دیہی زندگی

دیہی زندگی ⇐ دیہی کمیونٹیوں میں زندگی شہری کمیونٹیوں سے مختلف ہوتی ہے چونکہ ہماری آبادی کا تقریبا 72 فیصد حصہ دیہات میں بستا ہے اس لئے ان لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں اور دیہات کو ترقی دینے والے طریقہ کار کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

دیہی زندگی

دیہی زندگی کے ڈھانچے کے اہم خدو خال

جونہی ہم شہروں سے دیہی علاقوں کی طرف جاتے ہیں سب سے پہلے سر سبز کھیت اور کسان ہمارا استقبال کرتے ہیں جن میں کوئی فصل کو پانی دے رہا ہوتا ہے کوئی زمین میں ہل چلا رہا ہوتا ہے کوئی بیچ بورہا ہوتا ہے تو کوئی فصل کاٹ رہا ہوتا ہے

علاقے

جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم دیہی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں ۔ یہ گھر عموماً کھلے کھلے ہوتے ہیں۔ درمیان میں صحن ہوتا ہے۔ گلیاں اور محلے ترتیب سے نہیں بنے ہوتے اکثر گلیاں ٹیڑھی میڑھی ہوتی ہیں اور عموماً گندی ہوتی ہیں۔ 

سرکاری

ہر گھر انفرادی طور پر یہ کوشش ضرور کرتا ہے کہ اپنے گھر کے سامنے کا حصہ صاف مگراس کےباو جود سرکاری طور پر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا اس لئے کئی جگہوں پر اس کے ڈھیر ملتے ہیں۔

جدید سہولتوں کا فقدان

زندگی میں جدید سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ بہت سے دیہات ایسے بھی ہیں جہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچ سکی۔ سوئی گیس کی سہولت بھی موجود نہیں ۔ اکثر دیہات تک کی سڑک نہیں جاتی ۔ پانی عموما ہینڈ پمپ سے حاصل کیا جاتا ہے۔

 آبادی

دیہی زندگی پاکستان کی مردم شماری کے مطابق وہ علاقہ دیہات کہلاتا ہے جس کی آبادی پانچ ہزار افراد سے کم ہو۔ دیہات میں عموماً گھر کھلے اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔

گاؤں

ایک جگہ پر تقریبا سو دو سو تک گھر ہوتے ہیں جو ایک گاؤں کہلاتا ہے۔ مگر یہ گاؤں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پھیلتے جاتے ہیں۔ پنجاب 72.4 فیصد دیہی آبادی ہے۔ سرحد میں 84.8 فیصد بلوچستان میں 84.4 فیصد سندھ میں 56.7 فیصد اور فاٹا میں 94.5 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے۔

پیشے 

دیہی معیشت کا انحصار مکمل طور پر زراعت پر ہوتا ہے ۔ یہاں زیادہ تر گھرانے کا شتکاروں کے یا پھر کاشتکاروں کے کام میں تعاون کرنے والے پیشہ وروں کے ہوتے ہیں۔ کاشتکاروں کی مزید کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

پیشے 

زمیندار

پاکستان کے اکثر گاؤں ایسے ہیں جہاں اس قسم کے لوگ بستے ہیں جو اپنی زمین خود کاشت نہیں کرتے ۔ ان لوگوں کے پاس زمین کافی ہوتی ہے جو انہوں نے مزارعین کے سپرد کر رکھی ہوتی ہے۔

رقم وصول کرنا

ان لوگوں کا کام سال کے بعد ان سے رقم وصول کرنا ہوتا ہے۔ آغا سجاد حیدر کے لگائے گئے ایک سطحی اندازے کے مطابق 150 ایکڑ نہری یا 10 ایک غیر سے نہری زمین کے مالک بڑے زمیندار کہلاتے ہیں

کاشت

جو زمین خود کاشت نہیں کرتے۔ 25 سے 150 ایکڑ زمین کے مالک جو چھوٹے زمیندار کہلاتے ہیں وہ بھی اکثر اپنی زمین خود کاشت نہیں کرتے ۔

زمینداروں کی تعداد

ایک اندازے کے مطابق بڑے زمینداروں کی تعداد 12 ہزار سے 15 ہزار اور چھوٹے زمینداروں کی تعداد 2 لاکھ سے 2 لاکھ پچاس ہزار تک ہے۔

 چھوٹے کاشتکار

ایکڑیا اس سے کم نہری یا بارانی زمین کے مالک نہ صرف اپنی اراضی پر خود کاشت کرتے ہیں بلکہ گزر اوقات کرنے کیلئے اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کی زمین پر بھی کاشت کرتے ہیں۔

خوشحال مزارعین

یہ ایسے مزارعین ہیں جن کے پاس بڑے رقبے کے فارم ہوتے ہیں ان کے ٹھیکے کی معیاد لمبی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کاشتکار تسلی سے ان فارموں پر کاشت کرتے ہیں اور ان کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں

تحریری معاہدہ

جس سے زمیندار کے ساتھ ساتھ خود ان کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس قسم کے مزارعین کو زمین دیتے وقت عموماً تحریری معاہدہ عمل میں لایا جاتا ہے تاہم یہ طریقہ کاشت کے معاملے میں خود مختار ہوتے ہیں۔

تحریری معاہدہ

مزدور

وہ لوگ جو کھیتی باڑی کے کام سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے، چھوٹی موٹی مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے ہیں ۔ فصل کی بیجائی اور کٹائی کے موقعوں پر اکثر ان لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جن کو روزانہ اجرت کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے یا پھر فصل کی صورت میں یہ اپنی اجرت لے لیتے ہیں۔

معاون پیشے

کاشتکاروں کے علاوہ دیہات میں بنیادی ضروریات پورا کرنے کیلئے اور بھی مختلف پیشوں کے لوگ ملتے ہیں جن میں زیادہ تر کمہار لوہار ترکھان نائی اور قصائی وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ اکثر گاؤں میں حکیم صاحب بھی موجود ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر البتہ بہت کم گاؤں میں ملتے ہیں ۔

رہنے سہنے یا معاشرت کے انداز

دیہات میں لوگوں میں اتحاد کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے ان لوگوں کی طرز زندگی عام طور پر ایک سی ہوتی ہے۔ ان کاذہنی معیار بھی ملتا جلتا ہے۔

صلاحیت

لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔

بھائی چارے کا جذبہ

یہ لوگ اپنے دیہات سے باہر کے لوگوں میں جلد گھل مل نہیں پاتے مگر اپنی حدود کے اندران میں بھائی چارے کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور تقریبا سبھی لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

بھائی چارے کا جذبہ

سادگی

دیہات میں عام طور پر لوگ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی ضروریات اور خواہشات بڑی سادہ ہوتی ہیں ۔ یہ لوگ فطرت کے بہت نزدیک ہوتے ہیں اس لئے عموما شور شرابے اور گہما گھمی پسند نہیں کرتے ۔

رہائش

ان کی خوراک ان کے لباس اور رہائش ہر چیز میں سادگی تپکتی ہے۔ یہ لوگ عموما مہمان نواز ہوتے ہیں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر مہمان کی خاطر کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

 قدامت پسندی

ہمارے دیہات میں اکثر لوگ قدامت پسند ہوتے ہیں۔ اپنی ثقافت اور روایات سے ان کو بہت زیادہ پیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو جلد قبول نہیں کر پاتے۔ وہ نئی تبدیلیوں کے منفی پہلوؤں پر زیادہ زور دیتے ہیں اور قدیم روایات میں کوئی نہ کئی بھلائی اور سمجھداری کا پہلو نکال لیتے ہیں۔

دیہی خاندان

اکثر دیہات ایسے ہیں جہاں خاندان مشترکہ ہیں لوگ بزرگوں کا احترام کرتے ہیں ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں کو حتمی حیثیت دیتے ہیں۔ اگر چہ اب زندگی کی نئی ضرورتوں کے تحت دیہات میں بھی سادہ خاندان  کا رواج بڑھ رہا ہے

خاندان کی خوبیاں

اس کی حالت کچھ اس طرح ہے کہ سارے بھائی شادی کے بعد رہتے تو ایک ہی گھر میں ہی مگر کھانا پکانا الگ الگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے مشتر کہ خاندان کی خوبیاں بھی ان میں شامل رہتی ہیں۔

جدید آلات کے فقدان

یہ ایسا کرنے پر اس لئے بھی مجبور ہوتے ہیں کہ اکثر ان کی اراضی ایک جگہ پر ہی ہوتی ہے جس میں بٹوارے کے باوجود یہ ایک دوسرے کے فارموں پر کام کرتے ہیں چونکہ جدید آلات کے فقدان کی وجہ سے افرادی قوت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لئے مل جل کر رہنا زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

غربت

اگر چه ملک معاشی لحاظ سے ترقی کی طرف گامزن ہے مگر اس کے باوجود یہ ترقی دیہی علاقوں کی حالت کو زیادہ تر متاثر نہیں کر سکی ۔ ہمارے دیہات کے اکثر لوگ آج بھی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

غربت

مقروض

یہ لوگ سارا سال محنت کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے اور بہت سے لوگ بڑے زمینداروں کے مقروض رہتے ہیں۔ اس لئے وہ مزدوری کر کے فصل کے موقع پر قرض اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

محنت مزدوری

ان کی غربت کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا گزر بسر صرف زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کی پیداوار پر ہی ہوتا ہے یا پھر محنت مزدوری پر ہوا ہے۔ یہ لوگ اسکے علاوہ کوئی دوسرا کا نہیں کرتے جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔

وسائل

دوسری وجہ یہ ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ لوگ شادی بیاہ پیدائش اور مرگ کی رسموں پر بہت سا پیسہ خرچ کر ہتے ہیں جس سے اکثر مقروض رہتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ غریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

تعلیم کی ضرورت

دیہات کے لوگوں کی زندگی کا ایک اور اہم پہلا تعلیم نے بے بہرہ ہوتا ہے۔ اگر چہ حکومت تعلیم کو عام کرنے کیلئے بہت سی کوششیں کر رہی ہے

تعلیم حاصل کرنا

اس کے باوجود ہمارے اکثر دیہات میں ابھی تک تعلیم کی روشنی نہیں پہنچ پائی۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی تعلیم حاصل کرناضروری تصور نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں سکول بھیجنے کی بجائے بچے کو کھیتوں میں بھیجا زیادہ فائدہ مند ہے۔

اکثر دیہات

دیہات کے لوگ اپنی غربت کے ہاتھوں نہ تو پڑھائی کیلئے پیسہ خرچ کر سکتے ہیں اور نہ ہی وقت ۔ اس کے علاوہ اکثر دیہات ایسے ہیں جہاں پرائمری سکول بھی نہیں ہیں۔ اس لئے لوگ دوسرے دیہات میں اپنے بچے بھیجنا پسند نہیں کرتے

اکثر دیہات

ترقی پذیر ملک

جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہیں۔ یہ حالت صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ اکثر ترقی پذیر ملک میں خواندہ یاپڑھے لکھ افراد کی تعداد بہت ہی کم ہے اور جتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں نہ وہ اکثر شہروں میں رہتے ہیں۔

پسماندگی

دیہات میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پسماندگی اور غربت وافلاس لازم و ملزوم ہیں۔ ناخواندگی کے باعث کاشتکار جدید زرعی معلومات سے بے بہرہ رہتے ہیں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کی تدابیر اور طریقوں کا علم نہیں رکھتے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کودیہی زندگی  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

……..دیہی زندگی   ………

Leave a comment