براه راست یا بلا واسطه میکس ⇐ میکس جس شخص پر لگے وہی اُس کو ادا کرتا ہے ۔ یعنی اس لیکس کا نفاذ اور بوجھ ایک ہی شخص پر واقع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انکم ٹیکس دولت ٹیکس اور حقہ سیکس وغیرہ براہ راست ٹیکس کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسے ٹیکسوں کا نفاذ اور بوجھ براہ راست ان ٹیکسوں کو ادا کرنے والے اشخاص پر پڑتا ہے۔ اس لیے یہ لیکس جس شخص پر لاگو ہوتا ہے وہ اس کے بوجھ کو کسی دوسرے شخص کے کندھوں پر ختقل نہیں کر سکتا۔ یعنی وہ اپنائی کسی دوسرے شخص کوادا کرنے پر جو نہیں کر سکتا بلکہ اس بذات خودی لیکس کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔
بالواسطہ ٹیکس
یہ وہ ٹیکس ہے جسے کسی واسطے کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اور اس کا بوجھ (بار) دوسروں پر منتقل کیا جا سکتا ہے یعنی جس شخص پر اس ٹیکس کا نفاذ ہوتا ہے وہ اسے کسی دوسرے شخص پر منتقل کر دیتا ہے مثلاً درآمدی کسٹم ڈیوٹی ، ایکسائز ڈیوٹی، بکری ٹیکس وغیرہ کا نفاذ تو آجرین اور تاجروں پر ہوتا ہے لیکن وہ ان ٹیکسوں کو اشیا کی قیمتوں میں شامل کر کے صارفین پر منتقل کر دیتے ہیں اور بالآخران ٹیکسوں کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
براہ راست ٹیکسوں کے فائدے
براہ راست ٹیکسوں کے فائدے درج ذیل ہوتے ہیں۔ براہ راست ٹیکس میزائد ٹیکس ہوتے ہیں اس لیے یہ اصول مساوات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یعنی ہر شخص سے اس کی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس لیا جاتا ہے۔ (ii) براہ راست ٹیکس کفایت شعاری کے اصول پر بھی پورا اترتے ہیں، کیونکہ ان ٹیکسوں کو اکٹھا کرنے پر حکومت کو بہت کم اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ پر اور است ٹیکسوں سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ یقینی ہوتی ہے اس لیے حکومت ان ٹیکسوں کی آمدنی کا پیشگی تخمینہ لگالیتی ہے اور انھیں مناسب ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتی ہے۔ بر اور است ٹیکسوں کا نفاذ اصول پھلداری کو تقویت بنتا ہے کیونکہ حکومت ضرورت پڑنے پر جب چاہیے اپنی مرضی سے نہ کر لگا کر اپنی آمدنی بڑھ سکتی ہے اور سرمایہ کاری کے عمل کو رواں دواں رکھتی ہے۔ براہ راست ٹیکس ادا کرنے والے احساس شہریت کا مزا لیتے ہیں اور اپنے وجود کو ملک پر بوجھ نہیں سمجھتے اور ذمہ داری سے اپنے ٹیکس ادا کر کے سرکاری خزانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس قسم کے کس قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ افراط زر کے حالات میں ان ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر کے لوگوں کی قوت خرید کوکم کیا جاتا ہے اور برے حالات میں شرح کم کر کے سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ) به پیکس اصول پیداواری کو بھی پورا کرتے ہیں کیونکہ ایسے ٹیکسوں کو اٹھا کر کے ملک میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور کی پیداوارنی شعبوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
براہ راست ٹیکسوں کے نقصانات
براہ راست ٹیکسوں کی خامیاں درج ذیل ہوتی ہیں۔ براہ راست ٹیکسوں کی مد میں وا کی جانے والی ادائیگیاں ٹیکس گزاروں کونا کو لگتی ہیں کیونکہ وہ ان ٹیکسوں کی ادائیگی کے سب اپنا آمدنی کے ایک خاص حصہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ براہ راست ٹیکس دہندگان چونکہ ان ٹیکسوں کو اپنے اوپر بوجھ سجھتے ہیں اس لیے ان ٹیکسوں سے بچنے کے لیے حیلے بہانے اور جان چھڑانے کے لیے رشوت جیسی لعنت میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس سے سرکاری خزانے میں زیادہ رقوم جمع نہیں ہو تیں اور ٹیکس وصول کنندہ اہلکاروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہیں۔ براہ راست ٹیکس کی مد میںجمع کروائی جانے والی رقوم کی مقدار کا انحصار لوگوں کی دیانت داری پر منحصر ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی کا آمدنی ظاہر نہیں کرتے اور سرکاری خزانے میں زیادہ ٹیکس جمع نہیں ہوتا ۔ راہ راست ٹیکوں کی ادائیگی سےلوگوں کی آمدنی میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے مجموعی بچتوں میں کی واقع ہو جاتی ہے ار میک میں سرمایہ کاری کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ (1) پیکس سال کے اختتام پر یکمشت جمع کروانے پڑتے ہیں اس لیے ٹیکس گزاروں کو ان کی ادائیگی میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ و چیکس جمع کروانے سے بچنے کے لیے محکمہ کس کے عملے سے ساز باز کرکے ٹیکس کی رقم بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرفان معاشرے میں بد دیانتی کی فضا پروان چڑھتی ہے۔
بالواسطہ ٹیکسوں کے فائدے
بالواسطہ ٹیکسوں کے درج ذیل فائدے ہوتے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس اشیا کی قیمتوں میں شامل ہوتے ہیں اس لیے ٹیکس دہندوں کو ان کا مزید بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور وہ کسی خاص ناگواری یا نا راضگی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ حکومت کو ایسے ٹیکسوں سے وصولی یقینی ہوتی ہے۔ کیونکہ جب صارفین اشیا خریدتے ہیں تو وہ قیمت کے ساتھ ہی پیٹیکس بھی ادا کر دیتے ہیں۔ اس لیے ان ٹیکسوں سے بچنا مشکل ہے۔ ii) بالواسطہ سیکس کی ادائیگی کے لیے ٹیکس گزاروں کو دفتری کاروائیوں یا محکمہ کے عملہ سے واسطہ نہیں پڑتا اس لیے وہ کئی پیچیدگیوں سے بچ جاتے ہیں اور سرکاری خزانے میں ٹیکس کی رقوم خود بخود منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ٹیکس اصول مساوات کی شرط پر پورے اترتے ہیں کیونکہ حکومت اشیائے صارفین پر کم شرح سے میکس عائد کرتی ہے جبکہ اشیائے تعیشات پر بھاری شرح سے ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد پر پڑ جاتا ہے۔ اس لیے کوئی خاص طبقہ یا شخص ان سے براہ راست متاثر نہیں ہوتا۔ (1 ) حکومت مصر اشیا مثلا افیون سیگریٹ وغیرہ کا استعمال روکنے کے لیے بھاری مقدار میں بالواسطہ ٹیکس عائد کر کے ان کے استعمال کو کم کر لیتی ہے۔ (vii) بالواسط نیکس مالیاتی پالسی کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تفریط زریا کساد بازاری کے حالات میں لوگوں کی قوت خرید بڑھانے کے لیے حکومت ان ٹیکسوں کی شرح کم کر دیتی ہے اور افراط زر کے حالات میں زر کی مقدار کو کم کرنے کے لیے شرح سیکس بڑھا دیتی ہے۔
بالواسط ٹیکسوں کے نقصانات
بالواسطہ ٹیکسوں کے نقصانات درج ذیل ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ٹیکس تمام اشیا پر ایک ہی شرح سے لگائے جاتے ہیں اس لیے ضرورت کی صرفی اشیا زیادہ تر ملک کے غریب عوام خریدتے ہیں اس لیے ان ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ بھی انہیں پر پڑتا ہے اور عوام اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جو بعد میں امن وامان برقرار رکھنے میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ آخرین بالواسطہ یکسو کی مخفی نوعی کا فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے منافع کو بڑھانے کی غرض سے ان ٹیکسوں کو آئے دن اشیا کی قیمتوں میں شامل کرتے رہتے ہیں جس سے عام آدمی کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس طرح فریبیوں کا استحصال آجرین کا معمول بن جاتا ہے۔ پیک اصول تیقن کے منافی ہوتے ہیں۔ کیونکہ یکس دہندگان کواسیات کا نداز نہیں ہوتا کہ کتن او ریمیکس اشیای قیمتوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس طرح عوام بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس لوگوں میں احساس شہریت پیدا نہیں کرتے ۔ ھوکہ نہیں اٹا کی تینوں میں شامل ہوتے ہی اس لیے جب حکومت پی آمدنی بڑھانے کے لیے ان کیسوں کی شرح میں اضافہ کرتی ہے تو ساتھ ہی اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور ملک میں افراط زر کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔