کھجور کی بیماری ⇐ کھجور پر مندرجہ ذیل بیماری حملہ آور ہوتی ہے۔
کھجور کی کانگیاری
کھجور کی کانگیاری کی بیماری کھجور کے ہر باغ میں پائی جاتی ہے۔
پہچان
یہ بیماری کھجور کے چھوٹے بڑے دونوں پودوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ بیماری سے پتوں پر کھردرے اور کالے رنگ کے دھبے (نشان) پڑ جاتے ہیں۔ کانگیاری کے یہ دھبے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کے اندر کانگیاری کے بیج موجود ہوتے ہیں۔
پھیلنے کے اسباب
کانگیاری کی یہ بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے بھرے ہوئے دھبوں میں بیماری کے بیچ پائے جاتے ہیں جن سے بیج نکل کر ہوا کے ذریعے صحت مند پودوں پر پھیل جاتے ہیں اور اس طرح بیماری پیدا ہوتی ہے۔
روک تھام
درختوں کے حملہ شدہ جھکے ہوئے بڑے پتوں کو کاٹ لیں اور جلا دیں۔ سلفوران ۲۰۰ گرام ( پوند ) ۲۵۰ لیٹر ۱۰۰ گیلن پانی میں محلول تیار کرکے پاور سپرے مشین سے پتوں پر سپرے کریں۔ خیال رہے کہ سپرےکرتے وقت پتے خشک نہ رہنے پائیں۔
پیپتے کی بیماریاں
پیپتے پر مندرجہ ذیل بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔
- تنے کا سڑن
- پھل کا سڑن
تنے کا سڑن
یہ بیماری عام طور پر پودے کے تنے کے اس حصے پر حملہ آور ہوتی ہے جو زمین کی سطح کے برابر ہوتا ہے۔
پہچان
بیماری سے متاثرہ حصہ (مقام) اسفنج کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور اس جگہ سے سڑ جاتا ہے جبکہ پودے کی چوٹی کے پتے زرد رنگ کے ہو جاتے ہیں، مرجھا جاتے ہیں اور بعد میں خشک ہو جاتے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے پھل بھی سکڑ جاتے ہیں اور جھڑ جاتے ہیں بیماری کی وجہ سے جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ گل سڑ جاتی ہیں۔ نشود نما میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور درخت گر جاتے ہیں۔
پھیلنے کے اسباب
یہ بیماری ایک طرح کی پھپھوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے یہ بیماری ایسے پودوں پر حملہ آور ہوتی ہے جو نشیبی جگہ پر کاشت کئے گئے ہوں اور جہاں پانی کے نکاس کا بہتر بندوبست نہ ہو۔
روک تھام
- متاثرہ پودوں کو جڑوں سمیت اکھاڑ کر تلف کر دیں۔
- زمین میں پانی کے نکاس کا خاص خیال رکھیں کہ پانی کھڑا نہ ر ہے۔
- تنوں کیساتھ ساتھ مٹی بھی چڑھائیں۔
بورڈومکسچر کے پیسٹ کے ملنے سے بیماری کی تلفی میں مددملتی ہے۔
پھل کا سڑن
پیپتے کی سڑن کی بیماری پھل پر دھبوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دھبے بڑھتے رہتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور پھل کی سطح پر زیادہ جگہ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں پھل پلپلا اور نرم ہو کرگل سڑ جاتے ہیں اور کھانے کے قابل نہیں رہتے۔
پھیلنے کے اسباب
پیپتے کے پھل کی سڑن کی بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے
روک تھام
پھل کے سٹرن کی بیماری کی تلفی کیلئے مندرجہ ذیل زہریلی ادویات مفید ثابت ہوئی ہیں۔
- ڈائی تھین ایم – ۴۵
- پولی رام کومبی
- بورڈو مکسچر (۴:۴:۵۰)
سبزیوں کی اہمیت
ہماری خوراک میں سبزیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ انسان کی اچھی صحت کیلئے سبزیوں کی ضرورت پر جتنا زور دیا اتناہی کم ہے۔ سبزیاں حیاتین اور معدنی نمکیات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہماری صحت کیلئے یہ ضروریاجزاء جس مقدار میں درکار ہوتے ہیں وہ سبزیوں کی نسبت دوسری اجناس میں مناسب مقدار میں نہیں ہوتے۔ سبزیوں کے استعمال سے انسان کئی بیماریوں سے بچا رہتا ہے جن میں بیری بیری اور شب کوری ( اندھرا تا ) قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ سبزیاں دوسری فصلوں کے مقابلے میں جلد تیار ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر ایک سال میں غلے کی ایک یا دو فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جبکہ زمین کے اسی ٹکڑے سے ایک سال میں سبزیوں کی تین یا چار فصلیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ فصلوں کے مقابلے میں سبزیوں کی کاشت ایک نفع بخش کاروبار ہے لیکن ہمارے کاشت کاروں کو سبزیوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں بہت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں کیڑوں کی طرح بیماریاں بھی ایک نہایت اہم مسئلہ ہیں۔
بیماریاں کس طرح پھیلتی ہیں
جس طرح انسانوں اور حیوانوں کو کئی طرح کی بیماریاں لگتی ہیں۔ اسی طرح پودوں پر بھی مختلف بیماریاں حملہ کرتی ہیں ۔ بعض اوقات تو بیماریاں وبا کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جس کے نتیجے میں تمام کی تمام فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں آلو کی خاص بیماری پچھپتی جھلساؤ قابل ذکر ہے۔ انیسویں صدی کے نصف میں آئر لینڈ میں آلو کی فصل اس موذی بیماری کی وجہ سے تباہ ہوگئی جس کی وجہ سے آئر لینڈ میں زبردست قحط پڑا۔ اس میں کوئی لاکھ انسان مر گئے اور بے شمار لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر امریکہ اور کینیڈا میں جا کر بس گئے۔ پودوں میں بیماریاں پھیلنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ بعض بیماریاں پھپھوندی یا فطرات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بعض جراثیم اور بیکٹیریا کی وجہ سے لگتی ہیں۔جبکہ کچھ بیماریاں وائرس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
پھپھوندی
پھپھوندی در اصل بہت چھوٹے چھوٹے پودوں کا دوسرا نام ہے۔ اس کا جسم بار یک باریک دھاگوں کی طرح بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس میں عام پودوں کی طرح سبز مادہ نہیں ہوتا اس لئے ایسے پودے اپنی خوراک نہیں بناسکتے بلکہ دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں اور اپنی خوراک حاصل کرنے کیلئے زندہ یا مردہ پودوں یا پھر جانوروں پر رہتے ہیں۔
جراثیم
بیکٹیریا جاندار ہوتے ہیں اور جسامت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کو دنیا کی ایک بہت ہی چھوٹی سے مخلوقات میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کی تعداد ( آبادی) بڑی تیزی سے بڑھتی رہتی ہے۔ بیکٹیریا کو خوردبین کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے اندر بھی سبز مادہ موجود نہیں ہوتا ۔
وائرس
وائرس کی بیماری پیدا کرنے والا ایک خطرناک مادہ ہے۔ یہ اتنے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں عام خورد بین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کو دیکھنے اور پہچاننے کیلئے ایک خاص قسم کی الیکٹرون خورد بین استعمال کی جاتی ہے۔ وائرس کا حملہ انسانوں، حیوانوں اور پودوں پر ہوتا ہے۔ وائرس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں لگتی ہیں۔ وائرس مادہ کئی شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ مثلا
- دہاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی طرح کی شکل
- گیند کی طرح گول شکل
- انڈے کی طرح شکل ( بیضوی شکل )
وائرسی بیماریاں پھیلنے کے اسباب
وائزی بیماریاں دو طرح سے پھیلتی ہیں۔ چھوت چھات سے جاندار شے کیٹروں خیطیات اور پھپھوندی کے ذریعے چھوت چھات سے پھیلنے والی وائرس عام طور پر بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر بیمار اور تندرست پودوں کے آپس میں چھو جانے سے بیماری پھیل جاتی ہے۔ ان کے پھیلنے میں انسان کا بھی بہت دخل ہے۔ جب انسان کھیت میں کام کرتا ہے تو اس کے ذریعے یا پھر اس کے مختلف اوزاروں کے ذریعے جو وہ زراعت کے کام کیلئے استعمال کرتا ہے چھوت کی وائری بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیمار فصل میں سے کسی جانور کے گزرنے سے اس سےجراثیم تندرست پودوں میں متقل ہو جاتے ہیں۔ وائرس کے پھیلنے کی دوسری صورت کیڑے، خیطیات اور پھپھوندی ہے۔ ان میں خاص طور پر کیڑے مکوڑے، وائری بیماریاں پھیلانے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں
کیڑے
مثال کے طور پر کیڑوں میں سست تیلہ، چست تیلہ اور سفید بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ رس چوسنے والے کیڑے جب وائرسی بیماری سے متاثر پودے کا رس چوستے ہیں۔ رس چوسنے کے دوران ان کے ساتھ وائرس چمٹ جاتے ہیں۔ جب یہ کیڑے تندرست پودوں پر اپنی خوراک ( رس) حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں تو بیماری کے جراثیم ان تندرست پودوں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پودوں میں وائرس پہنچ جاتی ہے۔
خیطیات دھودھئیے
خیطیئے بہت ہی چھوٹی جسامت کے باریک اور نرم و نازک جسم والے کیڑے ہوتے ہیں۔ ان کو ایل ورم بھی کہتے ہیں۔ یہ خورد بینی جاندار ہوتے ہیں۔ ان کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ گولڈن نیما ٹوڈ کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں آلو کی فصل کو بے حد نقصان پہنچتاہے۔ نیما ٹوڈ پودوں کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ دراصل یہ پودوں کی جڑوں سے چمٹ جاتے ہیں اور ان سے رس چوستے رہتے ہیں۔ جڑوں اور تنوں کے دبے ہوئے اور پھولے ہوئے حصوں پر حملہ کرتے ہیں اور اس طرح ان سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اپنے خیطیئے آلو کے علاوہ چقندر، مالٹا سنگترہ اور انگور کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سردیوں کے موسم میں بہت سی سبزیاں، مولی شلجم، گاجر میتھی ، پالک اور چقندر وغیرہ پر بہت کم بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں کئی ایک سبزیاں آلو، ٹماٹر بھنڈی مرچ اور خربوزے وغیرہ بیماریوں سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں ۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “کھجور کی بیماری“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
…………….کھجور کی بیماری. ………………