؤں تک پہنچنے کی رفتار بھی مست ہے اور عموماً واپڈا کے ملازمین کے ہتھکنڈے ایسے ہوتے ہیں کہ ہمارا کا شکار روتا رہتا ہے۔

ٹیوب ویل کی تنصیب کی بڑھتی ہوئی لاگت

ٹیوب ویل کی تنصیب اور اس کی قیمت کافی مہنگی ہو چکی ہے محنت اور سرمایہ ہو درجہ کی وہ کے اخراجات کئی گنا زیادہ ہو جانے کے سبب اوسط درجہ کے کا شکار کی ہمت نہیں کہ وہ اپنی زمینوں میں ٹیوب ویل لگوائے اگر حکومت ٹیوب ویل کی تنصیب پر اعیانہ  ۔ دے تو شاید کوئی کاشتکار بھی ٹیوب ویل نہ لگا سکے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں آبپاشی کی ضروریات"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment