رسد

رسد

کسی شے کی وہ مقدار جو فروخت کرنے والے کسی خاص قیمت پر بیچنے کے لیے تیار ہوں رسد کہلاتی ہے۔ گویا کسی شے کی رسد کا تعلق براہ راست آجر اور صنعت کار سے ہوتا ہے۔ اس لیے فروخت کار زیادہ منافع کمانے کی غرض سے قیمت بڑھنے کے ا ہے کیا جاتا ہے اور یت کم ہوے ہے ا و ر ا ا ا ا ا ا نے ان کے ہیں اینایی میں تبدیلی کے ساتھ اشیا کی رسد کو کم یا زیادہ کر کے اختیار کرتے ہیں رسد کا نام دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 50 کلوگرام چینی 22 روپے فی کلو گرام کے حساب سے بچنے کے لیے منڈی میں لائی جائے تو چینی کی یہ مقدار رسد کہلائے گی۔

رسد

سادہ الفاظ میں رسد سے مراد

کسی شے کی وہ مقدار جو ایک خاص عرصہ میں خاص قیمت پر منڈی میں فروخت کے لیے لائی جاتی ہے۔

رسد کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

  1. کسی شے کی رسد ہمیشہ ایک خاص قیمت کے ساتھ مسلک ہوتی ہے۔ قیمت کے بغیر سر کا صیح اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قیمت کا ذکر کئے بغیر ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ آجر کتنی چینی بچے کو تیار ہیں۔ اس لیے چینی کی رسد کا صیح اندازہ لگانے کیلئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ قیمت بڑھنے پر چینی کی رسد بڑھ جاتی ہے اور اس کے برعکس کم قیمت پر رسد گھٹ جاتی ہے
  2. کسی شے کی رسد ہمیشہ عرصہ وقت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے ۔ مثلاً پچھلے ہفتے چینی کی قیمت 22 روپے فی کلو گرام تھی اور اس ہفتے چینی کی قیمت 23 روپے فی کلوگرام طے کی گئی ہے۔
  3. کسی شے کی قیمت اور رسد میں براہ راست تعلق پایا جاتا ہے یعنی جب کسی شے کی قیمت بڑھتی ہے تو اس شے کی رسد بھی بڑھ جاتی ہے اور قیمت کم ہونے پر شے کی رسد بھی کم کر دی جاتی ہے۔

 

ذخیرہ اور رسد

ذخیرہ (Stock)  کسی شے کی کل پیداوار کا وہ حصہ ہے جو تاجر یا فروخت کار اپنے گوداموں، دوکانوں یا کارخانوں میں فروخت کے لیے ایک خاص عرصہ کیلئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی تاجر کے پاس 500 کلوگرام چینی گودام میں موجود ہے اور اسے بچنے کیلئے منڈی میں نہیں لایا تو چینی کی یہ مقدار ذخیرہ کہلائے گی۔ جبکہ معاشی اصطلاح میں رسد سے مراد کسی ہے جو خاص قیمت پر خاص عرصہ میں فروخت کیلئے منڈی میں لائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر 200 کلوگرام چینی 20 روپے فی کلو گرام کے حساب سے بچنے کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہے تو چینی کی یہ مقدار رسد کہلائے گی۔ لہذا کسی شے کی رسد ہمیشہ قیمت کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جبکہ ذخیرہ کا اندازہ لگانے کیلئے قیمت کا ذکر ضروری نہیں ہوتا۔

رسد کی اقسام

رسد کی درج ذیل تین اقسام ہیں۔

بازاری رسد

کسی شے کی وہ مقدار جو منڈی میں ایک خاص قیمت پر ایک خاص عرصہ کیلئے فروخت کے لیے دستیاب ہو بازاری رسد کہلاتی ہے۔ بازاری رسد کی صورت میں شے کی قیمت میں اضافہ کے باوجود رسد کو بڑھایا نہیں جاسکتا کیونکہ شے کی رسد کو بڑھانے کیلئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 200 کلوگرام مچھلی منڈی میں لائی جاتی ہے تو قیمت بڑھ جانے کے با وجود مچھلی کی رسد کوفوری بڑھانا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ مچھلی کی زائد مقدار کو منڈی میں مہیا کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔

 قلیل عرصہ کی رسد

قلیل عرصہ کی رسد کو شے کی طلب کے تقاضوں کے مطابق پورا کرنے کیلئے ایک خاص حد تک زیادہ یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے کاروبار جو قلیل عرصہ کیلئے پیداواری عمل میں اترتے ہیں مثلاً برف بنانے کے کارخانے ، آئس کریم بنانے والی فیکٹریاں وغیرہ۔ اگر برف اور آئس کریم کی قیمتیں وقتی طور پر بڑھ جائیں تو مذکورہ کارخانے اور فیکٹریاں اپنے پیدائش عمل کو تیز کر کے پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح قیمت کم ہونے پر رسد کو کم کر سکتے ہیں۔

طویل عرصہ کی رسد

جب کسی شے کی رسد طویل عرصہ تک مستقل نوعیت کی حامل ہو اور قیمت بڑھنے کے باوجود شے کی طلب میں اضافہ مستقل نوعیت کا ہو تو ایسے میں زائد طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے آجر اسی صنعت کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے کوششیں شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ غیر معمولی منافع کما سکیں۔ مذکورہ صنعتوں کا عرصہ اتنا طویل ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں کئی نئے صنعت کار بھی غیر معمولی منافع کے حصول کے لیے ایسی صنعت کو اختیار کر لیتے ہیں۔ یاد رہے ایک خاص عرصہ کے بعد بہت زیادہ صنعتیں کھلنے کے باعث شے کی رسد میں بے تباشا اضافہ سے قیمت اپنے معمول پر واپس آ جاتی ہے۔ اس طرح طویل عرصہ میں رسد کو طلب کے مطابق آسانی سے کم و بیش کیا جا سکتا ہے۔

قانون رسد

قانون رسد معاشیات کا ایک اہم اصول ہے۔ جس کا تعلق براہ راست اشیا کو فروخت کرنے والوں سے ہوتا ہے۔ اس لیے اشیا کو بیچنے والے اپنے منافع کو مد نظر رکھتے ہوئے شے کی زیادہ مقدار کو زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور قیمت کم ہونے پر نے کی رسد کو کم کردیتے ہیں۔ شے کی قیمت اور رسد کے درمیان اس رحجان کا نام قانون رسد ہے۔

لہذا قانون رسد سے مراد

باقی حالات بدستور رہتے ہوئے جب کسی شے کی قیمت بڑھتی ہے تو اس شے کی رسد بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کے برعکس شے کی قیمت کم ہونے سے رسد بھی کم ہو جاتی ہے

قانون رسد کی رو سے ایک تاجر کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ جبکہ قیمت اور رسد کے درمیان مثبت تعلق پایا جاتا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شے کی جتنی قیمت زیادہ ہوگی اتنا ہی منافع زیادہ ہوگا۔ اس لیے شے فروخت کرنے والے غیر معمولی منافع کے حصول کے لیے پیداوار کا پیمانہ بھی بڑھا دیتے ہیں اور قیمت کم ہونے کی صورت میں شے کی رسد روک دیتے ہیں۔

قانون رسد کی گوشوارہ اور ڈائیگرام سے وضاحت

رسد

گوشوارہ میں چینی کی قیمت اور مقدار رسد دکھائی گئی ہے۔ گوشوارہ سے ظاہر ہے کہ چینی کی قیمت میں بتدریج اضافہ سے میں ا مقدار رسد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ قیمت اور رسد میں کمشیری رشتہ پایا جاتا ہے۔

رسد

40 50 S محور کے ساتھ چینی کی مقدار رسد اور لا محجور کے ساتھ چینی کی قیمت ظاہر کی گئی ہے۔ ڈائیگرام سے واضح ہے کہڈایا گرام میں x جب چینی کی قیمت 25 روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر 125 روپے فی کلو گرام تک پہنچتی ہے تو رسد بھی 10 کلوگرام سے بڑھ کر 50 کلوگرام تک ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قیمت اور رسد کی مقداروں کو ملانے سے SS خط حاصل ہوتا ہے جے خط رسد کہتے ہیں۔ اس خط کا رحجان تکثیری نوعیت کا ہے X اور یہ بائیں سے دائیں اوپر کی جانب اٹھتا ہے

 

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو رسد کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

 

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

 

Leave a comment