محنت کش طبقہ مزدور طبقہ کے مسائل ⇐ پاکستان میں محنت کش طبقہ کئی سے دو چار ہے جن میں سے ایک بہت اہم مسئلہ بے روزگاری ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
پست معیار اجرت
پاکستان میں محنت کش طبقہ کی اجرتوں کا معیار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی مسئلہ بے روزگاری ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔ نسبت کانی پست ہے۔ گذشتہ برسوں میں ظاہری اجرت زر کی صورت میں اجرت میں اضافہ کے باوجود حقیقی اجرت میں قابل ذکر اضا فہ نہیں ہو پایا۔ مزدوروں کی اجرتوں کے پست معیار کی کئی وجوہات ہیں : ملک کے اندر مزدوروں کی خدمات کی طلب ان کی رسد کی نسبت کم ہے۔ چونکہ کسی عامل پیداوار کی رسد کے زیادہ ہونے سے اس کی مختم پیداوار کم ہو جاتی ہے لہذا ملک میں محنت کی رسد زیادہ ہونے کے باعث اس کی مختم پیداوار کم ہے اس لئے وہ کم اجرت حاصل کر پاتے ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں کی استعداد دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کم ہے جس کا سبب ان کا پست معیار زندگی ہے، یعنی خوراک کا ناقص ہونا اور بیماریوں کی کثرت ان کی صحت کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس طرح مزدور طبقے کی پیدا آوری کم ہونے کے باعث وہ کم اجرتیں حاصل کر پاتے ہیں۔ اپنے (ج مزدوروں کی پیدا آوری کا ان آلات اور مشینوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے جو آجر لوگ اپنے کارخانوں میں استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ آلات ناقص ہیں، لہذا مزدوروں کی پیداواری صلاحیت بھی کم رہتی ہے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ مزدوروں کی پیداواری بھی اس لئے کم ہے کہ ان کی اجرتیں کم ہیں کیونکہ کم اجرتوں کا مطلب ہے پست معیار زندگی اور اس کا مطلب ہے کم پیداواری۔ آجر طبقے کا غیر ہمدردانہ رویہ بھی جزوی طور پر اس صورتحال کا ذمہ دار ہے کیونکہ ہمارے ملک کا آجر نفع تو زیادہ کماتا چاہتا ہے لیکن وہ اس میں سے مزدور طبقے کو اس کا جائز حق دینے میں بخل سے کام لیتا ہے۔ مزدور مزدور طبقے کی حیثیت پاکستان جیسے افراط آبادی والے ملک میں آجر کے مقابلے میں کافی کمزور ہے کیونکہ وہ اپنی صحت کا خیر نہیں کر سکے ہیں اور اپنی حت بجنے پر جو میں خواہ نہیں زیادہ اجرت طے پا کم۔
ناقص حالات
پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے اور فی احال یہاں کام کے حالات زیادہ خوشگوار نہیں ۔ کام کے اوقات زیادہ ہیں۔ کارخانوں میں صفائی کا معقول انتظام نہیں ہے۔ کئی ملوں میں مل مالکان معمولی معمولی باتوں پر مزدوروں کو ملازمت سے الگ کر دیتے ہیں۔
خواتین کی عدم شمولیت
ہمارے ملک میں عورتیں معاشی جد و جہد میں کم حصہ لیتی ہیں۔ عورتیں زیادہ تر تعلیم اور طب کے پیشے میں ملازمت حاصل کرتی ہیں، گو کہ اب آہستہ آہستہ دیگر محکموں میں بھی داخل ہو رہی ہیں۔ اجتماعی سودا بازی: پاکستان میں مزدور انجمن تحریک ابھی ابتدائی دور میں ہے اور محنت کش طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ اس تحریک سے مسلک نہیں ہو پایا۔
مسائل کا حل
او پر جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے انہیں حل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔ بیروزگاری کے مسئلہ کے حل کیلئے گذشتہ صفحات میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان پر عملدرآمد سے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقے کی اجرتوں کا معیار بلند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی استعداد کار میں اضافہ کر کے پیداوار بڑھائی جائے۔ افراط زر کی روک تھام کے مؤثر اقدامات کئے جائیں تا کہ مزدور طبقے کی قوت خرید برقرار رہے نیز قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ان کی اجرتوں میں متناسب اضافہ کیا جائے۔ کارخانوں میں کام کے حالات بہتر بنا کر بھی مزدوروں کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ کارخانے ہوں، ہوادار پیداوار زیادہ صاف ستھرے ہوں ، ہوادار ہوں، کام کے اوقات مناسب ہوں تو پیداوار زیادہ ہو جاتی ہے۔ بہتر جہد خواتین کے لئے کام کے ماحول کو بہتر بنا کر اوران کے لئے ملازمت کے مواقع بڑھا کر ملک کی معاشی جدو جہد میں اور انہیں پہلے سے زیادہ شرکت کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں مردور انجمن تحریک کو مقبول بنانے کی ضرورت ہے۔ محنت کش طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ ابھی تک اس تحریک سے منسلک نہیں۔
محنت کش طبقے کی فلاح کے قوانین
حکومت پاکستان وقتا فوقتا مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے اور کارخانوں میں کام کے حالات بہتر بنانے کیلئے قوانین نافذ کرتی رہی ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
کم سے کم اجرت کے متعلق قوانین
پاکستان میں مزدوروں کی اجرتوں کی عام سطح بہت پست ہے اور اس کی وجہ سے ان کا معیار زندگی بھی پست ہے۔ ہر مہذب معاشرے میں اس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ مزدور کوکم از کم اتنی اجرت ضرور ملنا چاہئے کہ جس سے اسے کم از کم معیار زندگی کی ضمانت مل جائے ۔ کم از کم اجرت کے حق میں یہ دلائل دیئے جاتے ہیں کم از کم اجرت مزدور طبقے کے اندر کام کے جذبہ کو پیدا کرتی ہے۔ اجر طلیقہ مزدوروں کی کمزوری سے ناجائز کا کردا انکرہ اٹھا کر ان کا استحصال نہیں کر سکتا ہے۔ کم از کم اجرت صنعتی سکون پیدا کرتی ہے اور مالو پر مالکوں اور مزدوروں کے جھگڑے کم ہوتے ہیں۔ (1) اس طرح صرف مستعد آجری منڈی میں ہوسکتے ہیں، فہرستہ آخرکار تے ہیں، غیر مستعد آخر کاروبار چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان فوائد کے ساتھ ساتھ بھی خامیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے وری ہے۔ جو یہ ہیں کم از کم اجرت مقرر کرنے سے آجروں کا نفع کم ہو جاتا ہے۔ اگر کم از کم اجرت مروجہ شرح اجرت سے زیادہ ہوتو اس طرح مصارف پیداوار کے بڑھ جانے سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کم از کم اجرت سے زیادہ قابل اور مستعد مزدوروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ ایک ہی پیشے میں سب مر دوروں کو ایک جتنی اجرت ملتی ہے۔ لیکن یہ خامیاں مناسب تدابیر سے دور کی جاسکتی ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ کم از کم اجرت کا اصول بنیادی طور پر درست ہے۔
مزدوروں کی فلاح کیلئے اصلاحات
پاکستان میں مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت مقرر کرنے کی تجویز پہلے پانچ سالہ منصوبہ اقر میں پیش کی گئی تھی۔ 1960ء ہوا جس میں پیشہ کی بنیاد پر ملازمتوں کی درجہ بندی، اوقات کار تعطیلات اور شرح اجرت وغیرہ کی تشریح کی گئی۔ اسی سال کو نکہ کی کانوں میں کام کرنے والوں کا آرڈینینس منظور کیا گیا جس کے تحت کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی کم از کم اجرت نوے روپے ماہوار اور کانوں سے باہر کام کرنے والوں کی کم از کم اجرت ساٹھ روپے ماہوار مقرر ہوئی ۔ اس طرح پہلی بار ایک صنعت میں کم از کم اجرت قانون نافذ ہوا۔ پھر 1960ء میں کم از کم اجرتوں کا ایک اور قانون نافذ ہوا جس کے تحت کچھ صنعتوں میں کم از کم اجرت مقرر کی گئی۔ پھر 1969ء میں کم از کم اجرت کا ایک اور قانون نافذ ہوا جس کے مطابق ہر ہنر مند مزدور کی تنخواہ کراچی میں 140 روپے ماہوار، دوسرے صنعتی شہروں میں 125 روپے ماہوار اور باقی تمام جگہوں پر 115 روپے ماہوار کی گئی۔ بے ہنر کارکنوں اور شاگرد کے طور پر کام کرنے والوں کی اجرتیں اور بھی کم تھیں۔ اس کے بعد گا ہے لگا ہے ان شرحوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ 2000ء میں بے ہنر مزدور کی اجرت کم از کم 2150 روپے سے بڑھا کر 2500 روپے کر دی گئی لیکن اضافے کو صارف زندگی کے مطابق نہیں ڈھالا گیا۔ پاکستان کے منصوبہ بندی بورڈ نے مزدور پالیسی کے ضمن میں چند اقدامات کئے ہیں (جن کا اعادہ چوتھے پانچ سالہ منصوبہ میں بھی کیا گیا جو مندرجہ ذیل ہیں۔ تمام بڑے پیمانے کی صنعتوں کیلئے کم از کم اجر میں مقرر کرنا جو ایک خاندان کی کم از کم اور معقول ضروریات کو پورا کر سکیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پیدا آوری کی قابلیت کے مسلسل مطالعے کرائے اور اجرتوں کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔
فیکٹری والے مزدوروں کے قوانین
فیکٹری ایکٹ 1924ء کا اطلاق پہلے چیدہ چیدہ صنعتی اداروں پر ہوتا تھا لیکن 1972ء میں اس قانون میں ترمیم کر دی گئی اور اب اس کا دائرہ تمام فیکٹری اور کارخانوں تک پہنچ گیا ہے جن میں مزدوروں کی تعداد دس یا زیادہ ہے۔ اگر فیکٹری میں مزدوروں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو تو مہینے کے اختتام کے بعد سات دن کے اندر اور اگر تعد او زیادہ ہو تو دس دن کے اندرا جر تیں ادا کر دی جائیں۔ 1959 ء کے ایک آرڈینینس کے تحت ہر اس صنعت میں جہاں 250 مزدور کام کرتے ہوں رعائتی نرخوں پر کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے کے لئے مالکان کو کینٹین قائم کرنا ہوگی اور اس کے سب اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ ملازمین کے مالی تحفظ کے رد میں کمرے 1965 کے فی درور اکیلی ہوتیں ہم پچانے کی اسکیم کا ام ایم ایس اسکیمیں شامل فرموں کے مزدوروں کی خوا و در قید کرتی ہوئی تھی اور ان ہی تم آج میں ادا کرتے تے جہاں 1972 کی پر اصلاحات کے تحت اب اس سکیم کی پوری لاگت آجروں کے ذمہ ہوگی۔ گروپ انشورنس اسکیم کے تحت اگر کام کے دوران یا بعد میں مرد در کو کوئی حادثہ پیش آجائے جس کے نتیجہ میں دو جسمانی طور پر ناکارہ ہو جائے یادہ فوت ہو جائے تو ہر دو صورت میں ایک معقول رقم بطور تلافی نقصان ادا کی جاتی ہے۔ اس اسکیم کا اطلاق تھی اور سرکاری دونوں شعبوں پر ہوتا ہے۔ جس کی پی ایس کے تحت پادین ان کی کتوتی داری دی گی ہے۔ نصف تم خود نظامی اس میں شامل کرتی ہے ہے تو امین کے مطابق و لازم کسی روی کپنی میں تواتر 15 سال تک ملازمت کرے وہ پنشن کا حقدار ہوگا۔ میاں فیکٹری میں ملازمین کی تعداد کم از کم میں ہے، سالانہ بونس کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ پچاس یا اس سے زیادہ ملازم کرنے والاتی ادارہ اپنےسالانہ مناف کا فیصد حصہ ایک شراکتی فقہ میں جمع کرتا ہے۔ اس فنڈ کا حساب د کتاب مزدور اور انتظامیہ کے نما محدوں پر مشتمل ایک ٹرسٹ کے ذمہ ہوتا ہے۔ میں کیری کا کار خانے میں نا زیادہ زور لازم ہوں اس کا مالک ہر سال بحساب ایک سوروپے فی مزدور تعلیمی لیکن حکومت کو ادا کرے گا تا کہ ہر مزدور تعلیمی میکس حکومت کو ادا کرے گا تا کہ ہر مزدور کم از کم ایک بچہ میٹرک تک مفت تعلیم حاصل کر سکے۔ صنعتی تنازعات کے ایکٹ 1929ء میں 1958 ء میں اور 1968 میں ترمیم کی گئی اور یہ طے پایا کہ اگر انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے ورکس کونسل میں پیش کیا جاتا ہے جو دونوں پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر کونسل کسی متفقہ فیصلے پر نہ پہنچ سکے تو مزدور تین روز کے اندر انتظامیہ کو ہڑتال کا نوٹس دے سکتے ہیں یا کوئی بھی فریق اس معاملے کو لیبر کورٹ میں لے جاسکتا ہے۔ کورٹ 20 دن کے اندر فیصلہ دینے کی کوشش کر یکی تا کہ غیر یقینی صورتحال ختم ہو کر صنعتی امن بحال ہو سکے۔ صنعتی اداروں کی انتظامیہ میں مزدوروں کی شمولیت کا قانون 1972 ء میں پاس ہوا۔ اس کے مطابق کمپنی کی انتظامہ میں میں فیصد تک مزدوروں کو ماندگی کاتی دیاجائیگا۔ نہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے محاسب یا آڈیٹر مقرر کر ا کے حسابات کی جانچ پڑتال کرواسکتے ہیں۔ تحریری طور پر وجوہ بتائے بغیر کسی مزدور کو ملازمت سے برطرفی نہیں کیا جا سکتا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "محنت کش طبقہ مزدور طبقہ کے مسائل" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ