پاکستان میں غیر ملکی تجارت کا رجحان ⇐ پاکستان میں غیر ملکی تجارت کا رجحان آزادی حاصل کرنے کے وقت سے پایا جاتا ہے۔ اس طرح اس تجارت کا ماخذ ایک تاریخی المیہ ہے جس سے معاشی مطابقت پیدا ہو گئی۔ کوریا کی جنگ نے تمام دنیا میں پاکستان کے خام مال کی زبردست طلب پیدا کر دی جس سے 51-1950ء کے مالی سال میں 57.64 کروڑ روپے کا موافق توازن ادائیگی منظر عام پر آیا۔ اس موافق توازن ادائیگی کی وجہ سے درآمدات کے سلسلہ میں حکومت پاکستان نے آزادانہ پالیسی کا اجراء کر دیا۔ اس پالیسی کا نام آزاد عمومی لائسنس رکھا گیا۔ 1952ء میں جنگ کو ریا کے خاتمہ پر یہ پالیسی بہت ہی مہلک ثابت ہوئی کیوں کہ پاکستانی خام مال کی قیمتیں بڑی طرح اثر انداز ہوئیں۔ بعد ازاں پاکستان میں ایک پالیسی وضع کی گئی جس کی رو سے مقامی مینڈیوں میں خام روئی کی قیمتیں بڑھادی گئیں، جو کہ بین الاقوامی منڈیوں کی قیمتوں سے بہت زیادہ تھیں۔ قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کو بلحاظ ضخامت اور قیمت بھیا تک زوال کا منہ دیکھنا پڑا، نتیجہ کے طور پر پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
عمومی الائسنس پالیسی کا تجزیہ
اور حکومت پاکستان کی آزاد عمومی لائٹس پالیسی کا ناقدانہ تجزیہ ظاہر کرتاہے کہ پالیسی قابل حسین نہیں رہی تھی کیونکہ جنگ کی گرم بازاری نے معمولی قسم کے حالات پیدا کر دیے تھے اور اس امر کی ی کی پیش بندی نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ حالات عرصہ دراز تک رہیں گے ۔ ہمارے لیے بہتر ہوتا کہ ہم موافق توازن ادا تک کو معیشت کی ترقی کے لیے اسا اشیاء سرمایہ درآمد کرتے۔ حکومت پاکستان نے آزاد ادائیگی کی عمومی لائسنس پالیسی میں نقص محسوس کیا اور اسے 1982ء میں کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن توازن ادائیگی اور اسے میں دے دیا۔ ادا کے زوال پذیر رجحان کو نہ روکا جاسکا۔ نتیجہ کے طور پر 1954-1955ء میں پاکستان کی توازن ادائیگی کی کیفیت اس کے بالکل خلاف چلی گئی لہذا اس خسارے کی تطبیق کے متعلق غور کیا جانے لگا۔ پاکستانی در روپے کی قیمت و کم کر دیا گیا تا کہ خسارہ کے بحران پر قابو پایا جا سکے لیکن 1956 1958ء کے عرصہ روپے قیمت کوکم پر پایاجاسکے میں غذائی فصلوں کی قلت کی وجہ سے کسی قسم کی اصلاح معرض وجود میں نہ آئی ۔ 1958ء میں جب صدر ۔ محمد ایوب خان کی سربراہی میں مارشل لاء حکومت قائم ہوئی تو ہمار از ر محفوظ خطر ناک طریق سے زوال کی آخر حدود کو چھورہا تھا۔ اس نئی حکومت نے حالات کو معمول پر لانے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کیں۔ غیر ملکی تجارت کی حوصلہ افزائی کے لیے 1959ء میں بونس سکیم کو متعارف کرایا گیا۔ اس سکیم سے ہمارے ملک میں برآمدات کو حوصلہ افزائی نصیب ہوئی۔
غیر ملکی تجارت میں بہتری کارجحان
حکومت پاکستان نے برآمدات کے نظام، غیر ضروری درآمدات توازن ادائیگی کے حالات کی اصلاح اور تجارت کی شرائط پر مثبت طریقے سے غور کیا۔ جس نتیجے پر پاکستان نے بلحاظ اشیاء اور اور پر نے بلحاظ ممالک، غیر ملکی تجارت میں تنوع پیدا کیا ۔ اب پاکستان ایک صنعتی ملک بنتا جا رہا ہے۔ صنعتوں کے غیر کیا۔ بنتا جارہا قیام میں ترقی کی وجہ سے خام مال کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے جس سے پاکستان ایک صنعتی ملک بنتا جارہا جا ہے ہے۔ صنعتوں کے قیام میں ترقی کی وجہ سے خام مال کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ جس سے پاکستان کی جارہا برآمدات میں زیادہ سے زیادہ تیار شدہ مال شامل کیا جا رہا ہے ۔ برآمدات کے سلسلے میں اشتراکی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ایک متحسن قدم ہے۔ ان ممال میں روس، چین اور دوسرے ایشیائی ممالک شامل ہیں ۔ آج کل چاول کی پیداوار میں پاکستان نے غیر ملکی منڈیوں میں ایک مستحکم مقام ۔ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف النوع اشیاء برآمد کی جارہی ہیں۔ اس کے عوض غیر ممالک سے کوئلہ، سیمنٹ اور فولاد مہیا کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے مسلم ممالک کو بھی برآمدات کی ترسیل شروع کر ن، تنزانیه، اتو یا الجیر با ولی متحده عرب دی ہے۔ پاکستان نے گھانا، مالی، کینیا، نائجیریا، سوڈان ، تنزانیہ ایتھوپر امارات ، شام ، عراق، ایران، انڈونیشیا اور ترکی وغیرہ کے ساتھ منفعت بخش سطور پر تجارتی روابط استوار کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یورپ کی مشتر کہ منڈی کی طرح پاکستان بھی آرہی، ڈی کے معاہدہ کے تحت ایران ارترکی کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے۔
پاکستان کی تجارتی پالیسی
دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تجارت کو ترقی دینا اور تجارتی میدان میں ان کے ساتھ ابدی رشتے قائم کرنا۔ 2 زر مبادلہ کمانے کی غرض سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ کرنا، زائد اشیاء اور تیار شدہ مال کو فروخت کرنا۔ 3 کسب زر مبادلہ کے تخمینہ کے مطابق درآمدات پر قابو پانا صنعتی مصارف اور ضروری احتیاجات کے حصول کے لیے ذرائع تلاش کرنا ۔ کاروبار سے متعلقہ جذبات کو ترقی دینا جس میں جہازی ترسیل تجارتی ذرائع اور بحری بیمہ پالیسی میں اصلاح کرنا تا کہ ان کے ذریعہ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی کفالت ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
پاکستان کی غیر ملکی تجارت کی خصوصیات
پاکستان میں تجارت کا توازن موافق اور معمول پر ہے۔ لیکن پاکستان کو اپنے قیمتی زرمبادلہ کا بہت سا حصہ غیر مرئی مدوں پر خرچ کرنا پڑتا ہے جن میں سفر کے اخراجات کی ادائیگی ، بیرونی ملک خاندانوں کی نگہداشت اور استعار کے لیے ترسیلات زر مبادلہ تعلیم کی اقسام، چھوٹ کی واپسی ، جہازی ترسیل کے عوض بار برداری کے اخراجات، بنک اور بیمہ کاری کے اخراجات ، بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ترسیلات زر مبادلہ وغیرہ شامل ہیں۔ وضبط 2 ہماری غیر ملکی تجارت کا 80 حصہ بحری جہازی ترسیل کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ پاکستان میں غیر مکی تجارت زیادہ ترنجی کار انداز کرتے ہیں لیکن اس تجارت کا نظم وضبط حکومت پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے لیے لائسنس کا طریقہ کار کو یہ سماور زر مبادلہ کی گنجائش وغیرہ کی قدر اندازی کر لی جاتی ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر غیر ملک تجارت برطانیہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، جاپان اور کینیڈا کے ساتھ کی تر ہوتی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ہماری تجارت 1959 ء میں اس کے روپے میں کمی آجانے کی وجہ کے سے بند کر دی گئی اور بعد میں 1965ء کے جنگ کے وقت تجارت مطلق طور پر بند ہوگئی ۔ اس کی کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جاپان وغیرہ سے تجارت بڑھادی ہے۔ اشتراکی ممالک کے ساتھ تجارت اب ترقی پر جارہی ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں ان گنیت اشیاء شامل ہیں جو کہ تیار شدہ پیداوار سے متعلق ہیں۔ اوائل میں ہر چھوٹی بڑی شے درآمد کی جاتی تھی۔ مگر پاکستان میں صنعت کے قیام سے غیر ملکی اشیاء پر انحصار کم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان درآمدی اشیاء میں صنعت اور معاشی ترقی میں کام آنے والی مشینری شامل ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں غیر ملکی تجارت کا رجحان" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ