سزا اور اصلاح جرائم

سزا اور اصلاح جرائم ⇐ سزا کا مقصد انسداد جرائم ہے تا کہ معاشرے میں امن و سکون قائم ہو اس کا دوسرامقصد مجرم کو اس کے فعل کا بدلہ فراہم کرنا ہے ۔اس سے بھی مقصود اس کی اصلاح ہی ہوتی ہے۔ سزائے قید اس لئے دی جاتی ہے کہ معاشرہ مجرم کی تخریبی کارروائیوں سے کچھ عرصے کیلئے محفوظ رہ سکے اور مجرمین کی اصلاح کا موقع بھی ہاتھ آجائے ۔ علاوہ ازیں  جب مجرم کو آزاد معاشرے سے دور قید و بند سے ہمکنار کیا جاتا ہے تو اس پر آزادی کی قدر و قیمت خوب واضح ہو جاتی ہے۔

سزا اور اصلاح جرائم

جرائم کے انسداد

سزا جتنی سنگین ہوگی اسی قدر جرائم کے انسداد میں ایک تو مدد ملے گی اور دوسرے اس سے مجرم کی اصلاح ہوگی ۔ مجرم کو سزا اگر جلدی اور یقینی طور پرمل جائے تو اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے۔

عبرت

سنگین سزا سے دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کرتے ہیں۔ سزا خواہ سنگین ہو یا کم اگر اس سے مجرم کو جرم سے باز نہ رکھا جا سکے یا اس کی اصلاح نہ کی جاسکے تو اس سے سزا کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

جرم کی نوعیت

سزا کا اطلاق تاہم مجرم کے جرم کی نوعیت کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے۔ اگر مجرم نو آموز ہے یا اس نے کسی ہنگامی جذبے کے تحت جرم کا ارتکاب کیا ہے تو وہ ہمدردی کا مستحق ہے اور سزا میں کمی کا حق دار ہے تا کہ وہ ایک عادی مجرم میں تبدیل نہ ہو جائے لیکن اگر مجرم عادی خطا کار ہو تو اس کو سخت سزاملنی چاہیے۔ الغرض اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو جرائم کے اعادہ سے روکنے کیلئے ایک مکتب فکر کے مطابق مجرم کو جسمانی اعضاء سے محروم کر دینا چاہیے تا کہ وہ ارتکاب جرم کے قابل نہ رہ سکے۔

اسلام میں چوری کی سزا

اس لئے اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا ٹنا ہے تا کہ وہ ہاتھ جوغیر کے مال کی طرف بڑھتا ہے اس کا وجود ہی ختم کر دیا جائے ۔ اس سے ایک  تو  چوری بند ہو جاتی ہے

ممالک کا نظام

دوسرے لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ یہ دیکھا  گیا ہے کہ جن ممالک کا نظام عدل اس فلسفے پر قائم ہے وہاں بہت خوشگوار نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کی ہے اس لئے وہاں چوری نا قابل قیاس حد تک ختم ہو گئی ہے۔

ارتکاب

قانون کو موثر بنانے اور بہتر نتائج کیلئے ضروری ہے کہ ہم جس فعل سے کسی کو باز رکھنا چاہیں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو فورا ہی سزادی جائے اور طویل قانونی بہثوں سے احتراز کیا جائے۔

حوصلہ شکنی

مجرموں کو ان کی مذموم سرگرمیوں کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تا کہ وہ دوبارہ ان جرائم کے مرتکب نہ ہوں ۔ سزاؤں کے صحیح اطلاق سے جرائم کا سد باب اور مجرموں کی اصلاح کی جاسکتی ہے تاہم سنگین جرائم مثلا قتل اغواء ڈکیتی جیسے جرائم کا بار بار رونما ہونا ثابت کرتا ہے کہ سزا بہر حال کر پشن کے باعث لوگوں کی اصلاح و تربیت نہیں کرتی ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں ان ثقافتی و معاشرتی عوامل کا جائزہ لیا جائے جو جرائم کے اعادہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

حوصلہ شکنی

 پولیس اور انسداد جرائم 

جرائم کے سد باب اور اصلاح کا دارو مدار قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی پر ہے۔ اگر لوگوں کا پولیس اور عدالتوں پر اعتماد بحال ہو جائے تو صورتحال کی اصلاح ہو سکتی ہے۔

عوام کی نظر میں پولیس

عوام کی نظر میں پولیس نظم ونسق کے نمائندہ معززین اور مجرم پیشہ دنیا کے درمیان ایک واسطہ کی حیثیت رکھی ہے

نظم و نسق

قانونی مشینری کی موثر کار کردگی کا بنیادی حصار بھی پولیس ہی مہیا کرتی ہے اس لئے قانون نظم و نسق عوام اور پولیس کو لازم و ملزوم خیال کیا جاتا ہے چونکہ پولیس ریاست کے قانون کی نمائندگی کرتی ہے

قانون کی پابند

اس لئے اگر پولیس قانون کی پابند ہوگی تو لا محالہ قانون کی قدر و قیمت عوام کی نگاہ میں واضح ہوگی۔ جرم بقائے معاشرہ کیلئے ایک چیلینج کی حیثیت رکھتا ہے

قانون کا محافظ

عوام اور قانون کا محافظ ہونے کی حیثیت سے پولیس کی ذمہ داریاں مرکزی اہمیت کی حامل ہیں ۔ جرائم کے سد باب اور مجرموں کی اصلاح میں پولیس کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بے گناہ ملزم کا جیل اور اس کی صعوبتوں سے بچ جانے کا تو کوئی امکان ہوتا ہے لیکن پولیس کے ساتھ اس کا واسطہ ضرور پڑتا ہے ۔

پولیس کی اہمیت

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پولیس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پولیس کی کارروائی کی بنا پر جس طرح ایک قانون پسند شہری کے پیشہ در ایک مجرم بننے کے امکانات ہوتے ہیں اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دوسرا بڑا مجرم جرم سے توبہ کرلے۔ پولیس کا کام جرائم کو دبانا اور مجرم کوسزا دلانا ہی نہیںبلکہ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ جرائم کے اسباب و نتائج پر غور کرنے اور جرائم کی بیخ کنی کی خاطر بہتر اور موثر کارروائی کرے۔

جرائم کی روک تھام

پولیس کی اصلاح ہے جرائم کی روک تھام اور اصلاح بہت جلد ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس فورس کو موثر طور پر منظم کیا جائے۔

بنیادی ضروریات

پولیس کے اہل کاروں کی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کیا جائے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ اچھی پولیس کیلئے اسے سیاسی پارٹیوں کے نامناسب اثر سے آزاد کیا جانا ضروری ہے۔

جدید ہتھیار

جرائم کی سرکوبی کیلئے اس کے پاس جدید ہتھیار اور تیز رفتار گاڑیاں ہونی چاہئیں ۔ جرائم کی سائنسی تفتیش کیلئے جدید ترین تکنیک استعمال کی جائے ۔

قانون کا احترام

پولیس کے ادارے کو دھاندلیوں استحصال اور رشوت خوری سے نجات دلائی جائے۔ پولیس میں ایک چال چلن کے لوگوں کو بھرتی کیا جائے اور اسے بدنام سیاست سے نجات دلا کر قانون کا احترام کرنا سکھایا جائے۔

جیل خانے اور انسداد جرائم

جرائم کے ارتکاب اور عدالت سے سزا ملنے کے بعد مجرم کو جیل سے واسطہ پڑتا ہے۔ لہذا یہ ادارہ بھی اگر صحیح طور پر اپنا کام نہ کرے تو بجائے مجرموں کی اصلاح کے جیل خانے جرائم کی پرورش گاہ بن جاتے ہیں۔ جرائم کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ جیل خانوں کی بھی اصلاح کی جائے اور اس میں موجود نقائص کو دور کیا جائے ۔ عدالت کی رو سے قیدیوں کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہے۔ پہلی قسم ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو قید با مشقت بھگت رہے ہوتے ہیں

جیل خانے اور انسداد جرائم

مختلف اقسام کے قیدیوں

دوسری قسم میں سادہ قید بھگتنے والے افراد شامل ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عادی مجرموں کو انتقاقی مجرموں کے ساتھ نہ رکھا جائے ۔ مختلف اقسام کے قیدیوں کو یکجا رکھنے سے بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کم عمر قیدیوں کو بالغ قیدیوں سے علیحدہ رکھنا چاہیے تا کہ وہ عادی مجرموں سے مجرمانہ ثقافت نہ سیکھنے پائیں۔ جیل کی عمارت کھلی اور ہوادار ہونی چاہیے ۔ مجرموں سے مہذب انسانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے

منتظمین

ان کی عزت نفس اور خود داری کا خیال رکھنا چاہیے۔ جیل کے عملے کی ترش روئی اور بدسلوکی بعض اوقات مجرموں پر الٹا اثر ڈالتی ہے جس سے جیل میں مجموعی طور پر ایسا ماحول جنم لیتا ہے جہاں قیدی خود کو بے بس اور ستم رسیدہ تصور کرتا ہے۔ منتظمین قیدیوں کو معمولی نفرتوں پر غیر انسانی سزائیں دے ڈالتے ہیں اور ان کی زندگی میں ہرممکن طریقے سے ظلم کا زہر گھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجرمانہ رجحانات

اصلاح کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور مجرمانہ رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ عہد جدید میں ترقی یافتہ ممالک جیلوں میں اصلاح کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستانی جیلیں تاحال اس مقصد سے محروم ہیں ۔ قیدیوں کی نفسیاتی و سماجی الجھنوں کو پس پشت ڈال کر انہیں سخت اصولوں کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کرنے سے اصل مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ قیدیوں کے ساتھ مناسب سلوک ہونا چاہیے ۔ رشوت کو ختم کرنا چاہیے ۔ مجرموں کی اصلاح کیلئے جیل خانوں کی اصلاح ضروری ہے۔

 آزمائشی رہائی اور انسداد جرائم 

انسداد جرائم سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی بہت ناقص ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس ، عدالتیں اور جیل خانے مسائل وجرائم کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں جن لوگوں کو یہ ادارے صحت مند معاشرتی زندگی بسر کرنے کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان کے غیر صحت مندانہ سلوک کے باعث اور بھی بھٹک جاتے ہیں۔ زیر حراست ملزموں اور اتفاقیہ مجرموں کیلئے تو یہ ماحول اور بھی خطرناک ہوتا ہے۔

 آزمائشی رہائی اور انسداد جرائم 

اقتصادی عائلی اور نفسیاتی مسائل

یہ لوگ اقتصادی عائلی اور نفسیاتی مسائل سے دو چار ہوتے ہیں لیکن انہیں جب کچھ عرصے کیلئے جیل بھیج دیا جاتا ہے تو ان کی معاشی الجھنیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔  جب یہ رہا ہوتے ہیں تو ان کے گھر کی حالت خستہ تر ہو چکی ہوتی ہے۔ قیدیوں کو رہائی کے بعد اچھے روز گار نہیں ملتے۔

سماجی تعاون

لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور انہیں کسی قسم کا سماجی تعاون حاصل نہیں ہوتا۔ نتیجتا انہیں بھی معاشرے سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ اس نفرت کا اظہار سماج دشمن سرگرمیوں کے ذریعے کرتےہیں

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوسزا اور اصلاح جرائم  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

……..سزا اور اصلاح جرائم……..

Leave a comment