غذائی ریشوں سے مراد اور ان کی کمی سے متعلق امراض

غذائی ریشوں سے مراد اور ان کی کمی سے متعلق امراض پودوں سے حاصل کی جانے والی تمام غذا میں کچھ ایسے خلیوں سے مل کر بنتی ہیں جن میں سیلولوز بہی سیلواور گوند اور ایک اور قسم کا کیمیاوی عنصر لنین شامل ہیں ۔ یہ اجزاء جسم میں معدے اور انتڑیوں میں ہضم نہیں ہوتے اور نہ ہی نظام انہضام کے دوران یہ چھوٹے چھوٹے سادہ غذائی اجزاء میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہذا ان کو نذائی ریشے کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ سیا جزاء اگر چه خود اہم نہیں ہوتے لیکن دوسری اجزاء کے جنم ہونے اور جسم میں ان کے جذب ہونے میں اہم کام انجام دیتے ہیں۔ ان پر معدے اور آنت کے خامروں کا کوئی اکثر نہیں ہوتا لیکن ان کا خوراک میں مناسب مقدار میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے ۔ پاکستان کھانوں میں کچھ ایسی غذائیں شامل ہیں جن میں مناسب مقدار میں غذائی ریشے چھان بورے کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کی نسبت ڈبل روٹی ( جو نئے دور کی استعمال ہے ) میں غذائی ریشے کی کوئی مقدار موجود نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپین ممالک میں اب سفید ( یعنی کم چھان بورے والی ) ڈبل روٹی پر براؤن زیادہ چھان بورے والی ) ذیل روٹی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسی غذا ئیں جن میں غذائی ریشے کی کوئی مقدار موجود نہیں ہوتی ان میں تمام قسم کے تیل بھی دودھ پنیر چینی ہر قسم کا گوشت، انڈے اور تمام قسم کے مشروبات شامل ہیں جبکہ غذائی ریشے عموماً تمام قسم کے آئے، چھلکوں سمیت دالوں نیز اور مختلف سبزیوں اور پھلوں میں خاص طور پر ناشپاتی اور سیب میں موجود ہوتے ہیں۔ ماہرین غذائیت کی رائے کے مطابق غذا میں غذائی ریشے کی کی کا تعلق موجودہ دور کی بہت سی بیماریوں سے ہے۔ ان امراض میں سرفہرست قبض ، دل کے امراض اور ذیا بجلیس وغیرہ شامل ہیں ۔

غذائی ریشوں سے مراد اور ان کی کمی سے متعلق امراض

قبض

ہوتا پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق امیر طبقے کے افراد میں یہ مرض عام ہوتا ہے جبکہ غریب اور درمیانہ طبقے کے افراد میں یہ مرض بے حد کم پایا جاتا ہے۔ ہر صحت مند انسان کو دن میں ایک مرتبہ یا ہفتے میں سات مرتبہ رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اگر کس فرد کو ہفتہ میں ین او را رفع حاجت کی ضرورت ہے والے شخص کو بی کا ہے تین یا چار مرتبہ رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ایسے شخص کو قبض کا مرض ہوتا ہے۔ قبض کی معلوم کرنے کے سے کھائے اور فع حاجت کے معلوم کے جائے نوعیت معلوم کرنے کیلئے عموماً مریض سے کھانے اور فع حاجت کے معمولات معلوم کئے جاتے ہیں۔ مثلا کھانے کے بعد اور غذا ہضم ہو کر کتنے وقت میں جسم سے خارج ہوتی ہے اس وقت کو طب کی زبان میں ٹرانزٹ ٹائم یا خوراک کا سفر کہتے ہیں۔ خوراک کے اس سفر کو خاص طریقوں سے نا پا جاتا ہے۔ تحقیقات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جو خوراک حجم میں زیادہ ہو تو وہ انہضام میں خوراک کے اس سفر پر خرچ ہونے والے وقت کو کم کر دیتی ہے اور یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ جس غذا میں غذائی ریشے زیادہ موجود ہوں وہ حجم میں عام غذا سے زیادہ ہوتی ہے۔ جب نظام انہضام کے دوران غذا کا سفر کم ہو جائے تو قبض کی شکایت ہو جاتی ہے لہذا اس سے ثابت ہوا کہ متوازن غذا میں موجود غذائی ریشے انسان کے غذا کے سفر پر خرچ ہونے والا وقت کم کر دیتی ہے جس کی وجہ سے رفع حاجت کی جلد ضرورت محسوس ہوتی ہے اور قبض کی شکایت بھی باقی نہیں رہتی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی نسبت ترقی پذیر ممالک میں قبض کی شکایت بہت کم ہوتی ہے۔ مغرب ممالک کے افراد کی غذا میں کیونکہ غذائی ریشے ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت کم موجود ہوتے ہیں اس کی بہترین مثال نان ہے ۔ ڈبل روٹی جس میں عام روٹی کی نسبت بہت کم غذائی ریشے موجود ہوتے ہیں مغربی ممالک میں بے حد مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو قبض کی شکایت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قبض ہونے کی دوسری وجہ دن بھر کم پانی کا استعمال بھی ہے۔ پانی نظام انہضام میں خوراک کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور خود بھی آنت میں جا کر جذب ہو جاتا ہے۔ تحقیق نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ کچھ غذائی ریشے ( مثلاً گوند وغیرہ) اپنے اندر پانی جذب کر لیتے ہیں جو کہ ہضم ہونے کے دوران غذائی ریشوں سے الگ نہیں ہو پاتا اور غیر ہضم شدہ مرکبات سے مل کر ان کو قبض کشا بنا دیتا ہے اور قبض کی شکایت دور ہوتی رہتی ہے ۔ غذائی ریشے عموماً سبزیوں اور پھلوں میں کثرت سے موجود ہوتے ہیں اور ان میں موجود پانی غذا کو قبض کشا بنانے میں مدد دیتا ہے۔

قبض کا سد باب

قبض دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دو اہم باتوں کو مد نظر رکھیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں

  • متوازن غذا کا استعمال
  • پانی کا معمول سے زیادہ استعمال

دل کے امراض

متوازن غذا سے یہاں مراد ایسی غذا ہے جس میں غذائی ریشے والی غذاؤں کی معمول سے کچھ زیادہ مقدار شامل ہوتا کہ یہ فزائی دیئے خوراک میں موجود چکنائی کو خون میں جذب ہونے سے روک سکیں۔ خوراک میں موجود کولیسٹرول دل اور شریانوں کی دیواروں کے اندر جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے افرادان کے خول میں کولیسٹرول کی مقدار معمول سے زیادہ ہو۔ اگر اپنی غذا میں غذائی ریشوں کا استعمال معمول سے زیادہ کر لیں تو بشم ہونے کے دوران کافی کولیسٹرول ان غذائی ریشوں کے ساتھ مل کر رفع حاجت کے ذرایہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے اور فالتو کولیسٹرول دل خون میں شامل نہیں ہو پاتا۔ اس طرح ان افراد کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار معمول پر آجاتی ہے۔

ذیا بیطس

تجربات نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ذیا بیطس کے مریض کو اگر غذائی ریشوں سے بھر پور غذا کھلائی جائے تو اس کے خون میں موجود شکر کی مقدار معمول پر آنے لگتی ہے۔

یاد دہانی

ذیا بیس کے خون میں گلوکوز کی مقدار ایک صحت مند آدمی کے خون میں موجود گلوکوز کی مقدار سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔ ذیا بیطس کے مریض کو عام زبان میں شکر یا شوگر کا مریض کہا جاتا ہے۔ ذیا بیطس کے مریض کی غذا ترتیب دیتے وقت اگر یہ خیال رکھا جائے کہ کھانے میں نذائی ریشے زیادہ مقدار میں موجود ہوں تو یہ غذائی ریشے مریض کی غذا کا حجم بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کے جسم میں چکنائی کاربو ہائیڈ رئیس اور لحمیات کی کم مقدار داخل ہوتی ہے۔ اس طریقے سے مریض کو پیٹ بھرنے کا جلد احساس ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک تو مریض کا وزن بھی کنٹرول ہو جاتا ہے۔ دوسرے غذا میں موجود کاربوہائیڈ رئیس آہستہ آہستہ جذب ہو کر خون میں داخل ہوتے ہیں لہذا مریض کے خون میں کھانے کے بعد گلوکوز کی جو مقدار ایک دم بڑھ کر تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ غذائی ریشوں کی موجودگی میں یہ مقدار بہت زیادہ بڑھنے نہیں پاتی اور مریض کو آرام ملتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "غذائی ریشوں سے مراد اور ان کی کمی سے متعلق امراض"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment