محصولاتی آمدنی کا تناسب ⇐ ہر ملک کی طرح حکومت پاکستان بھی اپنی آمدنی محصولاتی اور غیر محصولاتی ذرائع سے حاصل کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی کا 79.47 فیصد سے زائد ٹیکسوں سے اور باقی ماندہ 20.53 فیصد دیگر ذرائع سے اکٹھا کرتی ہے۔ جبکہ صوبائی حکومتیں اپنی آمدنی کا تقریبا 50 فیصد سے زائد حصہ ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہیں۔ کیونکہ سرکاری محصولات میں دیگر ذرائع سے حاصل ت اس بات کی ہے کہ ملکی کاروباری شعبوں کو ترقی دی جائے۔ قدرتی وسائل مثلاً معد نیات ہونے والی آمدنی کا حصہ تیل، ایندھن کو کئے ہوئی گیس نمک وغیرہ کو استعمال کرکے سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کیا جائے تا کہ سرکاری اخراجات میں محصولاتی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کم ہو سکے اور معیشت کے تمام شعبوں کو متوازن ترقی کے مواقع فراہم کئے جاسکیں۔ چونکہ پاکستان میں براہ راست ( بلا واسطہ ٹیکسوں کے مقابلے میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار اور کثرت ہے۔ سرکاری آمدنی میں محصولاتی لیکس کی مد سے حکومت بالواسطہ ٹیکس سے فی صد اور بلا واسطہ ٹیکس سے 43.40 ی صد حاصل کرتی ہے۔ پاکستان میں بلا واسطہ ٹیکسوں کے مقابلے میں بالواسطہ ٹیکس زیادہ وصول کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عام صارفین پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے ۔ چکر بالواسطہ لیس اشیا کی قیمتوں میں شامل ہوتے ہیں اس لیے بالواسطہ ٹیکس نہ صرف قیمتوں کے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں بلکہ افراط زر کا انٹ بھی بنتے ہیں۔ ان کا براہ راست بوجھ عام صارفین پر پڑتا ہے اور خوشحال طبقہ ان ٹیکسوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔
بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب
ہے کہ پاکستان کے محصولاتی نظام کو اصول مساوات کے تقاضوں کے مطابق ترویج دیا جائے۔
قومی آمدنی میں محصولات کا تاب
پاکستان میں سرکاری محصولات خام ملکی پیداوار (Gross Domestic Product) کا صرف 16 فی صد مہیا کرتے 2 کہ ایک ترقی پذیر مل کےلیے ناکافی اور انتہائی کم ہے عام طور پر دیکھے میں آیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں محصولاتی کام ذریعے بچت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ پیداواری صلاحیت کو بڑھا کر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرتی ہیں اور آمدن مساویانہ تقسیم موثر بناتی ہیں۔ اس بحث کی روشنی میں اگر پاکستان کو پرکھا جائے تو یقیناً حکومت پاکستان کا محصولاتی نظام معیشت کے شعبی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لہذا دورِ حاضر کی یہ ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان دولت مند طبقہ سے براہ راست نیکی ہو کر کے عوام کی فلاح وبہبود اور معاشی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرے تا کہ دولت کی مساویانہ تقسیم کے ساتھ ملک سے غربت اور افلاس کا بھیخاتمہ ہو جائے اور ملک کا محصولاتی نظام زیادہ فعال مخطوط پر استوار ہو جائے۔ کی پوری(
سرکاری مالیات
میں 195.4 ملین عوام میں سے تقریبا 28 لاکھ افراد ٹیکس دہندہ ہیں اور باقی ٹیکس دہندگان اپنی صحیح آمدنی ظاہر نہیں کرتے بلکہ محکمہ ٹیکس کے پاکستان کے نظام محصولات میں ٹیکس چوری ہونا اور لوگوں کا حیلے بہانے بنا کر بیچ نکلنا بڑی معمولی بات ہے۔ اس وقت پاکستان عملے سے مل کر کم آمدنی ظاہر کر کے بچ نکلتے ہیں اور معاشرے میں رشوت ستانی کی عادات فروغ پاتی ہیں ۔ جس سے سرکاری خزانے کو بڑا قصان پہنچتا ہے۔ حکومت کی آمدنی کم ہو جاتی ہے اور اسے کھربوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان حالات میں پاکستان کے نظام محصولات کی از سر تو اصلاح ضروری امر ہے۔
غیر موثر نظام
پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام غیر موثر غیر منصفانہ اور ناقص اقدار پر قائم ہے۔ لوگ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جھوٹ اور بددیانتی سے کام لیتے ہیں ملک میں امیر اور غریب کا واضح فرق بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جن لوگوں پر براہ راست ٹیکس عائد کیا جاتا ہےوہ مختلف طریقوں سے انگلر ٹیکس کے عملے سے ساز باز کر کے رشوت کے سہارے ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور پھر حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے الواسط کیوں کا سہارا لی ہے۔ بالواسط فیسوں میں اضافہ سے غریب آدمی پر بوجھ بڑھ جاتا ہے اور معاشرہ عدم توازن کا شکار بن جاتا ہے جرم اور افراتفری کی فضا پر وان چڑھتی ہے۔
ٹیکسوں کا تنزیلی نظام
پاکستان میں براہ راست ٹیکسوں کی وصولی متزائد ٹیکس کے نظام کے تحت کی جاتی ہے جو اصول مساوات ے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ یعنی پاکستان میں انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس براہ راست نوعیت کے ہیں ۔ جس میں شرح لیکس پر آمدنی ڑھنے کے ساتھ بڑھ جاتی ہے اور آمدنی کم ہونے پر کم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس بالواسطہ ٹیکسوں کا نظام اصول مساوات کے مان ہے۔ ایکس تنزیل نوعیت کے ہوتے ہیں اوراشیا کی قیمتوںمیں شامل ہوتے ہیں۔اس لیے جب امیر اور غریب لوگ ان اشیا کو خریدتے ہیں تو ان کا بوجھ امیر لوگ کم برداشت کرتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے بالواسطہ ٹیکس کی بھی نئے سرے سے اصلاح کی جائے۔
اصول سادگی اور چمکداری
پاکستان میں ٹیکس گذار اپنی قابل ٹیکس آمدنی کا تخمینہ لگا کر خودہی واجب الادائیکس کی ادائیگی کر دیتا ہے اور اسے کسی قسم کی مشکل کا استانیں کرنا پڑتا۔ اس طرح حکومت پاکستان مختلف طبقات کے ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت میں کی یا بیشی کے ساتھ شرح ٹیکس میں بھی روہ بول کرتی رہتی ہے اس طرح اصول سادگی اور لچکداری ملک کے محصولاتی نظام کو تقویت بخشتے ہیں۔
اصول پیداواری
حکومت بچوں کی حوصلہ افزائی اورسرمایہ کاری کو فروغ دینےکے لیے تاجروں اورعوام کو کیس میں رعایت یا چوٹ دیتی ہے اور اشیائے تعینات کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر بھاری ٹیکس عام ہے۔ اس طرح ملک میں نظام محصولات اصول پیداوارگی کا در محمل میں لایا جاتا ہے۔ بچے دیے گئے ہر سوال کے چار حمتہ جواہات میں سے درست جواب پر (۷) کا نشان لگا ئیں۔ حکومت کی سرکاری آمدنی اور اخراجات میں باہمی تنظیم اور انتظام کو کہتے ہیں۔ محی مالیات صوبائی مالیات سرکاری مالیات معاشی مالیات نجی مالیات میں ہر فرد کے بجٹ کی میعاد ہوتی ہے۔ درج ذیل میں سے کس اصول کے تحت ہر شخص اپنی مالی حیثیت کے مطابق فیس ادا کرتا ہے۔ ایک سال ایک ماہ چه ماه کوئی میعاد مقرر نہیں اصول تیقن اصول مساوات اصول سادگی اصول لچکداری ٹیکس عائد کرنے کے لیے پہلے چار اصول کس نے پیش کئے۔ مارشل ریکارڈو آدم سمتھ كيز درج ذیل میں سے کوئی ایک بالواسطہ ٹیکس میں شامل نہیں۔ انکم ٹیکس ایکسائز ڈیوٹی بکری ٹیکس کسٹم ڈیوٹی سوال 2: درج ذیل جملوں میں دی گئی خالی جگہیں پڑ کریں۔ نیکس ملک میں افراط زر کا باعث بنتے ہیں۔ جب حکومت کی آمدنی اخراجات سے تجاوز کر جائے تو اُسے۔ کی پالیسی اپنانی پڑتی ہے۔ بلا واسطہ ٹیکسوں کا بوجھ پر پڑتا ہے۔ کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس کہتے ہیں۔ جو ٹیکس کسی دوسرے شخص پر منتقل نہ کیا جا سکے اسے۔
قومی آمدنی کے تصورات کا باہمی تعلق
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔