بیماری اور اس کی وجوہات ⇐ تھائر وکسن ایسا ہارمون ہے یعنی رامتین ہے جو کہ تھائرائیڈ غدود سے خارج ہوتا ہے۔ یہ بچے کی جسمانی اور پہنی نشو و نما کیلئے بہت اہم ہے اور توانائی کے نظام کو منظم رکھتا ہے ۔ آیوڈین اس کا بنیادی عنصر ہے جس کی مقدار 0.1 سے 0.15 ملی گرام ہوتی ہے۔ آیوڈین مختلف مقدار میں دونوں قسم کی غذاؤں یعنی سبزیوں اور جانوروں میں پائی جاتی ہے ۔ اس کا دارو مدار اس زمین پر ہے جہاں وہ سبزی اگائی جاتی ہے یا جانور پالے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے علاقوں میں خاص طور پر پہاڑی علاقے میں مٹی اور پانی میں بہت کم آیوڈین پائی جاتی ہے۔ اگر وہاں کی آبادی صرف اپنے علاقوں کی پیداوار پر انحصار کرے تو ان کی خوراک میں آیوڈین کی کافی کمی ہو جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کی صورت میں تھائرائیڈ ندود بڑھ جاتے ہیں لہذا ہم اسے علاقائی یا مقامی مرض کہیں گے ۔ اگر چہ کچھ حالات میں اس کے کچھ اور عوامل بھی ہو سکتے ہیں لیکن بہت سے علاقوں میں جہاں مقامی طور پر گلہڑ ہو وہاں آیوڈین کی مقدار کی کمی ہے۔
بیماری کی بڑی وجہ
آیوڈین کی کمی گلہڑ کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آیوڈین ایک ایسا غذائی جزو ہے جو جسم میں بہت کم مقدار میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک بالغ آدمی کے جسم میں آیوڈین کی کل مقدار 50/20 ملی گرام ہوتی ہے جس سے میں سے 8 ملی گرام صرف تھائرائیڈ غدود میں ہوتی ہے گو کہ تھائرائیڈ سائز میں بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن گلہڑ ہونے کی صورت میں سائز میں بڑھ جاتا ہے۔ مقامی گلہڑ ہمالیہ کے جنوبی نشیبی علاقوں میں ایک مخصوص وقت میں پایا جاتا ہے ۔ مقامی گلبر عام طور پر بلوچستان چترال سوات گلگت اور ریاست آزاد کشمیر میں صوبہ سرحد سے شمال کی طرف صوبہ سندھ کے میدانی علاقوں میں ہوتا ہے۔
بچوں میں بیماری کی شرح
ایک مشاہدے کے مطابق چھوٹے بچے یعنی سکول نہ جانے والے بچوں میں تقریبا 4 29 فیصد بچے اس بیماری میں مبتلا تھے ۔ چترال کے ایک گاؤں موری میں ایک مشاہدے کے دوران 683 افراد کا سروے کیا گیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ اوسط 80 فیصد افراد اس بیماری میں مبتلا تھے ۔ جبکہ خواتین میں یہ اوسط زیادہ تھی یعنی کہ 85 فیصد پائی گئی۔ اس طرح گلگت کے ایک گاؤں دینور میں 1972 ء کے مشاہدے کے مطابق اوسط 74 فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلا پائے گئے جبکہ خواتین میں یہ اوسط 8 فیصد تھی اور اہم بات یہ تھی کہ دس سال سے کم عمر بچوں میں تقریبا 65 فیصد بچے اس بیماری میں چھوٹی عمر سے بتلا تھے۔
گلہڑ کی اقسام
گلہڑ گردن کے تھائرائیڈ غدود کے بڑھنے سے ہوتا ہے جسے مندرجہ ذیل درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
درجہ اول
عام پوزیشن میں گردن پر سوجن نظر آتی لیکن اگر گردن کو اونچا کیا جائے تو ملک کی سوجن نظر آتی ہے یا پھر کھانا کھانے کے دوران یہ سوجن نظر آسکتی ہے۔
درجہ دوم
عام پوزیشن میں گردن پر ہلکی سوجن نظر آتی ہے یہ سوجن غدود کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے اور ہاتھ لگانے سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
درجہ سوم
تھائرائیڈ غدود کی سب سے بڑی قسم ہے گردن بہت زیادہ چوڑی ہو جاتی ہے۔ اگر دیکھنے والا مریض کے پیچھے کھڑا ہو کر دیکھے گا تو اسے گردن کے دونوں طرف بڑھے ہوئے غدود نظر آئیں گے۔
گلہڑ کے اثرات
ایک اندازے کے مطابق ساری دنیا میں تقریبا 20 کروڑ افراد اس بیماری کا شکار ہیں جہاں پر یہ مقامی بیماری کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں پر لوگ آیوڈین کی کمی کے مختلف درجات میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔ خواتین اور خاص طور پر نو جوان لڑکیاں اس بیماری میں جتلا ہوتی ہیں کیونکہ ان کو آیوڈین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں مقامی گلہڑ اس وقت زیادہ قابل غور ہوتا ہے جب کسی علاقے کی 5 فیصد سے زیادہ لڑکیاں اس کا شکار ہوں چند بہت زیادہ آیوڈین کی کی والے علاقوں میں کل آبادی کا 80 سے 90 فیصد تک کا حصہ اس مرض میں جتلا ہے۔ عام طور پر ایسے مریضوں کے تھائرائیڈ غدود سیح کام کرتے رہتے ہیں اور گلہڑ نظاہری طور پر بہت واضح نہ ہو تو صحت پر زیاد و اثر نہیں پڑتا لیکن اگر آیوڈین کی شدید کی ہو جائے تو گلہڑ بڑھ جاتا ہے اور نہ صرف یہ ظاہر ہونے لگتا ہے بلکہ غدود کے عمل میں مختلف قسم کی رکا نہیں پیدا ہوتی ہیں اور اس میں گھیڑ کا سرطان ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ آیوڈین کی کمی کے سب سے زیادہ اثرات ماں کے شکم میں بچے کی نشو و نما پر پڑتے ہیں اور کافی عرصہ سے یہ بات یقین سے کہی جاتی ہے کہ ایسے مقامات پر جہاں گیر عام ہو وہاں پر دوسرے علاقوں سے زیادہ تر بچے بہرے یا کان کی تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جدید مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ آیوڈین کی کمی میں بتلا ماں کے بچے پیدائش کے وقت سے ہی مختلف بینی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں اور اس سے مختلف درمانی اور جسمانی کمزوری ہو جاتی ہے مثلا مشکل سے پیکان و غیرہ۔ گلہڑ کے مرض میں مبتلا افراد کی کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور یوں وہ ملک کی معاشی اور معاشرتی کارکردگی پر اثر کرتے ہیں اور یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ آیوڈین کی کی والے علاقے میں گلہڑ ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ یہ مرض اس لئے سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے کہ ہمارے ہاں ان علاقوں میں علاج معالجے کی سہولتیں نہیں پہنچائی جاتیں۔ معاشرے میں اس مرض کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پورے معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
مرض کے منفی اثرات
- بچوں کی شرح پیدائش میں کمی ہو جاتی ہے
- سکولوں میں حاضری کم ہو جاتی ہے
- حمل ضائع ہو جاتا ہے
- بچے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور ہو جاتےہیں
ایک مشاہدے کے مطابق چترال میں موری کے مقام پر جہاں آیوڈین کی کمی پائی جاتی ہے 4 فیصد بچے بہرے اور 2 فیصد ذہنی طور پر کمزور پائے گئے تھے۔
روک تھام
مقامی گلہڑ صرف اس وقت روکا جاسکتا ہے جب وہاں کے لوگ خوراک کے ذریعے آیوڈین کی مقدار لیتے رہیں یا دوسرے طریقوں سے اس کی کمی کو پورا کرتے رہیں۔ اس مرض کی روک تمام معاشی ترقی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ اگر خوراک کے مختلف ذرائع ہوں اور زیادہ خوراک ایسی جگہ سے حاصل کی گئی ہو جہاں کی مٹی میں آیوڈین شامل ہو لیکن اس طریقے سے آیوڈین حاصل کرنے میں برسوں لگتے ہیں، خاص کر ان مقامات پر جہاں اس کا اثر زیادہ ہو۔ دو طریقے ایسے ہیں جن سے ہم براہ راست آیوڈین حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک نمک میں آیوڈین شامل کرنا یا کچھ عرصے کیلئے آیوڈین والے تیل کا انجکشن لگوانا ۔
نمک میں آیوڈین ملانا
گلہڑ کی روک تھام کیلئے بہت سے ممالک میں نمک میں آیوڈین ملائی گئی ہے۔ اس عمل کیلئے بہت تجربے کی ضرورت ہے کہ کسی قسم کی آیوڈین ملانے کے اعتبار سے بہتر ہو گی اور اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے۔ آیوڈین کو نمک میں ملاتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا رنگ ذائقہ اور دوسری خوبیاں اثر انداز نہ ہوں۔ عام طور پر جہاں نمک میں آیوڈین ملائی جاتی ہے وہاں اس کے بیچنے کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے نمک میں آیوڈین ملا نا مؤثر اور اچھا طریقہ ہے جس پر ہم گھبڑ کی روک تھام کر سکتے ہیں۔
بافت میں انجکشن لگانا
ان علاقوں میں جہاں آیوڈین کا عنصر نمک میں آسانی سے نہیں ملایا جا سکتا ہے جیسا کہ ان علاقوں میں جہاں مقامی نمک استعمال ہوتا ہے وہاں مقامی طور پر گلہڑ موجود ہے۔ ایسے علاقوں میں گھڑ کی روک تھام کیلئے حاملہ عورتوں کو ایسے ٹیکے لگانا چاہئیں جو آیوڈین والے تیل سے تیار کئے گئے ہوں۔ ایک ٹیکہ سے آیوڈین کی اتنی مقدار حاصل ہو جاتی ہے جو تین یا چار سال تک کافی ہوتی ہے۔ یہ طریقہ اس جگہ کارآمد ہوتا ہے جہاں کی زیادہ آبادی اس بیماری میں مبتلا ہو کر اگر اس کو حمل سے پہلے یا حمل کے دوران ٹیکہ لگا دیا جائے تو آیوڈین کی کمی کا خطرہ نہیں رہتا اور آئندہ نسل میں نی معذوری کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ مقامی آبادی میں سے ہر آدمی اس مرض سے غیر محفوظ ہے ۔ اگر وہ ٹیکہ لگوا لے تو تین سے پانچ سال کی مدت کیلئے اس مرض سے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن حقیقت میں ترقی پذیر ملکوں کے محدود وسائل کی بناء پر ایک مستقل بوجھ ہے اس کے علاوہ یہ عارضی طور پر استعمال ہو سکتا ہے جبکہ آیوڈین ملا نمک استعمال اس مسئلے کو حل کرنے میں کافی حد تک مدد دے رہا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "بیماری اور اس کی وجوہات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ