انسداد جرائم اور تعلیمی ادارے ⇐ خاندان کے بعد سکول اور کالج تربیت اطفال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن تا حال ہمارے تعلیمی اداروں میں صالح تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاسکا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سکولوں میں اور کالجوں میں اچھے اساتذہ کی کمی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں میں بہترین عملہ بھرتی کیا جائے جو بچوں کو نیک زندگی گزارنے کی تربیت دے۔ فی زمانہ سکولوں میں پڑھائی کا معیار پست ہوتا جا رہا ہے اور اکثر بچوں کو نا کامی و نامرادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
بچوں میں جرائم
بعض بچے مایوس ہو کر تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ اس پر اساتذہ اور والدین کی طرف سے سرزنش ہوتی ہے جو ان کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہوتی اور اکثر اس سے بھگوڑے پن کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو بچوں میں جرائم کا ایک اہم سبب ہے ۔ ہمارے اکثر اساتذہ بچوں کی نفسیات سے بالکل نا واقف ہیں اور بچوں کے ساتھ ان کا سلوک اکثر ناروار ہتا ہے۔ چنانچہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر گرفت اور پٹائی سکول سے بچوں کا دل اچاٹ کر دیتی ہے
اخلاقی تعلیم و تربیت
ان میں مجرمانہ کردار کے جرائم پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بچوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت نہایت لازمی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسی تعلیم کا سخت فقدان ہے ۔ خود اسا تذہ کا کردار بچوں کیلئے مشعل راہ نہیں ہے۔ اسلامی شعائر کی وہ خود بھی پابندی نہیں کرتے اس لئے بچوں کیلئے وہ مثال کردارنہیں بن سکتے۔ دور جدید میں خاندان کا ادارہ بچوں کی تربیت سے دستبردار ہوتا جا رہا ہے۔
طلبہ کی تعداد
ایسی صورت میں اچھے سکولوں کی کمی اور بڑھتے ہوئے طلبہ کی تعداد کے پیش نظر بہت سے بچے داخلے سے محروم ہیں اور وہ اپنا زیادہ تر وقت گلی کوچوں میں آوارہ پھر کر گزارتے ہیں۔ جرائم کو روکنے کیلئے اچھے سکول اچھے اساتذہ پاکیزہ ماحول اور اسلامی نصاب تعلیم اور صالح افراد کی ضرورت ہے۔
مذہب اور انسداد جرائم
مذہب بھی انسداد جرائم میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان اسلامی قوانین کے فروغ و نفاذ کیلئے حاصل کیا گیا تھا ۔ اسلام کے سنہری اصولوں کی اگر لوگ مکمل طور پر پیروی کرنا شروع کر دیں تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ ملک میں مکمل امن وامان اور سکون قائم ہو جائے گا۔
مذہب اسلام
مذہب اسلام انسان میں خدا کے سامنے جوابدہی خوف خدا اور خدا ترسی پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو جرائم قتل، ڈکیتی، چوری کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ اسلامی سزائیں بھی رائج کر دی جائیں تو ایسے جرائم بہت کم ہو جائیں گے جس طرح کہ سعودی عرب میں کے جرائم بہت کم پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں اسلام کے مطابق انصاف ملتا ہے اور مجرم کو سخت سزا دی جاتی ہے۔
قوانین کو اسلامی سانچے
ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے کیونکہ اگر افراد کو یہ یقین ہو کہ قوانین کی خلاف ورزی پر نہ صرف وہ حکومت کا مجرم ہے بلکہ خدا کا مجرم بھی ہوگا تو جرائم کرنے سے پہلے وہ ضرور سوچے گا ۔ اس طرح مذہب سے جرائم کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔ اسلامی قوانین اور اسلامی سزا میں رائج کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلامی نظام عدل و انصاف کا نفاذ کیا جائے اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پورے معاشرتی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے
جرائم کا تدارک اور اقتصادی حالات
غربت بذات خود جرائم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جیل خانے زیادہ تر افلاس زدہ قیدیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ عدالتوں سے سزا پائے جانے والوں میں بھی غریب لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے، اور پولیس کے ریکارڈ کے مطابق بھی حراست میں لئے جانے والے لوگوں کی اکثریت غربت اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ خراب اقتصادی حالات لوگوں کی سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
افراد بدنظمی کا شکار
افراد بدنظمی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے سبب جرائم میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً حالیہ دنوں میں جو علاقے سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے وہاں چوری کی وارداتوں میں 40 فیصد اضافہ ہو گیا۔ چونکہ غریب گھرانے جاہلیت پسماندہ علاقوں کی گندی رہائش اور گھریلو جھگڑے جرائم کی پرورش کرتے ہیں۔ لہذا جرائم کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کے حالات کو بدلا جائے اور سماجی ناہمواری کے فرق کو کم کیا جائے ۔
جرائم
غریب لوگوں کو انتقامی رویے پر آمادہ کرنے والا ان کا یہ شعور ہوتا ہے کہ ان کی غربت میں معاشرے کے امیر طبقے کا ہاتھ ہے۔ اس لئے وہ ڈکیتی نقب زنی اور چوری جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ دیکھنا فرض ہے کہ معاشرے میں ذرائع پیداوار پر صرف ایک با اثر طبقے کی اجارہ داری قائم نہ ہونے پائے بلکہ ساجی بھلائی کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں ورنہ جب تک غریب وامیر میں فرق زیادہ وسیع ہوتا رہے گا جرائم میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
اصلاح جرائم
جرم ایک دفعہ اگر واقع ہو جائے اور اس کا ارتکاب کر لیا جائے تو پھر مسئلہ روک تھام سے تجاوز کر کے اصلاح احوال کا تقاضا کرتا ہے۔ مجرم کی اصلاح کرنا ان کو دوبارہ جرم کرنے سے روکنا ہے تا کہ معاشرہ امن و سکون سے ہمکنار ہو۔ اگر مجرموں کی اصلاح نہ کی جائے تو اس سے معاشرتی امن وسکون کے برباد ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم کا سیلاب معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس سے نہ تو کسی کی زندگی محفوظ رہتی ہے نہ کسی کی عزت اور مال اور محفوظ ہوتا ہے۔
اسباب
مجرموں کی اصلاح کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اسباب اور عوامل کی مکمل طور پر اصلاح کی جائے جو ان کو جرم پر اکساتے ہیں۔ اس ضمن میں قانون حراست سزا کا نظام جیل خانے پولیس اور آزمائشی رہائی وغیرہ کا ذکر کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان اداروں کی اصلاح کے بغیر مجرم پیشہ افراد کی اصلاح ناممکن ہے کیونکہ امن و امان قائم کرنے والے ادارے اگر خودہی جرائم کو پروان چڑھا ئیں تو پھر اصلاح کی گنجائش کہاں ہو ۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “انسداد جرائم اور تعلیمی ادارے“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
………انسداد جرائم اور تعلیمی ادارے ……..